روزہ صبر کا اعلیٰ مظہر

از:- سید جمشید احمد ندوی

استاذ جامعہ امام شاہ ولی اللہ اسلامیہ،پھلت،مظفر نگر


اسلام میں روزہ صرف کھانے پینے سے پرہیز نہیں بلکہ ایک مکمل عبادت کا مجموعہ ہے جو انسان کی روحانی، اخلاقی اور سماجی تربیت کا باعث بنتا ہے۔ روزہ صبر کی ایسی عملی مشق ہے جو بندے کو ہر قسم کی دنیاوی و روحانی آزمائشوں کا مقابلہ کرنے کی قوت فراہم کرتی ہے۔ اسی وجہ سے اسے صبر کا اعلیٰ مظہر قرار دیا گیا ہے۔

1. روزہ اور صبر کی بنیادی تشریح

قرآنِ مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ "اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں تاکہ تم تقویٰ حاصل کرو” (سورۃ البقرہ: 183)۔ اس آیت سے واضح ہے کہ روزہ کا مقصد صرف جسمانی پرہیز نہیں بلکہ اندرونی صبر، تقوی اور روحانی پاکیزگی کو فروغ دینا ہے۔
روزہ انسان کو نہ صرف بھوک اور پیاس کی اذیت برداشت کرنے کا سبق دیتا ہے بلکہ اس کی قوتِ ارادہ کو بھی مضبوط کرتا ہے، جس سے وہ دنیا کی ہر آزمائش کا مقابلہ کر پاتا ہے۔
2. روزہ: صبر کی عملی تربیت

روزہ رکھنے کے دوران انسان کو کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
*بھوک اور پیاس کا سامنا:* روزے کے دوران جب دل اور دماغ ایک عارضی خلش محسوس کرتے ہیں تو انسان اپنے اندر موجود صبر اور تحمل کی نئی جہتیں دریافت کرتا ہے۔
*نفسیاتی اور اخلاقی تربیت:* روزہ انسان کی خواہشات کو قابو میں رکھنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ یہ عمل نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی اور روحانی طور پر بھی اسے مضبوط بناتا ہے۔
*نفسیاتی تسلسل:* مسلسل روزے رکھنے سے انسان کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی بھی ہے۔ یہ تجربہ زندگی بھر کے لیے ایک قیمتی درس بن جاتا ہے۔

3. روحانی و اخلاقی پہلو

روزہ صرف ایک جسمانی عبادت نہیں بلکہ ایک مکمل روحانی عمل ہے۔

تقویٰ کی ترقی: روزہ انسان کے دل میں تقویٰ کی شمع روشن کرتا ہے۔ اس دوران بندہ اللہ کی نعمتوں کی قدر کرنا سیکھتا ہے اور ہر لمحہ اپنے رب کی یاد میں گزارتا ہے۔

اخلاقی ترقی: روزے کا اصل مقصد انسان کو وہ اخلاقی اصول سکھانا ہے جن کی بنیاد صبر، شکر اور برداشت ہے۔ یہ انسان کو اپنی نفس کی خواہشات سے لڑنے اور اپنے اخلاق کو نکھارنے کا درس دیتا ہے۔

ایثار اور ہمدردی: روزہ رکھنے سے انسان کو غریبوں اور محتاجوں کی حالت کا حقیقی ادراک ہوتا ہے، جس سے اس کے دل میں ہمدردی اور ایثار کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

4. روزہ اور معاشرتی تبدیلی

روزہ نہ صرف فرد کی ذات میں تبدیلی کا باعث بنتا ہے بلکہ معاشرتی سطح پر بھی مثبت اثرات مرتب کرتا ہے:

معاشرتی برابری: روزہ انسان کو یاد دلاتا ہے کہ دنیاوی نعمتیں عارضی ہیں اور حقیقی کامیابی اللہ کی رضا میں پوشیدہ ہے۔ یہ جذبہ معاشرتی برابری اور ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی کا باعث بنتا ہے۔

اخلاقی ذمہ داری: رمضان میں اگر ہر فرد اپنی روزمرہ کی مصروفیات سے کچھ دیر کے لیے فاصلے لے کر عبادات میں مشغول ہو جائے تو اس سے معاشرہ مجموعی طور پر ایک اخلاقی بیداری کی طرف قدم بڑھاتا ہے۔

5. روزہ: ایک عظیم درسِ حیات

روزہ ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ ہر مشکل کے بعد آسانی ہے اور اللہ تعالیٰ ہر حال میں اپنے بندوں کے ساتھ ہے۔

صبر کا پھل میٹھا: اسلامی تعلیمات کے مطابق، صبر کرنے والوں کا اجر بے شمار ہے اور اللہ تعالیٰ ان کے ساتھ ہمیشہ محبت کرتا ہے۔

روحانی بیداری: روزہ کے ذریعے انسان کو اپنے اندر موجود گناہوں کی یاد آتی ہے اور وہ توبہ و استغفار کا آغاز کرتا ہے۔ یہ عمل اس کی روح کو پاکیزگی کی طرف لے جاتا ہے اور اسے ایک نیا حوصلہ عطا کرتا ہے۔

الہی رضا کا ذریعہ: روزہ ایک ایسا ذریعہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔ ہر وہ لمحہ جو انسان روزہ کے دوران اپنے رب کے حضور گزارتا ہے، اس کا اجر اس دنیا اور آخرت میں دوگنا ہو جاتا ہے۔

6 نتیجہ: روزہ، صبر اور حیاتِ ابدی

آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ روزہ نہ صرف ایک عبادت ہے بلکہ یہ صبر کا اعلیٰ مظہر بھی ہے۔ روزے کی مشق انسان کو اس کی ذاتی، اخلاقی اور معاشرتی ترقی کا باعث بنتی ہے۔

ذاتی ترقی: روزہ فرد کی قوتِ ارادہ کو مضبوط کرتا ہے اور اسے اپنی کمزوریوں سے لڑنے کا حوصلہ دیتا ہے۔

اخلاقی بلندی: اس عبادت کے ذریعے انسان اپنے اخلاق کو نکھارتا ہے اور دنیا کی عارضی لذتوں کی بجائے دائمی نعمتوں کی تلاش میں لگ جاتا ہے۔

معاشرتی ہم آہنگی: روزہ رکھنے سے پیدا ہونے والا ہمدردی اور ایثار کا جذبہ، معاشرے میں ایک دوسرے کے ساتھ محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم کرتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے روزہ کو ایک ایسی عبادت قرار دیا ہے جو صبر کی عملی مشق ہے اور انسان کو نہ صرف دنیاوی مشکلات کا مقابلہ کرنے کی طاقت عطا کرتی ہے بلکہ اسے آخرت کی کامیابی کا ذریعہ بھی بناتی ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔