از:- ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
استاذ المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد
رمضان کی آخری راتیں ہیں، ہواؤں میں عجیب سی سرگوشیاں ہے، جیسے فرشتوں کے پر زمین کو چھو رہے ہوں، آسمان اپنے سینہ پر رحمت کے ستارے سجائے جھک رہا ہو، اور زمین میں سجدوں اور اشکوں کی جاں نواز خوشبو پھیل رہی ہے، یہ وہ لمحات ہیں جب دل کی دھڑکنیں بھی "اللہ” کہہ اٹھتی ہیں، جب آنکھوں سے بہتا ایک قطرہ اور عرق انفعال عرش تک جا پہنچتا ہے، اور در توبہ کھٹکھٹاتا ہے، جب گردن جھکتی ہے تو ربِ کریم کی رحمت قریب آ جاتی ہے، اب صرف تین چار دن باقی ہیں، اور یہ مختصر سانسوں کا سلسلہ گویا کہہ رہا ہے: "لوٹ آؤ، ابھی وقت ہے۔”
توبہ… یہ لفظ نہیں، ایک جہانِ معنی ہے، یہ وہ آبشار ہے جو گناہوں کی سیاہ چٹانوں کو دھو ڈالتی ہے، یہ وہ باد نسیم ہے جو دل کے ویرانوں میں پھول کھلا جاتی ہے، یہ وہ آہ ہے جو بندے کے لبوں سے نکلتی ہے اور لمحوں میں آسمانوں کے سفر طے کرتی ہے، رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو سچی توبہ کر لے، وہ ایسا ہے جیسے اس نے کبھی گناہ کیا ہی نہ ہو۔” سوچئے! کیا خوبصورت وعدہ ہے، کیا عظیم نوید ہے، گناہوں کا بوجھ اتار پھینکنے کا، دل کو ہلکا کرنے کا، روح کو پرواز دینے کا یہ ایک لمحہ ہی تو کافی ہے۔
انسان خطا کا پتلا ہے، اس کی رگوں میں لغزشیں دوڑتی ہیں، اس کے قدم ڈگمگاتے ہیں، اس کی نگاہیں بھٹکتی ہیں، مگر اس کی عظمت اس میں نہیں کہ وہ کبھی گرتا نہیں، اس کی عظمت اس میں ہے کہ وہ گر کر اٹھتا ہے، بھٹک کر لوٹتا ہے، گناہ کے اندھیروں سے نکل کر رحمت کی روشنی میں سانس لیتا ہے، حضرت آدم علیہ السلام سے جب خطا ہوگئی، تو انہوں نے سر جھکایا، آنسو بہائے اور کہا: "اے ہمارے رب! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم کیا، اگر تو نے ہمیں نہ بخشا اور رحم نہ کیا، تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔” اور ربِ رحیم نے فرمایا: "فَتَابَ عَلَيْهِ”، وہ معاف کردئیے گئے، ان کی لغزش ان کے مقام بلند کے لیے دیوار نہ بن سکی، ہم انہیں کی خاکسار اولاد ہیں، تو ہم کیوں ناامید ہوں؟ ہمارا رب وہی رب ہے، اس کی رحمت وہی رحمت ہے۔
رمضان کی یہ آخری گھڑیاں گویا زندگی کا ایک چھوٹا سا آئینہ ہیں، جس میں ہم خود کو دیکھ سکتے ہیں، اور خود کو ڈھونڈ سکتے ہیں، یہ وہ موسمِ بہار ہے جب دل کے پتھر پگھل سکتے ہیں، جب آنکھوں کی نمی دعاؤں میں ڈھل سکتی ہے، جب ندامت کے آنسوؤں سے بخشش کی بشارتیں مل سکتی ہیں، ربِ کریم فرماتا ہے: "اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی، میری رحمت سے مایوس نہ ہو، میں سب گناہ معاف کر دیتا ہوں۔” یہ آواز ہر اس دل تک پہنچتی ہے جو اب بھی دھڑک رہا ہے، جو اب بھی شرمندہ ہو سکتا ہے، جو اب بھی جھک سکتا ہے،
سچی توبہ کوئی رسمی عمل نہیں، یہ دل کی آگ ہے جو گناہوں کو بھسم کر دیتی ہے، یہ وہ عہد ہے جو انسان اپنے رب سے کرتا ہے کہ اب وہ ظلم کی راہ نہ چلے گا، اب وہ بےحیائی کے سائے نہ ڈھونڈے گا، اب وہ اپنے ہاتھوں سے دکھ نہیں بلکہ سکون بانٹے گا، اب بندوں کے حقوق ادا کرکے خود کو آزاد کرلے گا، اور جب یہ عہد پورا ہوتا ہے، تو ربِ کریم وعدہ کرتا ہے: "جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرے، میں اس کی برائیوں کو نیکیوں میں بدل دوں گا۔” کیا اس سے بڑھ کر کوئی تحفہ ہو سکتا ہے؟ کہ گناہوں کی سیاہی نیکیوں کے نور میں ڈھل جائے، اور ماضی کی تلخیاں مستقبل کے خوشگوار لمحات میں بدل جائے۔
توبہ دل کو وہ سکون دیتی ہے جو آغوش مادر سے بھی بڑھ کر ہے، یہ وہ لمحہ ہے جب انسان اپنے رب کے دامن میں چھپ جاتا ہے، جیسے کوئی بچھڑا ہوا مسافر اپنے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتا ہے، جیسے کوئی تشنہ لب بارش کی بوندوں سے سیراب ہو جاتا ہے، لیکن افسوس! کتنے دل ہیں جو اس آواز کو سن کر بھی جاگتے نہیں، وہ کہتے ہیں: "ابھی تو وقت ہے، ابھی تو صبح دور ہے، ابھی تو موت پیچھے ہے۔” مگر یہ سب ایک سراب ہے، کون جانتا ہے کہ اگلی سحر نصیب ہوگی یا نہیں؟ کون بتا سکتا ہے کہ اگلی شبِ قدر ہماری آنکھیں دیکھ پائیں گی یا نہیں؟ جو دل اب تک نرم ہے، وہی گوہرِ نایاب ہے، جو آنکھ اب تک نم ہو سکتی ہے، وہی سب سے قیمتی ہے۔
شیطان کان میں سرگوشی کرتا ہے: "ابھی دیر نہیں ہوئی، مزے لو۔” لیکن رحمان دل کے تار چھو کر کہتا ہے: "ابھی دیر نہیں ہوئی، لوٹ آؤ۔” شیطان ماضی کے گناہوں کو آنکھوں کے سامنے لا کھڑا کرتا ہے کہ "تو قابلِ معافی نہیں”، مگر ربِ رحیم فرماتا ہے: "میں توبہ قبول کرنے والا ہوں، میں برائیوں کو معاف کرنے والا ہوں۔” اس کی رحمت کے سمندر میں کون سا گناہ ہے جو غرق نہ ہو جائے؟ کون سی خطا ہے جو اس کے عفو کے سامنے ٹھہر جائے؟
تو آئیں، اس رمضان کی آخری ساعتوں میں، رات کے سناٹوں میں جب آسمان جھک رہا ہے، جب فرشتوں کی دعائیں زمین پر اتر رہی ہیں، جب شبِ قدر اپنے دامن میں رحمت سمیٹے رخصت ہو رہی ہے، ہم بھی جھک جائیں، اپنے گناہوں کی فہرست لیے، ندامت کا لباس پہنے، آنسوؤں کی چادر اوڑھے، اپنے رب کے در پر کھڑے ہو جائیں، اور کہیں:
"اے ربِ کریم! اے آسمان وزمین اور فضاؤں کے نور! ہم اپنے نفس کی سرکشی سے تنگ آ گئے، اپنی خواہشوں سے ہار گئے، ہماری ہر ادا توبہ شکن، ہر قدم گناہوں سے بوجھل، لیکن اب تیرے حضور آ گئے، ہم نے ہر دروازہ کھٹکھٹایا، ہر سہارا آزمایا، مگر سکون تیرے در پر ہی ملا، ہم گناہگار ہیں، مگر تُو غفور ہے، ہم کمزور ہیں، مگر تُو ستار ہے، ہمیں معافی کی طلب ہے، اور تو معافی دینے والا ہے، ہمیں چھوڑ نہ دینا، ہمیں بھی اپنا لے، پارساؤں میں شامل کردے۔”:
نہ کہیں جہاں میں اماں ملی جو اماں ملی تو کہاں ملی
مرے جرمِ خانہ خراب کو ترے عفوِ بندہ نواز میں