از:- ڈاکٹر ظفر دارک قاسمی
یہ بدیہی صداقت ہے کہ کوئی بھی سماج بذات خود کچھ نہیں ہوتا ہے بلکہ کسی بھی معاشرے کی عظمت و جلالت اور اس کی اہمیت و معنویت کو اس وقت تسلیم کیا جاتا ہے جب اس سماج میں موجود تعلیم و تربیت کا نظام کتنا قوی ہے۔ تعلیمی اداروں میں کن مضامین کو شامل نصاب کیا گیا ہے۔ اس معاشرے کا دانشور مفکرین و مدبرین کا طبقہ کس طرح کا لٹریچر تیار کررہا ہے ۔ اسی طرح جو نصاب اداروں اور تعلیمی مراکز میں طلباء کو پڑھایا جاتا ہے وہ عصری تقاضوں کی تکمیل کے لیے کتنا سود مند ہے ۔
یہ نصاب سماج کی تعمیر و ترقی، قومی و ملکی فلاح و بہبود میں مثبت کردار ادا کررہا ہے یا نہیں؟ جب معاشرے میں ہر شخص کے اندر تخلیقی اور تعمیری صلاحیتیں موجود ہوں گی تو اس کے نتیجہ میں ایک ایسا سماج تشکیل پائے گا جو روحانی ، فکری ، نظریاتی اور مادی طور پر مستحکم ہوگا ۔
لہٰذا یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سماج کی خوبی یہ نہیں ہے کہ اس میں افراد کی تعداد تو بہت زیادہ ہے مگر فکری و علمی طور پر وہ سماج پوری طرح مفلوج اور کمزور ہو ۔ آج کے اس جدید انکشافات و اکتسابات کے دور میں جب ہم معاشروں کی تاریخ و تہذیب اور ان کے تمدن و معاشرت پر نظر ڈالتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ ان معاشروں کی تاریخ اور ان کے کارناموں کو تاریخ میں جلی حروف سے لکھا جاتاہے جو اپنی قوم اور ملک کے ساتھ ساتھ سماج کے تمام طبقات کے لیے اچھا کرتے ہیں اور اپنی صلاحیتوں سے انہیں فائدہ پہنچاتے ہیں ۔ جن کے اندر سماجی شعور اور اجتماعیت کا احساس جاگزیں ہوتا ہے ۔ اس لیے دنیا جانتی ہے کہ معاشروں میں انجام دیئے گئے اعمال و افعال کی اچھی یا بری تاریخ رہی ہے ۔
معاشروں کی خوبیوں اور اچھائیوں کا اندازہ سماج میں رہنے والے افراد کی سوچ اور نظریہ سے بھی لگایا جاتا ہے۔ جن معاشروں میں افراد کی سوچ مثبت ہوتی ہے ، جن کے مزاج میں کسی مذہب ، دھرم ،تہذیب اور ذات پات کو لے کر کوئی تشدد یا سختی نہیں پائی جاتی ہے ان معاشروں نے بھی ہمیشہ تاریخ میں امتیازی رتبہ پایا ہے ۔ اس تناظر میں جب ہم مسلم معاشروں کی تاریخ اور ان کے ساتھ اقلیت میں رہنے والے دیگر مذاہب مثلآ یہودی ، عیسائی ، پارسی اور دیگر ادیان کے متبعین کے بارے میں پڑھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ تمام مذہبی اقلیتیں پورے طور پر آزاد تھیں ۔ رسم و رواج اور مذہبی امور کی انجام دہی کے لیے کبھی بھی ان پر دباؤ نہیں ڈالا گیا ۔ اس بات کا اعتراف دنیا کے تمام انصاف پسند مؤرخین نے کیا ہے ۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ یہ حقائق انہیں کے نظر نواز ہوسکتے ہیں جو تعصب و تنگ نظری اور بلا کسی تفریق و امتیاز کے تاریخ کا مطالعہ کریں ۔ گویا مسلم معاشروں کی تاریخ بڑی شفاف اور عدل و انصاف پر مبنی ہے ۔ ظلم و تعدی اور کسی دوسرے مذہب کے خلاف نہ نفرت ملتی ہے اور نہ اس کے دینی حقوق کے ساتھ تعرض پایا جاتاہے اور نہ ہی کسی دوسرے مذہب کو سب وشتم کرنے کا جواز ملتا ہے یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام دنیا میں پائے جانے والے تمام مذاہب و ادیان کا احترام کرتا ہے اور اپنے متبعین سے ان کا احترام کرنے کی ہدایت بھی دے تاہے ۔ یہ سچ ہے کہ مسلم معاشرہ اپنے جذبہ ایثار، خیر سگالی اور بقائے باہم کے لیے اپنی روشن و تابناک تاریخ رکھتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ اسلاموفوبیا اور دہشت و بربریت کے نام پر منظم طریقے سے عالمی طاقتوں نے اسلام کی پر امن تعلیمات اور اس کے نظام عدل و انصاف کو مجروح و مخدوش کیا ہے، اس کے لیے انہوں نے ہر اس طریقہ کا سہارا لیا جو ان کے مقصد کو پایہ تکمیل تک پہنچاتا ہے ۔ ہم سب جانتے ہیں کہ مغرب میں ہر روز کتنی جامعات میں اسلام کی حقیقی روح اور اس کی مبنی بر عدل تعلیمات کو مسخ کرنے کے لیے مضامین و مقالات اور کتابیں تیار کی جارہی ہیں ۔ کتنے لوگ اپنی تمام تر علمی و تحقیقی صلاحیتوں کو اسلام دشمنی اور عداوت میں صرف کر رہے ہیں ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اسلام کے نام پر کی جانے والی تمام خرافات کا نتیجہ آج تک ان تمام مشنریوں کو نہیں ملا ہے جو وہ اپنے اس تحقیقی عمل سے حاصل کرنا چاہتی ہیں ۔ لہٰذا ہر وہ معاشرہ اپنا وجود اور تشخص قائم رکھ پاتا ہے جس کے اندر رہنے والے افراد کی سوچ بڑی مثبت اور روادرانہ ہوتی ہے ۔ برداشت اور تحمل ان کا مزاج بن جاتاہے ۔ یہاں یہ بات کہنا بھی مناسب معلوم ہوتی ہے کہ بہتر اور صالح خطوط پر معاشروں کو تشکیل و ترتیب دینے کے لیے ضروری ہے کہ ہم تشدد سے دور رہیں ۔
ادھر رواں حالات میں جو کچھ عالمی سطح پر دیکھنے کو مل رہا ہے اس نے دنیا بھر کے تمام حساس اور باشعور معاشروں کو حیرت زدہ کردیا ہے کیوںکہ جہاں معاشروں کی خوبیوں کے لیے ضروری ہے کہ مثبت اور صالح سوچ کے افراد کی کثرت ہو تو وہیں ایک طبقہ اپنے مفادات کی حصولیابی کے لیے نفرت اور تشدد کا سہارا لے رہا ہے، مذہب و مسلک اور ذات پات کے نام پر تشدد کو روا رکھتا ہے ۔ یاد رکھیے! تشدد کرنے والے جغرافیائی اعتبار سے ایک دوسرے سے دور ہوسکتے ہیں ، سرحدیں اور علاقے الگ ہو سکتے ہیں مگر ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے اور وہ ہے انسانیت پر ظلم اور معاشرتی امن و امان کو تباہ کرنا ۔ رواں حالات دیکھ کر ایسا بھی محسوس ہوتا ہے کہ وہ تمام طاقتیں متحد ہیں جو کسی بھی سماج میں فرقہ پرستوں ، مسلک پرستی اور نسلی امتیازکی بناء پر تکثیری معاشروں کی روح کو متاثر کررہی ہیں ۔ لہٰذا ہمیں اس وقت ان روایات و اقدار کو بحال کرنا ہے اور ایسے حالات پیدا کرنے کی بنیادی ضرورت ہے جن سے معاشروں میں مثبت تبدیلی واقع ہو اور تعمیری خیالات پیدا ہوسکیں تاکہ معاشرتی ہم آہنگی کو مستحکم کیا جاسکے ۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی ذہن میں رکھنی ہوگی کہ تکثیری معاشروں کے اپنے تقاضے اور ضرورتیں ہوتی ہیں ۔ اس لیے مذہبی گروہ کو تکثیری سماج کی بنیادی ضرورتوں کے مطابق ہی کام کرنے کی سعی کرنی چاہیے ۔ کسی بھی مذہب کا دھرم گرو ہو جب وہ کوئی بات کہے یا اپنے معتقدین کو ہدایت کرے تو اسے خیال رکھنا چاہیے کہ کوئی ایسی بات دانستہ طور پر یا غیر دانستہ زبان سے نہ نکل جائے جو کسی دھرم کی توہین کا باعث بنے ۔
معاشرتی ہم آہنگی اور سماجی حسن و توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ تمام اداروں اور شعبوں میں عدل قائم کیا جائے ۔ عدل ایک ایسا عمل ہے کہ اگر اسے سماج میں قائم کیا جاتاہے تو یقینی طور پر اس کے دور رس نتائج سماج پر مرتب ہوتے ہیں ۔ عدل کے قیام سے معاشرے میں صرف خوشحالی ہی نہیں آتی ہے بلکہ معاشرتی توازن اور امن و سکون کے قیام میں بھی عدل کا بنیادی کردار ہوتا ہے ۔
جب بھی روئے زمین پر کسی نے بھی کسی معاشرے یا قوم و فرد کے ساتھ ناانصافی کا مظاہرہ کیا ہے تو اس کے نتائج ہمیشہ مایوس کن اور متنفرانہ ہی ثابت ہوئے ہیں ۔ یہ اٹل حقیقت ہے کہ انصاف ہی ایک ایسا مؤثر ذریعہ ہے جو حقیقی ترقی اور فلاح و بہبود سے ہمکنار کرتاہے ۔
آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ کتنے معاشرے طاقت و قوت کے بل پر اپنے ساتھ رہنے والی قوموں اور معاشروں کے ساتھ نا انصافی کرتے ہیں ۔ یہ رویہ قطعی درست نہیں ہے ۔ نا انصافی ایک ایسی بلا ہے جو اپنے ساتھ محرومی ،مایوسی اور نفرت جیسے جرائم کو ہی جنم نہیں دیتی ہے بلکہ اس سے قوموں کا جو حشر ہوتا ہے وہ بڑا بھیانک ہوتا ہے ۔ اس تناظر میں کسی بھی ایسے معاشرے کو ان معاشروں کی فہرست میں شمار نہیں کیا جاسکتا ہے جو فکری اور روحانی طور پر مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ سماجی طور پر باہم متحد و متفق ہوتے ہیں ۔ اسلام نے جو تصور عدل کا پیش کیا ہے اس کی خوبی یہ ہے کہ جن معاشروں نے اسلام کے نظام عدل پر عمل کیا وہ تاریخ کے روشن اوراق میں آج بھی درج ہیں اور ان کے کارنامے آج بھی نوع انسانی کے لیے نمونہ عمل اور نظام حیات ہیں ۔
تعلیم و تربیت کا مستحکم نظام ،مثبت سوچ اور عدل کا قیام معاشروں کی تعمیر و ترقی کے اہم عناصر ہیں جنہیں کوئی بھی حساس سماج نظر انداز نہیں کر سکتا ہے ۔ اگر کوئی سماج ان عناصر کو بالائے طاق رکھ کر حقیقی امن اور روحانی و اخلاقی ترقی یا سماجی ہم آہنگی کا خواب دیکھ رہا ہے تو یقینی طور پر یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا ہے ۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایک صحت مند اور صالح معاشرہ اسی وقت وجود میں آسکتا ہے جب کہ سماج کے اندر متذکرہ تینوں عناصر کو جزو لاینفک سمجھا جائے۔