Site icon

دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغمبرانہ رنگ و آہنگ

دربار رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغمبرانہ رنگ و آہنگ (قسط 1)

محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

____________________

بڑے دربار دیکھے اور شہنشاہ زمیں دیکھے
محمد کی کچہری کے مگر جلوے نہیں دیکھے

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی ،آپ کی سیرت پاک اور آپ کے اقوال و آثار کا پڑھنا ،سننا اور سمجھنا ہم مسلمانوں کے لئے باعث اجر و ثواب ہے، بلکہ اس کا درجہ ہمارے نزدیک عبادت کی طرح ہے ،علاج درد دل ہے ،داروئے شفا ہے، جو روح کو بالیدگی بخشتا ہے اور قلب کو نور سے منور کردیتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت پاک کا ایک حصہ اور جزء یہ بھی ہے کہ شمائل نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم واقف ہوں، ہم جانیں اور لوگوں کو بتائیں کہ آپ کا نقش و سراپا اور حلیہ مبارکہ کیسا تھا ،آپ کی عبادتیں آپ کے معاملات معمولات کیسے تھے، آپ کا انداز و گفتار ، آپ کی معاشرت و معیشت اور غیروں کیساتھ مدارات کیسی تھیں ، آپ لوگوں کے حقوق کیسے ادا کرتے تھے، آپ کے شب و روز کیسے گزرتے تھے ،آپ کی مجلس کیسی ہوتی تھی ، مجلس کا انداز و طمطراق اور رنگ و آہنگ کیا اور کیسا ہوتا تھا ؟ ۔
آج کی مجلس میں ہم ،، دربار رسالت صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغمبرانہ رنگ و آہنگ،، اس حوالے سے گفتگو کریں گے اور مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیات و امتیازات کا تذکرہ کریں گے ۔۔۔۔ اس احساس کیساتھ کہ

ہزار بار بشویم دہن زمشک و گلاب
ہنوز نام تو گفتن کمال بے ادبی ایست

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک اور پاکیزہ مجلس کی خصوصیات و صفات اور امتیازی شان بیان کرتے ہوئے حضرت سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں ،،
،،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب بیٹھتے یا بیٹھ کر اٹھتے تو اللہ کا نام لیتے ،مسجد میں اپنے لیے کوئی جگہ مخصوص نہیں فرماتے اور لوگوں کو اس سے منع کرتے کہ کسی جگہ کو اپنے لئے مخصوص کرکے قبضہ جمائے رہیں ،جب کسی محفل میں تشریف لے جاتے تو وہاں جاکر کر بیٹھتے، جہاں مجلس کا آخری آدمی بیٹھتا اور اس کی دوسروں کو ترغیب دیا کرتے تھے ،اور اپنے تمام ہم نشینوں کو ان کی حیثیت کے مطابق مقام عطا فرماتے ،آپ کا کوئی ہم نشیں یہ نہیں محسوس کرتا کہ اس سے زیادہ کوئی دوسرا اس کے مقابلے میں معزز و محترم ہے ،،جو شخص اپنی ضرورت کے لئے آپ کے ساتھ بیٹھتا یا کھڑا ہوتا تو اس کی بات صبر سے سنتے رہتے، یہاں تک کہ وہ خود واپس ہوجاتا ،کوئی اپنی حاجت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھتا تو اس کی ضرورت پوری فرماتے اور اگر بس میں نہ ہوتا تو میٹھے بول سے اس کی دلجوئی فرماتے ۔
(آپ کی مجلس علم و عرفاں سے لبریز ہوتی روحانیت و للہیت سے پر ہوتی ،سکینت کا نزول ہوتا) آپ کی دریا دلی ،سخاوت اور اخلاق سے تمام اہل مجلس بہرہ مند ہوتے گویا آپ سب کے لیے باپ کا مرتبہ رکھتے اور سب آپ کے نزدیک حق کے معاملہ میں یکساں درجہ رکھتے ،آپ کی مجلس شرم و لحاظ ،عفو و بخشش اور در گزر صبر اور امانت کی مجلس ہوتی تھی ۔
آپ کی مجلس میں لوگ باادب رہتے ، بلند آواز سے بات نہیں کرتے ،کسی شخص کی غیبت یا برائی نہیں ہوتی تھی ،کسی کے عیوب نہیں بنائے جاتے تھے ،سب کے سب برابر کا درجہ رکھتے تھے ،ایک دوسرے سے سبقت صرف خدا ترسی میں لے جاتے تھے ،سب پر انکساری و خاکساری کی کیفیت طاری رہتی ،آپ کی مجلس میں بڑوں کا احترام اور چھوٹوں پر شفقت کا عام برتاؤ تھا ، ضرورت مند کی حاجت روائی کو ہر کام پر ترجیح دیتے اور اجنبی شخص کی خبر گیری کرتے ۔ (مستفاد از کتاب آفتاب نبوت کی چند کرنیں از مولانا ڈاکٹر عبد اللہ عباس ندوی رح صفحہ 39-40)
سچ یہ ہے کہ دنیا میں ہزاروں دربار اور مجلیس قائم ہوئیں ،لیکن دربار رسالت کا پیغمبرانہ طمطراق سب سے جدا سب سے الگ سب سے منفرد سب سے نرالا سب سے بہتر سب سے اعلی اور برتر کوئی دربار اور کوئی مجلس اس کے مقابلے میں نہیں ہوئی اور نہ قیامت تک ہوسکے گی۔۔
علماء نے لکھا ہے اور تقابل کیا ہے کہ ہر ملک اور قوم کے جلیل القدر فرمانرواؤں اور طنطنہ و جلال کے تاجداروں نے صولت و سطوت دکھائی ،شاہی مجالس و آئین کے احتشام و عظمت کا تصور کس دماغ میں نہیں ۔ درباروں میں عوام پر رعب و جلال اور اثر و رسوخ اور ہیبت ڈالنے اور اپنے جلال و عظمت کی نمائش کرنے کے لئے کیا کیا اہتمام نہیں کیے جاتے ،خیل و حشم ،نقیب و چاوش دربان و سپاہ سبھی کچھ ہوتا ہے ۔سروسامان کی فراوانی اور دولت و امارت کی درخشانی سے نگراں نگاہیں اونچی نہیں ہوسکتیں ،لیکن شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک دربار ہی اس کرئہ ارض پر قائم ہوا ،جس پر بخت و نصر ٹیٹس،خسرو، سکندر ،مامون، منصور سلیمان اور شاہجہاں کے دربار سجائے گئے تھے، مگر یہاں نہ وہ طمطراق تھا ،نہ طنطنہ،اور نہ ہی وہ شان و شکوہ تھا اور نہ وہ سطوت خیزیاں ۔انتہا یہ کہ کوئی دربان بھی دروازہ پر نہ ہوتا تاہم جلال نبوت سے ہر ذی روح ایک پیکر تصویر نظر آتا تھا ۔ کوئی ذرا جنبش بھی نہ کرتا تھا ۔مجلس میں لوگ بیٹھتے تو یہ معلوم ہوتا تھا کہ ان کے سروں پر چڑیاں بیٹھی ہوئی ہیں ۔گفتگو کی اجازت میں بھی خاص ترتیب ملحوظ رہتی تھی ۔لیکن نام و نسب اور مال و منال کو اس امتیاز مراتب سے کوئی تعلق نہیں ہوتا تھا بلکہ فضل و استحقاق کی بنا پر اجازت دی جاتی تھی ،، (۔۔۔نقوش رسول ص نمبر جلد / 4 صفحہ 619)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس کا رنگ و آہنگ یہ ہوتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سب سے پہلے ان لوگوں کی طرف توجہ مبذول کرتے، جن کی طرف اس روز سے پہلے کبھی کسی نے آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھا تھا ۔اس کی معروضات سنتے اور حاجت براری کرتے ۔جملہ حاضرین کے سر ادب سے جھکے ہوتے تھے ۔آپ خود بھی مؤدب ہوکر بیٹھتے تھے کہ فخر و امتیاز کا رنگ پیدا نہ ہونے پائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب کچھ بولتے ،یا کسی موضوع پر گفتگو کرتے اور اظہار خیال فرماتے تو پوری مجلس پر سکوت اور سناٹا چھا جاتا ۔جب تک کوئی چپ نہیں ہوجاتا ،دوسرے شخص کی مجال نہ ہوتی کہ زبان کھول سکے ۔ دربار نبوت میں ہر قسم کا بحث و تذکار ہوتے اور آپ ص بھی ان میں حصہ لیتے ،مہذب ظرافت اور ہنسی میں بھی آپ حصہ لیتے تھے ۔جس مرتبہ اور رتبہ کا آدمی ہوتا، اس سے اسی انداز اور معیار میں گفتگو فرماتے ، حد یہ کہ اس خاندان اور قبیلہ کے لحظہ اسلوب اور انداز سخن کی بھی رعایت کرتے تھے ۔

Exit mobile version