موجودہ حکومت جانچ ایجنسیوں کی مدد سے ایک کے بعد ایک صوبا ئی حکومتوں کو شکار بنا کر اپنے اضافی سیاسی ارادے واضح کررہی ہے۔
✍️ صفدر امام قادری
شعبۂ اردو، کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ
____________
مہاراشٹر،بہار، جھارکھنڈ اوراب دلی -مغربی بنگال میں بس نہیں چل رہا ورنہ وہاں کی بھی غیر بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار کو ختم کر دیے جانے کی کوششیں مکمل ہو چکی ہوتیں ۔ مرکزی حکومت پر یہ کُھلے الزامات لگتے رہے ہیں کہ وہ اپنی جانچ ایجنسیوں کو سیاسی حریفوں سے بدلہ لینے کے لیے آزماتی رہی ہے۔کئی سیاسی رہنما ئوں نے بھارتیہ جنتا پارٹی میں باضابطہ طور پر شامل ہو کر گذشتہ دور کے الزامات سے خود کو آزاد کرا لیا۔عام طور سے پہلے اِس بات کا لحاظ رکھا جاتا تھاکہ جب عمومی انتخاب قریب ہو تو گڑے مردے اُکھاڑ کر اُن کی بدولت سیاسی کھیل تماشے نہیں کرتے مگر بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت جمہوری روایات اور آئین کی پاکیزگی کے مقابلے ہر صورت میں اپنی حکمرانی کو قائم کرنے اور مستحکم بنانے کی کوششوں میں رہتی ہے۔ اب اِس کے نتائج ملک کے طول وعرض میں کُھل کر سامنے آنے لگے ہیں ۔ جگہ جگہ عوام کے ذریعہ منتخب حکومتیںگرائی جا رہی ہیں یا الگ طرح کی پریشانیوں اور الحاقِ نو کے لبھاونے جال میں پھنسائی جا رہی ہیں۔اروند کجریوال اِس کی تازہ مثال ہیں۔
بھارتیہ جنتا پارٹی نے مہاراشٹرکی منتخب حکومت میں وہاں کے گورنر اور مرکزی قائدین سے مل کر کئی بار اُتھل پُتھل مچائی اور آخر کار اسے ایک کٹھ پتلی سرکار بنانے میں کامیابی مل ہی گئی ۔اب وہاں کانگریس اور حقیقی شیو سینا پس منظر میں ہیں اور نقلی شیو سینا کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی بہ شوق اپنے کام کر رہی ہے۔مہاراشٹر کو ہندستان کی صنعتی راجدھانی ہونے کے ساتھ ساتھ مختلف سیاسی اور سماجی معاملات کے سبب امتیاز حاصل رہاہے۔ہندو واد کی سیاست کا بال ٹھاکرے کی وجہ سے اُس وقت وہ علاقہ مرکز تھا جب ایودھیاکی مرکزیت قائم نہیں ہوئی تھی۔ بھارتیہ جنتا پارٹی نے حکمتِ عملی کے اعتبار سے اس اہم علاقے کو اپنے دائرۂ اثر سے الگ رکھنا مناسب نہیں سمجھا ۔ اِس لیے جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے مطابق اپنی حکومت بنوا کر ہی اُنھیں چین آیا ۔ مقصد یہ بھی تھا کہ پارلیامنٹ کے انتخاب میں حکومت کی سطح پر جو فائدے حاصل ہونے ہیں ،اِس کے لیے ریاستی حکومت کی خاص اہمیت ہے ۔ مہاراشٹر یوں بھی اُتّر پردیش کے بعد سب سے زیادہ ممبرانِ پارلیامنٹ بھیجنے والا صوبہ ہے۔
بہار میں تقریباً ڈیڑھ برس سے راشٹریہ جنتا دل ، کانگریس، جنتا دل یونائیٹڈ اور کمیونسٹ پارٹیوں کی ایک مشترکہ سرکار چل رہی تھی۔ یہ حکومت کُھلے طور پر بھارتیہ جنتا پارٹی کی مخالف رہی ہے اور لالو یادو ، تیجسوی یادو اور نتیش کمار کی بدولت قومی سطح پر حزبِ اختلاف کی قیادت شروع ہو گئی تھی۔ـ’انڈیا‘ محاذ کی قومی سطح پر تشکیل میں صوبۂ بہار کی حکومت اپنی طاقت اور سیاسی قوتِ ارادی کا استعمال کر رہی تھی مگر اِس موثر قیادت کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی سازش اور خوف و دہشت کے کھیل سے زمیں دوز کیا اور دیکھتے دیکھتے نتیش کمار کے ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی نے مل کر پھر ایک بار ایک کٹھ پتلی سرکار قائم کر لی۔ بہار میں بھی پارلیامنٹ کی چالیس سیٹیں ہیںاور ۲۰۱۹ ء میں ان ۔ ڈی ۔ اے۔ محاذ نے ۳۹ سیٹیں حاصل کر کے کامیابی کی ایک نئی تاریخ حاصل کی تھی ۔ مگر اِس اتحاد کی اگر سرکارہ جاتی اوربھارتیہ جنتا پارٹی آزادانہ طور پر تنہا مقابلہ کرتی تو شاید اُسے آدھی سیٹیںبھی نہیں ملتیں ۔ چاہے کچھ ہو جائے ،بھارتیہ جنتا پارٹی کو آئندہ پارلیا منٹ میں کامیابی کے لیے بہار کی حکومت کو گرانے میں ہی فائدہ تھا۔ اُس حکومت کے قائد نتیش کمار کو تو یوں بھی سیاسی محاورے میں پلٹو رام ہی کہا جاتا ہے اور وہ بار بار سیاسی وفاداریاں بدلتے رہے ہیں بشرطے کہ اُنھیں وزیر اعلا کی کرسی ملتی رہے۔بھارتیہ جنتا پارٹی نے بہت کامیابی کے ساتھ بہار کی حکومت کو اپنی مٹھی میں لے لیا ۔ اب اُنھیں اِس بات کی توقع ہوگی کہ پارلیامنٹ کے انتخا ب میں اُنھیں اچھی خاصی سیٹیں مل جائیں گی ۔
جھارکھنڈ یوں تو چھوٹی سی ریاست ہے اور محض چودہ پارلیامنٹ کے ممبران وہاں سے دلی پہنچتے ہیں۔ پچھلی بار پارلیامنٹ کے انتخاب کے بعد اسمبلی کا پہلا دنگل وہیں ہوا اور شیبو سورین کے صاحب زادے ہیمنت سورین نے کانگریس اور سیکولر جماعتوں کی معاونت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کو باہر کا راستہ دکھایا اور اپنی نئی سرکار بنانے میںکامیاب ہوئے ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیے یہ آسان نہیں ہے کہ وہ کسی سیاسی حریف کو مزید قد آور ہونے کا موقع دے ۔ پچھلے چار برسوں سے ہیمنت سورین سی ۔ بی ۔ آئی ۔ اور ای۔ ڈی کے نشانے پر رہے ۔ سیکڑوں طرح کی تفتیشات میں ماخوذکیے جاتے رہے ۔ آخری حربہ یہ رہا کہ انھیں گرفتار کیا گیا۔ اُنھوں نے وزیر اعلا کی کرسی چھوڑی مگر نہایت ہوش مندی کے ساتھ اُنھوں نے اپنی پارٹی کے ایک صاف ستھرے لیڈر کو آگے بڑھا کر سرکار بچا لی ۔عین ممکن ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپنی سرکار بنانے کے لیے جگت بھی لگائی ہو مگر شاید وہاںدال نہ گلی ۔
اروند کجریوال کے مخالفین اُنھیں ایک مدت سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی بی ٹیم کہتے رہے۔دلی سرکار کے بعض معاملات میں وہ بھلے مرکزی حکومت پر کُھلی تنقید کرتے رہے ہوں مگر قومی سطح پر اکثر اُن کے مصلحت اندیشانہ اقوال سامنے آتے رہے۔ جیسے ہی اروند کجریوال دلی سے باہر نکلنے لگے ، پنچاب میں اپنی حکومت قائم کرنے میںکامیاب ہوئے اور بہت سارے ہاں نا کے باوجود انڈیا محاذ کا حصہ بنے تب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کے وہ خاص نشانے پر تھے ۔ اب تک باری باری سے اُن کے تین چار وزرا ماخوذ ہوئے ہیں اور جیل کی سزا کاٹ رہے ہیں ۔ یہاں بھی سی بی آئی اور ای ڈی جیسی ایجنسیاں سامنے ہیں۔ بار بار اروند کجریوال کو نوٹس ملتی رہی۔ وہ ٹالتے رہے۔ قانون کی اپنی مشقت جاری رہی۔ گذشتہ دنوں اُنھیں تفتیش اور گرفتاری کے عتا ب میں ملوث ہوناپڑا ۔ یہاں نائب وزیر اعلا تو پہلے سے ہی ماخوذ ہیں ۔ مگر اروند کجریوال نے یہ فیصلہ لیا کہ وہ استعفانہیں دیں گے ۔ اگلے ہفتے میں سپریم کورٹ کی اگر مداخلت نہیں ہوتی ہے تو اُنھیں عہدے سے دست بردار ہونا ہی پڑے گا ۔ سرکار کے ٹوٹنے بکھرنے کے امکانات اِس وجہ سے کم ہیں کیوں کہ قانون ساز اسمبلی میں بھارتیہ جنتا پارٹی عام آدمی پارٹی کے سامنے کچھ بھی نہیں ہے۔
مغربی بنگال میں ایسی کوششیں لگاتار چل رہی ہیں ۔ ممتا بنرجی پچھلے پارلیامنٹ کے انتخاب کے زمانے میں کمزور پڑی تھیں اور بھارتیہ جنتا پارٹی نے حیرت انگیز طور پر تقریباً چالیس فی صد سیٹیں جیت لی تھیں۔ مغربی بنگال کے لیے یہ اَن ہونی بات تھی۔ یہ الگ رہا کہ اس کے بعدا سمبلی انتخاب میں ممتا بنرجی پھر اپنی طاقت میںواپس آگئیں۔ اِس پارلیامنٹ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو بنگال میں گذشتہ جیت میں اضافے کی توقع ہوگی وہیں ممتا بنرجی کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی بنیادوں کو کمزور رکھنے کا نشانہ سامنے رکھنا پڑے گا ۔
یہ بات سیاسی مشاہدین کے قیاس کے پرے ہے کہ جب ہر طرف سے بھارتیہ جنتا پارٹی کا ڈنکا بج رہا ہو تو اس ظالمانہ انداز سے اپنے سیاسی مخالفین سے بدلہ لینے کیاکی بے چینی کیوں کر ہے؟ اِس سے غیر منسلک مشاہدین کی نگاہ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سیاسی اخلاقیات مشتبہ ہو جاتی ہے ۔ عالمی سطح پر بھی ہندستانی سیاست پر نظر رکھنے والے لوگ فکر مند دکھائی دیتے ہیں اور جمہوری اداروں کی پسپائی پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کا کُھلا نعرہ ہے: اب کی بار چا ر سو کے پار ۔ آخر یہ چار سو سیٹیں جہاں جہاں سے ممکن ہوں،اسے نکالنی ہوں گی۔ مخالف صوبائی حکومتیں سب سے بڑی رکاوٹ ہوتی ہیں اور ای ۔ وی ۔ایم اور دیگر کاموں کے لیے انتظام میںمدد گار ہوتی ہے ۔ اِسی وجہ سے اُنھیں صوبائی حکومتیں چاہیے۔وہ پارلیامنٹ کے انتخاب میں کسی طرح کی غفلت شعاری کو راہ نہیں دے سکتی ۔
بھارتیہ جنتا پارٹی کے مخالفین اِس معاملے میں ایک دوسری رائے بھی پیش کر رہے ہیں ۔ اُن کا کہنا ہے کہ جیسے جیسے انتخاب کی تاریخیں رگِ جاں سے قریب ہوتی جا رہی ہیں ، نریندر مودی کی دھڑکنیں تیز تر ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی عوامی سطح پر مخالفت کا ایک سلسلہ کشمیر سے کنیا کماری تک اندر اندر دکھائی دے رہا ہے ۔ بہت بار زمین کی تہہ سے چنگاریاں وقت آنے پر پھوٹتی ہیں ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے پاس سینکڑوں ایجنسیاں ہیں اور اُن کی رپورٹیں انھیں خفیہ طور پر ملتی رہتی ہوں گی ۔ کون جانتا ہے کہ اُن کی آخری رپورٹیں اب مقبولیت کے گراف کو نیچے دکھا رہی ہوں،اس لیے شدید بوکھلاہٹ کے عالم میں اس طرح کے غیر جمہوری،ظالمانہ اور جابرانہ فیصلے ہو رہے ہیں ۔آنے والے دو مہینے سیاسی مشاہدین کے قیاسات اور ہندستانی عوام کی قوتِ فیصلہ کے ساتھ ساتھ بھارتیہ جنتا پارٹی کی مقبولیت کے لیے بے شک امتحان کے دن ہوں گے ۔
[مقالہ نگار کالج آف کامرس، آرٹس اینڈ سائنس، پٹنہ میں اردو کے استاد ہیں]