’’جنریشن زی‘‘ کو درپیش مسائل
از:- قاسم علی شاہ
گرٹروڈ اسٹائن بیسویں صدی کی ایک باکمال شاعرہ تھی جس نے اپنے غیرروایتی طرز بیان اور منفرد الفاظ کی بدولت فنونِ لطیفہ کی دنیا میں انقلاب برپا کیا۔ وہ اپنے گھر میں ادیبوں اور مصوروں کے لیے ادبی اور فنی بیٹھک کا انتظام کرتی جس میں پابلو پکاسو، ہنری میٹیس اور ارنسٹ ہیمنگوے جیسے بڑے فن کار اور مصنفین شرکت کرتے تھے۔ گرٹروڈاسٹائن کا کمال یہ تھا کہ وہ اپنی تحریروں میں چیزوں کو دلچسپ تجریدی انداز میں بیان کرتی۔ اس نے پہلی جنگ عظیم کی تباہ کاریاں اور معاشرے پراس کے منفی اثرات کو قریب سے دیکھا اور اسی بنیاد پر 1883سے1900کے درمیان پیدا ہونے والی نسل کو ’’گمشدہ نسل‘‘کا نام دیا جسے بعد میں ارنسٹ ہمنگوے نے مقبول بنایا۔ یہ نسل پہلی جنگ عظیم میں بھاری جانی، جسمانی اور نفسیاتی نقصان کا شکار ہوئی۔ اسے معاشرتی عدم استحکام، کساد بازاری اور شناختی بحران (Identity crisis) کا سامنا بھی رہا جس کی وجہ سے یہ زندگی سے بیزار ہوگئی، یہاں تک کہ کئی نامی فن کاروں نے بھی شدید ناامیدی کے عالم میں زندگی کو بے معنی قرار دیا۔
بیسویں صدی میں نئی نسل کو نام دینے کاسلسلہ جاری رہا اورمختلف ماہرین کی طرف سے ہر نسل کوالگ الگ نام دیے گئے۔ 1901سے1927کے درمیان پیدا ہونے والی نسل کو ’’عظیم ترین نسل‘‘کہاگیا۔کیوں کہ یہ نسل دوسری جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کے باوجود ایک نئے عزم سے اٹھی اور دنیا کی تعمیر میں اہم کردارادا کیا۔یہ نسل اپنی محنت کی بدولت صنعتی انقلاب لے کرآئی،البتہ اس کے سامنے دو بڑی مشکلات تھیں، سردجنگ کانفسیاتی دباؤ اورجنگ سے تباہ حال دنیا کی تعمیر، اس نسل نے ان دونوں مشکلات کو بہترین انداز میں حل کیا۔
1928 سے1945کے درمیا ن پیدا ہونے والی نسل کو ’’خاموش نسل‘‘ کہاگیا کیوں کہ یہ نسل دوسری جنگِ عظیم کے دوران پروان چڑھی، اس لیے سیاسی و سماجی طور پر زیادہ سرگرم نہیں تھی۔یہ نسل نظم و ضبط کی پابند، وفاداراورازدواجی استحکام وسماجی نظم و ضبط پر یقین رکھتی تھی لیکن سخت روایتی ماحول میں پرورش پانے کی وجہ سے ان کی تخلیقی سوچ محدود تھی۔اس نسل کوصنعتی ترقی اور ٹیکنالوجی کی تیز رفتار تبدیلی جیسی مشکلات کاسامنارہا۔
جب دوسری جنگِ عظیم اختتام کوپہنچی تواس کے بعد دنیا بھرمیں بچوں کی پیدائش کی شرح میں زبردست اضافہ ہوا،اسی وجہ سے1946سے1964کے درمیان پیدا ہونے والی نسل کو Baby Boomersکانام دیاگیا۔یہ نسل خوش حال دور میں پروان چڑھی۔اس نے کرئیرپرخصوصی توجہ دی جس کی وجہ سے ذاتی اور پیشہ ورانہ زندگی میں عدم توازن کاشکار بھی ہوئی۔اس نسل کو مہنگائی، ریٹائرمنٹ کے بعد مالی مسائل اور ٹیکنالوجی کی تیزرفتار ترقی جیسے مسائل کا سامنارہا۔
1965سے1980کے درمیان پیدا ہونے والی نسل کو’’جنریشن X‘‘کہاجاتاہے۔ چوں کہ یہ نسل کسی خاص حوالے سے جڑی نہیں تھی اس لیے اسے Xکانام دیاگیا۔یہ نسل کمپیوٹر اور ویڈیوگیمزکے ساتھ پروان چڑھی۔اس نسل کے افراد خود مختار، حقیقت پسند،محنتی اورفیصلہ سازی کی اچھی صلاحیت رکھتے تھے، البتہ اس نسل میں طلاق کی شرح سب سے زیادہ تھی۔1990 کی دہائی میں معاشی عدم استحکام کے اثرات اس نسل پر پڑے اوریہWork-life balanceجیسے سنگین مسائل کاشکار ہوئی۔
1981سے1996کے درمیان پیدا ہونے والی نسل کو’’جنریشن Y‘‘کہاگیا چوں کہ اس نسل نے دوسرے ہزاریے(بیسویں صدی) سے تیسرے ہزاریے(اکیسویں صدی) میں قدم رکھاتھااس لیے اسےMillennialsبھی کہاجاتاہے۔یہ نسل ڈیجیٹل انقلاب اور گلوبلائزیشن کے دور میں پروان چڑھی،یہ اعلیٰ تعلیم کی طرف متوجہ ہوئی۔یہ Multi taskingکی صلاحیت رکھتی ہے البتہ اس میں بے صبراپن بھی پایا جاتا ہے۔ یہ مختصر وقت میں زیادہ نتائج چاہتی ہے اور معاشی استحکام حاصل کرنے کی فکر میں دباؤکاشکار رہتی ہے۔اس نسل کو مہنگائی،بدلتی دنیااور ٹیکنالوجی کی تیزرفتارترقی جیسی مشکلات کاسامنا رہا۔
1997سے2012کے درمیان پیدا ہونے والی نسل کو’’جنریشن Z‘‘کہاجاتاہے۔یہ نسل مکمل طور پر ڈیجیٹل دنیا میں پلی بڑھی، جہاں اسمارٹ فونز اور سوشل میڈیا زندگی کا لازمی حصہ بن چکے ہیں۔یہ نسل انٹرنیٹ، موبائل ایپس اور آن لائن تعلیم حاصل کرنے کی ماہرہے۔یہ نوکریوں کے بجائے اپنا کاروبارکرنے اوراسٹارٹ اپس شروع کرنے کوترجیح دیتی ہے۔ معلومات کی فوری رسائی کی وجہ سے تیز سوچنے اور فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔یہ نئی ایجادات،مصنوعی ذہانت اور ٹیکنالوجی میں بھرپوردلچسپی رکھتی ہے۔
2013سے2025کے درمیان پیدا ہونے والی نسل کو ’’جنریشن الفا‘‘کہاجاتاہے۔یہ نسل جدید ترین ٹیکنالوجی،مصنوعی ذہانت اور روبوٹس کے ساتھ پروان چڑھ رہی ہے۔یہ تیزی سے سیکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے،یہ روایتی ذریعہ تعلیم کے بجائے آن لائن علم حاصل کرتی ہے اورآرٹیفیشل انٹیلی جنس ٹولز کا بھرپوراستعمال کرتی ہے۔
2026سے2040تک پیدا ہونے والی نسل کے لیے ’’جنریشن بیٹا‘‘کا نام تجویز کیاگیاہے۔اس نسل کوکیاکیامشکلات درپیش ہوں گی، فی الحال کچھ کہانہیں جاسکتا،البتہ آج کی تحریر میں ہم ’’جنریشن Z‘‘کے مسائل پربات کریں گے کہ یہ نسل کس قدر مشکلات کاشکار ہے۔
جنریشن Zایسی نسل ہے جس کے سامنے ترقی یافتہ ٹیکنالوجی موجود ہے۔جنریشن Zنے ٹیکنالوجی سے بھرپور فائدہ اٹھایا، البتہ سوشل میڈیانے اس کی ذہنی اور نفسیاتی صحت پرکچھ سنگین منفی اثرات بھی مرتب کیے۔آئیے اس کی تفصیل جانتے ہیں۔
1۔ارتکاز کی کمی
وافر معلومات کے اس دور میں جنریشن زی کے لیے سب سے بڑامسئلہ ارتکازکی کمی ہے۔یوٹیوب شارٹس، فیس بک ریلز اور ٹک ٹاک کی مختصر ویڈیوز کی عادی نسل اب بہت جلد اکتاجاتی ہے اورتوجہ طلب کاموں سے بھاگتی ہے۔جنریشن زی میں بیک وقت کئی کام کرنے کی صلاحیت موجود ہے لیکن کسی ایک چیز پر گہرائی سے کام کرنا ان کے لیے مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ نئی معلومات تک فوری رسائی نے ان کے سوچنے اور یکسوئی کے عمل کو انتہائی کمزور کر دیا ہے۔
2۔بے صبراپن
آج کی تیزرفتارٹیکنالوجی کی بدولت ہر چیز فوری حاصل کی جا سکتی ہے۔ کھانا،لباس اور دیگر اشیا ایک بٹن دبانے پر گھرتک پہنچ جاتی ہیں۔اس چیز نے جنریشن زی کا صبرختم کردیا ہے، وہ اب زندگی کے ہرشعبے میں جلد نتائج چاہتی ہے۔یہ نسل فطری طریقہ کار(Natural Process)کونظراندازکرتی ہے جس کی وجہ سے اسے اکثراوقات ناکامی کاسامنابھی کرناپڑتاہے۔ اس رویے کی وجہ سے نہ صرف ان لوگوں کے پیشہ ورانہ فیصلے بلکہ ذاتی تعلقات بھی متاثر ہو رہے ہیں۔نیز اس چیز نے ان کی قوت ارادی(Will Power)کو بھی کمزوربنادیاہے۔
3۔ نیند کی کمی
’’جنریشن زی‘‘کے اکثرافرادرات گئے تک موبائل فون کااستعمال کرتے ہیں، بہت سے لوگ فری لانسنگ سے وابستہ ہیں جس میں رات دیرتک جاگنااور اسکرین کے سامنے بیٹھناپڑتاہے۔یہ عادت نیند پیدا کرنے والے ہارمون ’’میلاٹونن‘‘ کو متاثر کرتی ہے، جس سے نیند نہیں آتی۔ نیند کی کمی نہ صرف ذہنی کارکردگی پرمنفی اثر ڈالتی ہے بلکہ اس سے جسمانی امراض بھی پیدا ہوتے ہیں۔
4۔ سماجی تعلقات کی کمی
جنریشن زی اور الفا کے افراد زیادہ تر برقی ابلاغ(Online Communication) پر انحصار کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ سماج سے دور ہوجاتے ہیں۔ سماجی مہارتوں کی کمی کی وجہ سے یہ دوسروں کے جذبات اچھی طرح نہیں سمجھ پاتے اور روبروگفتگو کرنے سے بھی کتراتے ہیں۔
5۔جسمانی سرگرمی میں کمی
ڈیجیٹل انٹرٹینمنٹ اور ورچوئل لائف اسٹائل نے جسمانی سرگرمی کو بہت زیادہ محدود کر دیا ہے۔ پہلے کے مقابلے میں اب کھیل کود، گھومنے پھرنے اور جسمانی سرگرمیوں میں حصہ لینے کا رجحان انتہائی کم ہو گیا ہے، جو موٹاپے اوردل کی بیماریوں سمیت مختلف پیچیدہ بیماریوں کا سبب بن رہا ہے۔
6۔نفسیاتی مسائل
جنریشن زی سوشل میڈیا پر زیادہ وقت گزارتی ہے جہاں تقریباًہر شخص پرتعیش چیزیں نشر کرتاہے۔دیکھنے والا سمجھتاہے کہ لوگوں کی زندگیاں نعمتوں سے بھرپور ہیں جب کہ میری زندگی ایسی نہیں۔ اس سوچ کی وجہ سے احساس محرومی پیدا ہوتی ہے اور فرد ڈیپریشن کا شکارہوجاتاہے جو کہ بڑھتے بڑھتے شدیدنفسیاتی مسائل اور خودکشی جیسے بھیانک قدم تک بھی جاسکتاہے۔
سنگاپور میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق جو نوجوان روزانہ تین گھنٹے سے زیادہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں، ان میں ذہنی دباؤ، اضطراب اور اور تناؤ کی علامات کئی گنا بڑھ جاتی ہیں۔ کوئنزلینڈ کے چیف ہیلتھ آفیسر ڈاکٹر جون گیرارڈ نے بتایا کہ 10 سے 14 سال کی عمر کی لڑکیوں میں خود اذیتی کے واقعات میں 2010 سے 2021 کے درمیان تین گنا اضافہ ہوا ہے، جس کی بڑی وجہ سوشل میڈیا اور اسمارٹ فونز کا استعمال ہے۔
مزید برآں، ’’نیو یارکر‘‘ میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں بتایا گیا ہے کہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جیسے انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور اسنیپ چیٹ نوجوانوں میں احساس کمتری، ڈپریشن اور خودکشی کے خیالات کو بڑھا رہے ہیں۔
معروف ماہر نفسیات جوناتھن ہائٹ اپنی کتاب The Anxious Generationمیں سوشل میڈیاکے نقصانات بتاتے ہوئے لکھتے ہیں۔
’’2010سے2024 تک امریکا، کینیڈا اور برطانیہ میں بچے اورخاص طور پربچیاں بے چینی کاشکار ہورہی ہیں۔سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے لڑکیاں موازنے اور مقابلے کاشکار ہوجاتی ہیں جس کی وجہ سے ان میں ڈپریشن بڑھ جاتاہے۔بچوں میں اورخاص طورپرنوعمر لڑکیوں میں خود کو نقصان پہنچانے کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔نوجوانوں میں خودکشی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ امریکا میں نوعمر لڑکیوں کی خودکشی کی شرح 2007 سے 2017 کے دوران دگنی ہو گئی ہے جب کہ نوعمر لڑکوں میں یہ شرح 30 فی صدبڑھی ہے۔‘‘
سوشل میڈیاپر ہر وقت موجود رہنے کی فکر نے جنریشن زی کو FOMO (Fear of Missing Out)جیسے عارضے میں مبتلا کردیاہے۔اس وجہ سے پچھلی نسلوں کی نسبت جنریشن زی میں ذہنی دباؤ اور بے چینی کی شرح زیادہ ہے۔سوشل میڈیا پر دوسروں کی کامیابیاں اور خوش حال زندگیاں دیکھ کریہ خودکو ناکام تصور کرنے لگتے ہیں۔
جنریشن زی موبائل فون کا زیادہ استعمال کرتی ہے اورہروقت نوٹیفیکیشن کی منتظررہتی ہے اس وجہ سے یہ Phantom Vibration Syndromeمیں بھی مبتلاہوجاتی ہے۔یہ ایک نفسیاتی عارضہ ہے جس میں فرد کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ اس کا موبائل فون ارتعاش میں ہے،جب کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا۔یہ عارضہ بڑھ جائے توفردنفسیاتی دبائوکاشکار ہوجاتاہے۔
’’جنریشن زی‘‘کے اکثرافراد Nomophobiaکے بھی شکار ہیں۔انھیں اگرموبائل کے بغیر رہنا پڑے تویہ لمحات ان پر بھاری گزرتے ہیں اور وہ شدید بے چینی کاشکار ہوجاتے ہیں۔
نئی نسل Snapchatجیسی ایپ بھی استعمال کرتی ہے جس میں لڑکے اورخاص طورپرلڑکیاں اپنے چہرے پرمختلف طرح کے فلٹرز لگاکرخود کو خوب صورت اور پرکشش بناتے ہیں اوراس چیزکی اس قدر عادی ہوجاتے ہیں کہ جب حقیقی زندگی میں اپنا چہرہ دیکھتے ہیں توانھیں وہ پسند ہی نہیں آتا۔
جنریشن زی میں بہت سے لوگ Social Media Anxiety Disorderکے بھی شکار ہوچکے ہیں۔یہ ایسی نفسیاتی حالت ہے جس میں فرد سوشل میڈیا کے استعمال کے دوران یا اس سے دور رہنے پر شدید بے چینی، خوف، یا دباؤ محسوس کرتا ہے۔ یہ خاص طور پر ان لوگوں میں پایا جاتا ہے جو زیادہ تر وقت سوشل میڈیا پر گزارتے ہیں اور لائک، شیئرکوہی زندگی کی حقیقت مان لیتے ہیں۔یہ رجحان بھی ڈیپریشن کی طرف لے جاتاہے۔
ان مسائل کے سنگین اثرات سے خود کو کیسے بچایاجاسکتاہے۔ذیل میں کچھ تجاویز دی جارہی ہیں:
برقی دوری
زندگی کے حقائق کو تسلیم کریں۔خود کو موبائل فون اورسوشل میڈیا کااس قدر عادی نہ بنائیں کہ اس کے بغیر جینا مشکل ہوجائے۔روزانہ کی بنیادپر سوشل میڈیا سے کچھ وقت کے لیے دوری اختیار کریں اور آہستہ آہستہ اس دورانیے میں اضافہ کرتے جائیں۔جب بھی موبائل دیکھنے کی خواہش پیداہوتو خود سے سوال کریں کہ کیاواقعی اس وقت موبائل دیکھنا ضروری ہے، اس عمل سے میراوقت ضائع تونہیں ہوگا؟
نوٹیفیکیشنز بند کریں
روزانہ کچھ دیر کے لیے موبائل ڈیٹا(انٹرنیٹ) بند کردیں،نیزاپنے موبائل میں وٹس ایپ، فیس بک وغیرہ کی نوٹیفیکیشنزبھی بند کریں تاکہ یہ آپ کی زندگی مین خلل نہ ڈالیں۔گھر میں موبائل جان بوجھ کر اتنے فاصلے پررکھیں جس کے لیے آپ کو اٹھ کر جاناپڑے، اس کی بدولت بھی زیادہ موبائل دیکھنے کی عادت کو کم کیاجاسکتاہے۔
حقیقی سماجی تعلقات مضبوط کریں
یادرکھیں کہ سوشل میڈیا کے لائکس اور شیئردھوکے کے سوا کچھ نہیں۔جتنا جلدہوسکے خود کو اس فریب سے باہر نکالیں۔سماجی تعلقات مضبوط بنائیں،محلے کے بزرگوں اور رشتہ داروں سے بات چیت کریں، ان کی باتیں سنیں اوران کے کام آئیں۔سوشل میڈیا کے بجائے حقیقی زندگی میں دوست بڑھائیں جو آپ کے دکھ درد میں شریک ہوں اورآپ کوجذباتی مدد بھی فراہم کریں۔
مفید اور مثبت مواد کو ترجیح دیں
آپ سوشل میڈیا پر جس طرح کا مواد دیکھتے ہیں،اسی مناسبت سے الگورتھم آپ کے سامنے مزید چیزیں لاتاہے۔لہٰذامثبت مواد دیکھیں جس سے آپ کچھ سیکھ سکیں، جو آپ کے علم اور تجربے میں اضافے کاباعث ہوں۔اسی بنیادپرسوشل میڈیاکاالگورتھم بھی آپ کے سامنے مثبت اور کارآمد چیزیں لائے گااورآپ منفی چیزوں سے بچ سکیں گے۔
ذہنی و جسمانی صحت پر توجہ دیں
روزانہ کی بنیاد پر مراقبہ کریں۔ نیز ورزش اورجسمانی سرگرمی کے لیے ہر حال میں وقت نکالیں تاکہ زیادہ بیٹھنے کے مضراثرات سے محفوظ رہ سکیں۔اس کے ساتھ ساتھ مطالعہ کی عادت پیدا کریں،مطالعہ علم میں اضافے کاباعث بننے کے ساتھ ساتھ حافظہ بھی مضبوط بناتاہے۔مطالعہ کی بدولت آپ علمی وفکری محفلوں میں گفتگوکرسکیں گے اور اہل علم سے کسی بھی موضوع پر تبادلہ خیال کرسکیں گے۔ان سرگرمیوں کی بدولت آپ سوشل میڈیاکے زہریلی اثرات سے محفوظ رہ کر ڈیپریشن اور اینگزائٹی جیسے خطرناک عارضوں سے محفوظ رہیں گے۔