از:- ڈاکٹر محمد اعظم ندوی
دور افق پر جب چاند چمکا تھا اس وقت وہ پہلی لطیف سی سرگوشی سنائی دی تھی—رمضان آ رہا ہے! اور دل دھڑک اٹھے، آنکھیں احساس عظمت اور وقار وحیا سے جھک گئیں، فضاؤں میں نور کی روشنی بکھر گئی، اور ایمان کی کلیاں کھلنے لگیں، مگر یہ چاند جو پہلی شب چمکا تھا، اب دھیرے دھیرے مغرب کے کنارے کی طرف جھک رہا ہے، جیسے بچھڑنے کی تیاری کر رہا ہو، اب نصف رمضان ہونے کو ہے۔
رمضان، جو امیدوں اور برکتوں کا مہمان بن کر آیا تھا، اب اپنی تیز رفتاری سے دلوں میں اداسی کا ایک سایہ چھوڑے جا رہا ہے، وہ لمحے جنہیں پانے کے لیے ہم نے دن گنے تھے، اب انگلیوں سے پھسلتی ہوئی ریت کی طرح ختم ہونے کو ہیں، وہ سحریاں، جن میں روحانی لطافت تھی؛ وہ افطار کے مناظر، جن میں سکون کی بارش تھی؛ وہ تراویح کے قیام، جن میں دل کی دھڑکنیں ذکرِ الٰہی کے ساتھ ہم آہنگ ہو چکی تھیں—سب اب بس یادوں کا حصہ بننے والے ہیں۔
اے رمضان! ٹھہر جا، ابھی تو دل پوری طرح جاگا بھی نہ تھا!
یہی تو حسرت ہے! جب یہ مہینہ آیا تھا، تو ہم میں سے کتنے ہی سست روی کا شکار تھے، کتنے ہی دنیا کے جھمیلوں میں الجھے رہے، کتنے ہی اپنی مصروفیات کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے، مگر جیسے جیسے یہ نورانی دن آگے بڑھتے گئے، ہم نے خود کو سنوارنا شروع کیا، مگر افسوس! ابھی تو ہم نے عبادت کا ذائقہ چکھا ہی تھا، ابھی تو آنکھیں پہلی بار خشیت کے آنسو بہانے لگی تھیں، ابھی تو دل کے نہاں خانوں میں ندامت کی کونپلیں اگنے لگی تھیں—اور اب رمضان جا رہا ہے!
یہ کیسی محرومی ہے کہ جب دل کی دنیا آباد ہونے لگی، تب رمضان نے واپسی کا راستہ اختیار کر لیا! اور افسوس کہ بہت سے لوگوں کی زندگی میں ایک عشرہ کے بعد ہی آدھا رمضان رخصت ہو جاتا ہے، روزے رہ جاتے ہیں، باقی سب کچھ روز کی طرح ہو جاتا ہے، کاش وقت کے ساتھ ان کو ان کی ساعتوں کی قدر آجاتی۔
یہی رمضان کی حکمت ہے—کہ یہ ٹھہرتا نہیں، گزر جاتا ہے، تاکہ معلوم ہو کہ حقیقت میں کامیاب کون رہا؟ وہ جس نے رمضان کے ان قیمتی لمحات کو اپنی روح میں اتار لیا، یا وہ جو غفلت میں رہا اور لمحے اس کے ہاتھوں سے نکل گئے؟
یہ مہینہ اس دنیا کی حقیقت کی جھلک بھی ہے—زندگی بھی اسی طرح تیزی سے گزر رہی ہے، جیسے رمضان گزرتا ہے! جس طرح رمضان کی ہر ساعت ایک انمول خزانہ ہے، اسی طرح ہماری زندگی کا ہر دن بھی دراصل آخرت کے لیے ایک سرمایہ ہے، جو اس مہینہ کو قیدِ وقت میں نہیں باندھ سکا، وہ زندگی کے دنوں کو بھی ضائع کر دے گا۔
لیکن اے بندۂ خدا! ابھی وقت باقی ہے، ابھی کئی دن، کئی راتیں باقی ہیں، ابھی آخری عشرہ اپنے اعتکاف اور اپنی روحانی وسعتوں کے ساتھ باقی ہے، ابھی لیلۃ القدر کی متبرک گھڑیاں آنا باقی ہیں!
کیا معلوم کہ تقدیر کے دفتر میں کون سا لمحہ تیرے لیے فیصلہ کن ہو؟ کیا معلوم کہ تیرے گناہوں کی معافی کے لیے کون سی رات مقرر ہو؟ کیا معلوم کہ اللہ کے ہاں کون سا سجدہ تجھے جنتی بنا دے؟
پس جاگ جا! یہ رمضان کی آخری ساعتیں ہیں، جن میں قبولیت کی ہوائیں چل رہی ہیں، بخشش کے دروازے کھلے ہیں، اور آسمانوں میں نداء دی جا رہی ہے: "ہے کوئی مغفرت کا طلبگار؟”
رمضان کی رخصتی کا سوگ نہیں، اس کے فیوض کی بقا کا سامان کر!
یہ وقت ماتم کا نہیں، بلکہ بیداری کا ہے! رمضان جا رہا ہے، لیکن اگر اس کا اثر تیری زندگی میں باقی رہا، تو گویا رمضان تیرے ساتھ چلا نہیں، بلکہ تجھ میں سما گیا!
اگر تیرے دل میں وہی نرمی باقی رہی، جو رمضان نے عطا کی تھی، اگر تیری آنکھیں اسی طرح ندامت کے آنسو بہاتی رہیں، جیسے رمضان میں بہتی تھیں، اگر تیری زبان بدگوئی سے محفوظ رہی، جیسے روزے میں تھی؛
اگر تیرا دل اسی طرح سخاوت پر آمادہ رہا، جیسے رمضان میں تھا؛ اگر ترا قیام اللیل جاری رہا، جیسے رمضان میں تھا، اگر تیری تلاوت اسی ذوق وشوق سے جاری رہی، جیسے رمضان میں تھی—تو سمجھ لے کہ رمضان تجھ میں باقی رہا، گو وہ وقت کی گردش میں گم ہو گیا!
رمضان جاتے ہوئے ہمیں دو تحفے دے کر جا رہا ہے:
1. تقویٰ—جسے ہم نے روزے کے ذریعہ حاصل کیا، جو ہر عمل میں خدا کی نگرانی کا احساس پیدا کرتا ہے، جو ہمیں ہر وقت یاد دلاتا ہے کہ "اللہ دیکھ رہا ہے!”
2. استقامت—جس کے بغیر کوئی کامیابی دائمی نہیں ہو سکتی، رمضان کا اصل کمال یہی ہے کہ جو انسان سحر کے لیے بیدار ہو سکتا ہے، وہ فجر کے لیے بھی جاگ سکتا ہے؛ جو دن بھر بھوک سہہ سکتا ہے، وہ حلال و حرام میں فرق کر سکتا ہے؛ جو راتوں کو کھڑا رہ سکتا ہے، وہ ساری زندگی اللہ کے دین پر ثابت قدم رہ سکتا ہے!
اے رمضان! اگر تجھے روک نہیں سکتے، تو کم از کم تجھے اپنی زندگی میں اتار لیں!
پس اے رمضان! تجھے روکنا ہمارے اختیار میں نہیں، مگر تجھے ہمیشہ کے لیے اپنی زندگی کا حصہ بنا لینا ہمارے اختیار میں ہے!
تو جا رہا ہے، مگر ہم تجھے اپنے کردار میں محفوظ کر لیں گے، تو رخصت ہو رہا ہے، مگر تیری روشنی ہمارے دلوں میں باقی رہے گی، تو ہم سے جدا ہو رہا ہے، مگر تیرا پیغام ہم کبھی فراموش نہیں کریں گے—کہ رمضان سیکھنے کا نام ہے، اور اس کے بعد اس سیکھے ہوئے اسباق پر قائم رہنے کا نام ہے!
پس اے نفس! جاگ جا! یہ گھڑیاں بار بار نہیں آئیں گی، یہ رحمت کا موسم ہر سال ضرور آتا ہے، مگر کوئی گارنٹی نہیں کہ اگلے سال تو اسے پائے گا یا نہیں! اگر یہ آخری رمضان ہوا تو؟ اگر یہ تیرے لیے آخری موقع تھا تو؟
اس سے پہلے کہ یہ قافلہ روانہ ہو جائے، اس کے دامن سے لپٹ جا! اس سے پہلے کہ دروازہ بند ہو جائے، بخشش کا پروانہ لے لے! اس سے پہلے کہ چاند عید کا اعلان کر دے، اپنی مغفرت کا اعلان سن لے!
پس اے رمضان! تجھے الوداع نہیں کہتے، بلکہ تجھے اپنی زندگی میں راسخ کر کے ہمیشہ کے لیے اپنا لیتے ہیں، یہ نہ ہو کہ:
پھر سوچ کے یہ صبر کیا اہل ہوس نے
بس ایک مہینہ ہی تو رمضان رہے گا