وطن عزیز کی ترقی میں مسلمانوں کا کردار

از- ڈاکٹر عبد الملک رسول پوری

شعبہ عربی ذاکر حسین دہلی کالج دہلی

دوران مطالعہ ہر اُپجیلے ذہن میں نئے نئے خیالات اور بحث وتحقیق كے لیے نئے نئے موضوعات ابھرتے اور جنم لیتے رہتے ہیں۔ ہمار ا بھی كچھ یہی حال ہے ‏،كمپیوٹر میں ٹو بی ڈن نام كے فولڈر میں اس طرح كے موضوعات كا عظیم ذخیرہ موجود ہے‏، خاكے بنے ہوئے ہیں اورمتعدد موضوعات پر كچھ خام مواد بھی جمع ہے۔ بس تصور سے تصدیق تك كا سفر دركار ہے اور اس سفر كے لیے ایك تحقیقی ادارے كی ضرورت ہے ‏،جس كے سایے تلے اس خام مواد كوتحقیق كی بھٹی میں پگھلاكر ملك وملت كے لیے مفید چیز كوحیز وجود میں لا یا جاسكے۔ دیوبندكے ایك پروگرام میں ہم نے اس طرح كے متعدد موضوعات پر مختصر روشنی بھی ڈالی تھی ‏، انھیں میں سے ایك یہ بھی تھا كہ ہمیں اپنے وجود كے تحفظ كے لیے خود تاریخ سازی كاعمل انجام دینا ہوگا۔ یعنی ہمیں اپنے آبا ء واجداد كی قربانیوں كو تصوف كی كسر نفسی سے نكال كر ڈھول باجوں پر بتانا ہوگا تاكہ ملك كے تئیں ہماری قربانیوں كو بھی شمار كیا جاسكے اور ہمار ی آنے والی نسل كچھ نہ كرنے كی شاكی ہو كر مایوسی كا شكار نہ ہونے پائے۔ درج بالا عنوان كو ہم نے” وطن عزیز كی ترقی میں ملكی مسلمانوں كا كردار“ كے نام سے محفوظ كیا ہوا تھا۔ مختلف كتابوں سے كچھ مواد بھی جمع كیا تھا ‏،ارادہ تھا كہ تفصیلی طور پر كوئی تحقیقی مقالہ تحریر كیا جائے گا؛ لیكن نو نقد نہ تیرا ادھار كے پیش نظر آج وہی مواد مختصر طور پر قارئین كی نذر كیا جارہا ہے۔


عہد وسطی كی تاریخ پر نظر ڈالیں گے تو بر صغیر كے اس جغرافیے میں ہندوستان نامی ملك كہیں بھی نظر نہیں آئے گا ‏، مغلوں كی آمد سے قبل ماوراء سند كا یہ جغرافیہ مختلف رجواڑوں میں بٹا ہوا ممالك ہند كے نام سے جانا جاتا تھا ‏، مغلوں نے آكر اسے ایك متحدہ بوقلمونی بنانے میں اہم كردار ادا كیا ہے۔ انھوں نےمختلف خطوں اور علاقوں كے ہندو مسلم راجاؤں كو اپنا باز گزار بنا كر ایك فیڈرل ہندوستان بنانے كی كوشش كی تھی؛ بعد میں ملك كی آزادی كے وقت سردار پٹیل نے ان ریاستوں اور رجواڑوں كو بھی ختم كر كے صوبوں كا نظام متعارف كرایا؛ اس طرح دیكھا جائے تو اس جغرافیہ كو متحدہ ملك بنانے میں یا تو مغل مسلمانوں كا كردار رہا ہے یا پھر سردار پٹیل كا۔


آزادی كی تحریك پر نظر ڈالی جائے تو یہ حقیقت روز روشن كی طرح عیاں ہوگی كہ آزادی كا اولین نعرہ اس خطے كے مسلمانوں ہی كے ذریعہ بلند ہوا ‏ تھا خواہ وہ 1757 ہو یا 1857 ،انھیں نے جہاد كا فتوی صادر كیا اور انگریز اور انگریزنواؤں سے دو دو ہاتھ كیے تھے۔ غیر مسلم طبقہ تو 1928 تك نہرو رپورٹ كے ذریعہ انگریزی كالونی بننے پر خوش اور ہمہ طورراضی نظر آرہا تھا‏ ‏، یہ تو مسلمان ہی تھے جنھوں نے مكمل آزادی كا نعرہ دیا اور ملك كی آزادی میں گراں قدر خدمات انجام دیں‏، اس سلسلے میں مولانا محمود حسن ‏ دیوبندی ‏، مولانا ابوالكلام آزاد اور مولانا حسین احمد مدنی یا مولانا فضل حق خیرآبادی كوئی محض تین چار نام نہیں تھے؛ بلكہ راے بریلی كے سید احمد شہید ‏، ہردوئی كےمولوی احمد اللہ شاہ‏، بجنور كے عظیم محب وطن جنرل بخت خاں ‏، بریلی كے خان بہادر خان‏، شاہ جہان پور كےشہید اشفاق اللہ خان ‏، دہلی كے آصف علی اور حكیم اجمل خاں ‏، موہان كے حسرت موہانی جیسی شخصیات كی ایك طویل فہرست ہے‏، جنھوں نے نہ صرف فرنگی قید وبند كی مشقتیں برداشت كیں؛ بلكہ آزادی كی راہ میں شہادت اور قربانیاں بھی پیش كی ہیں‏، مولانا ابراہیم فكری نے اس قید وبند كی طویل داستان كو اپنی كتاب ”ہندوستانی مسلمانوں كا جنگ آزادی میں حصہ“ میں رقم كیا ہے۔ روز نامہ الجمعیۃ میں بھی محبان وطن كے نام سے ایك مسلسل كالم نظر آتا ہے‏، جس میں پابند سلاسل رہنے والے مسلم محبان وطن كی مختصر معلومات پیش كی گئی ہیں۔
مابعد آزادی وطن عزیز كی ترقی اور فلاح وبہبود كاجائزہ لیا جاے تو ہندوستانی مسلمانوں كا كردار دیگر اقوام سے كم اہم نہیں نظر آتا ہے ۔ مثلا اگر ملكی سرحدوں كی حفاظت اور دفاع پر نظر ڈالی جائے تو مسلمانوں كی ایك بڑی تعداد ایسی نظر آئے گی‏، جس نے دیگر اقوام كے شانہ بہ شانہ جان ہتھیلیوں پر ركھ كر ملك كے تحفظ میں اپنا عظیم كردار نبھایا ہے۔ جنرل وی كے سنگھ نے اپنی كتاب ”لیڈر شپ ان انڈین آرمی‏“جس میں انھوں نے ہندوستانی فوج كےبارہ عظیم قائدین كا تذكرہ كیا ہے ‏،میں پانچویں نمبر پر شیر نو شہرہ كے نام سے معروف اور اپنی خدمات كے اكرام میں مہاویر چكرسے سرفرازبرگیڈیر محمد عثمان كا سنہرے لفظوں میں جامع خاكہ پیش كیا ہے اور بتایا ہے كہ 1947 كی ہندو پاك جنگ میں مسلم جنگجو محمد عثمان نے كس طرح جموں كشمیر كے خطے كوہندوستان سے مربوط ركھنے میں اپنی خدمات پیش كیں اور دشمن فوجوں كو پسپائی پر مجبور كیا۔ اسی طرح پرم وششٹ سیوا میڈل حاصل كرنے والے آندھرا پردیش كے ائیر چیف مارشل ادریس حسن لطیف كی خدمات ہندوستانی مسلمانوں كا سر اونچا كرنے كے لیے كافی ہیں۔تقسیم وطن كے وقت ان كے كئی لیگی دوستوں نے ہم سایہ ملك چلنے كے لیے دباؤ ڈالا ؛لیكن مٹی سے جڑے رہنےوالے ادریس حسن لطیف نے ہندوستانی فضائیہ سے غداری یا روگردانی گوارا نہیں كی ‏،جب كہ ان كے وہ دوست ہم سایہ ملك میں چیف آف اسٹاف كے عہدوں تك پہنچ گئے؛ لیكن ہمارا یہ جنگجوعہدے كی پرواہ كیے بغیر ملكی خدمات میں اپنا فریضہ انجام دیتا رہا۔ بعد كےدور میں پرم ویر چكر سے سرفراز ویر عبدالحمید كی فوجی خدمات سنہرے حروف سے لكھی جاتی ہیں‏، جنھوں نے 1965 كی جنگ میں وطن كی حفاظت كرتے ہوئے سرحد پر اپنی جان كو قربان كردیا تھا۔اور سابق صدر جمہوریہ بھارت رتن محترم اے پی جےعبدالكلام كے دمكتے نام سے كون نا آشان ہوگا ‏، جن كو بھارت كا میزائل مین كہا جاتا ہے‏،آج وہی میزائل ہندوستان كی حفاظت كے لیے ہمالیائی كردار ادار كررہا ہے۔ ایسا نہیں ہے كہ بس یہی دو چار نام ہوں‏، تحریر كے اختصار كے پیش نظر ان پر اكتفاء كیا گیا ہے ورنہ ہندوستانی فوج میں كبھی كو مسلمانوں كی اچھی خاصی تعداد ہواكرتی تھی ‏،جو ملكی مفادات میں ایمانی اخوت سے اوپر اٹھ كر ہم مذہب ملك دشمن طاقتوں سے بر سر پیكار رہا كرتے تھے۔


موسیقی اور ہندوستان دو لازم وملزوم اشیاء سمجھی جاتی ہیں‏، اس میدان میں بھی ہندوستانی مسلمانوں نے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں۔معروف شہنائی نواز بھارت رتن استاد بسم اللہ خان سے كون ناواقف ہوگا‏، انھوں نے نہ صرف یوم آزادی كی اولین تقریب میں لال قلعہ كی فصیل سے شہنائی بجائی ؛بلكہ یوم جمہوریہ كی اولین تقریب میں بھی اپنی شہنائی سے لوگوں كے قلوب كو مسحور كیا تھااور صرف استاد بسم اللہ ہی كیوں؛ فیض آباد كی بیگم اختر نے بھی فن موسیقی میں كمال كامظاہرہ كر كے پدم بھوشن جیسے عظیم ایوارڈ كو حاصل كیا۔ گوالیار سے تعلق ركھنے والے پدم وبھوشن استاد امجد علی خان‏، مدھیہ پردیش ہی كے پدم بھوشن استاد امیر خان‏، ممبئی كے پدم بھوشن استاد ذاكر حسین‏،بنگال كے پدم وبھوشن استادعلی اكبر خاں‏، پدم بھوشن استاد بڑے غلام علی خاں‏، پدم بھوشن استاد علاؤ الدین خان سبھی نے اپنی پر كشش آوازوں ‏،نغموں اور شہنائیوں سے گلستان ہند میں نغمگی بكھیری ہے اوردور حاضر میں پدم شری اللہ ركھا رحمن كی ساحرانہ نغمگی سے كس كے كان نا آشنا ہوں گے جنھوں نے حالیہ دنوں میں دہلی میں منعقد كیے جانے والے دولت مشتركہ كھیلوں میں اپنا نغمہ سنا كر مقابلوں كا آغاز كیا تھا۔
وطن عزیز كے تعلیمی زاویے پر نظر ڈالی جائے تو ملك كے اولین وزیر تعلیم مولانا ابو الكلام آزاد معلم ہند كے منصب پر فائز نظر آتے ہیں۔ ملك میں قائم پورے كے پورے تعلیمی ڈھانچے كے پیچھے انھیں كی سعی پیہم اور انتھك كاوشیں كارفرما ہیں‏، خواہ اسكولوں ‏، كالجوں ‏‏،یونیورسٹیوں اور یونیورسٹی گرانٹ كمیشن كا نظام ہو خواہ مختلف فنون كے انڈین انسٹی ٹیوٹ ہوں سب كے قیام كا سہرا مولانا آزاد ہی كے سربندھتا ہے ‏، اس كے بعد پرائیوٹ یونیورسٹیوں میں بھی مسلمانوں نے قابل تقلید كارنامے انجاد دیے ہیں۔ وطن عزیز كے تعلیمی جغرافیے سے ذراعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی كو نكال كردیكھیں تو ملك كی شرح خواندگی كئی گنا نیچے چلی جائے گی ‏، اس سے سر سید رحمہ اللہ كی خدمات اور خود ملك كی ترقی میں اے ایم یو كا كردار واضح طور پر سامنے آجائے گا۔ اسی طرح جامعہ ملیہ اسلامیہ كے تعلیمی كردار سے كون انكار كرسكتا ہے ‏‏۔ پدم بھوشن حكیم عبدالحمید ‏، جنھوں نے ملك كی ایك بڑی یونیورسٹی جامعہ ہمددر كی بنیاد ركھی‏ اور طب یونانی میں ہمدرد ٹرسٹ كو اتنی بلندی پر پہنچادیا كہ وہ دنیاكا سب سے بڑا یونانی ادارہ شمار كیا جاتا ہے۔ آج ہمدرد ٹرسٹ نہ صرف طبی میدان میں خدمات انجام دے رہا ہے بلكہ كئی اسكول اور كالجوں اور ہمدر د یونیورسٹی كے ذریعہ تعلیمی میدان میں بھی ملك كا نام روشن كررہا ہے۔ لكھنؤ كی انٹگرل یونیورسٹی‏، جودھ پور كی آزادی یونیورسٹی كے علاوہ جنوبی اور شمال مشرق كے ہندوستان میں بھی مسلمانوں نے متعدد یونیورسٹیاں قائم كر كے وطن عزیز كی نہ صرف شرح خواندگی میں اضافہ كیا ہے؛ بلكہ ان سے تعلیم حاصل كرنے والوں كی اقتصادی حالت میں اصلاح اور ملكی آمدن میں اضافے كا باعث بھی بنے ہیں۔


تعلیمی میدان میں ڈاكٹر اخلاق الرحمن قدوائی نے قابل فخر كارنامے انجام دیے ‏، وہ نہ صرف مسلم یونیورسٹی كےوائس چانسلر رہے؛ بلكہ انھوں نے یونین پبلك سروس كمیشن كے چیئر مین كی حیثیت سے بھی گراں قدر خدمات انجام دیں اورانگریزی كے علاوہ ملك كی دیگر زبانوں میں كمیشن كے مقابلہ جاتی امتحانات منعقد كرا كے كمیشن كاصحیح معنوں میں بھارتی كرن كیا۔ اور صرف اے آر قدوائی ہی كیوں ؛ انیس قدوائی‏، رفیع احمد قدوائی بلكہ بارہ بنكی كے پورےقدوائی خانوادے نے ملك كی ترقی میں امتیازی كردار ادا كیا ہے۔ وطن عزیز كو جن چند شخصیات نے تعلیمی عروج بخشا ہے ان میں سے ایك ماہر تعلیم بھارت رتن سابق صدر جمہوریہ ڈاكٹر ذاكر حسین بھی ہیں۔ ہندوستان كے تعلیمی افق پر ڈاكٹر صا حب كی خدمات ستاروں كے مانند چمك رہی ہیں۔ اسی طرح علاج دنداں كے باوا آدم پدم بھوشن ڈاكٹر رفیع الدین احمد كا نام بھی سنہرے حروف میں لكھا جاتا ہے ۔ موصوف كو ہندوستان میں دانتوں كی سرجری كا قائد تصور كیا جاتا ہے ‏، انھوں نے از خود پیش قدمی كر كے 1920 میں كلكتہ میں ملك كے اولین ڈینٹل كالج كی بناد ڈالی تھی۔ اسی طرح ماہر تعلیم كی حیثیت سے ایك اور نام بھی علمی آسمان پر ستارہ بن كر چمكتا ہے جسے ہم رفیق زكریا كے نام سے جانتے ہیں انھوں نے ‏ مولانا آزاد ایجوكیشنل ٹرسٹ كے بانی صدر كی حیثیت سے ملك میں تعلیمی بیداری اور اسكول قائم كرنے كی ایك طویل مہم چلائی۔ مشہور سیاستداں بیرسٹر اسدالدین اویسی كے والد محترم سلطان صلاح الدین اویسی نے بھی تعلیمی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دی ہیں ‏،انھوں نے نے شہر حیدر آباد میں انجینئرنگ كالج‏، میڈیكل كالج اور كئی ڈگری كالج قایم كیے ہیں ‏، جن شہریوں كوخوانداہ بنانے كی ذمہ داری حكومتوں كی تھی ان كو تعلیم یافتہ بنانے میں مہاراشٹر كے مولانا وستانوی ‏،كالی كٹ كے شیخ ابو بكر‏ اور آسام كے مولانا بدالدین اجمل نے بھی كا فی اہم ا كردار ادا كیا ہے ‏،درج بالاتینوں شخصیات نے اپنے اپنے خطوں میں متعدد كالجز اور دسیوں اسكول قائم كیے ہوئے ہیں۔علمی دنیا كا ایك بڑا نام كرنل بشیر حسین زید ی بھی ہے ‏، جو ماہر سیاست داں‏، منتظم ‏،ماہر تعلیم ‏،تاجر اور عظیم صحافی تھے۔


طبی میدان میں عظیم خدمات انجام دینےوالے علی گڑھ كے مشہور سائنس داں اور صنعت كار خواجہ عبدالحمید كا نام بھی جلی حروف میں لكھا جاتا ہے انھوں نے سِپلا نامی دواساز كمپنی كی بنیاد ركھی اور دواسازی میں ہندوستان كو اس حد تك خود كفیل بنایا كہ انھیں ہندوستانی ادویہ كی صنعت كا اہم ستون تصور كیا جاتا ہے۔ اسی طرح یونانی ادویہ میں ہمدر د دوا خانہ كی مصنوعات عالمی سطح پر مقبول ومعروف مانی جاتی ہیں اور نہ صرف ہمدرد بلكہ چھوٹی بڑی سیكڑوں دواساز كمپنیاں ملك كے حفظان صحت میں اپنا كردار ادا كررہی ہیں ‏،كیا كوئی ہمالیہ ڈركس كو بھی بھول سكتا ہے ‏،جس كی مصنوعات نہ صرف باشندگان ہند كو صحت كی ضمانت دے رہی ہیں بلكہ انھیں یوروپی ممالك میں بھی نہایت مفید اور صحت بخش سمجھا جاتا ہے۔


فلم انڈسٹری كی بات كی جائے گی تو سر فہرست پونے كے ابراہیم حمدی القاضی كا نام آئے گا‏، جنھوں نے 1953ء میں شہر ممبئی میں اسكول آف ڈریمیٹك آرٹس قائم كیا اور بعد میں نیشنل اسكول آف ڈراما كے بانی ڈائریكٹر كےطور پر تھیئٹر پروڈكشن كو بلندی پر پہنچایا۔ اسی طرح پدم بھوشن اسماعیل نورمحمد عبدالرحمان مرچنت كا نام بھی سنہرے حروف میں لكھا جاتا ہے‏، جنھو ں نے اپنی خدمات سے فلم انڈسٹری كو عروج بخشا۔ گجرات كے رمضان محبوب خاں‏، جنھوں نے چالیس كی دہائی میں عورت‏،بہن اور روٹی جیسی فلمیں بنائی اور ہندوستانی سنیمے كو اپنے پیروں پر كھڑے ہونےمیں اپنا كردار ادا كیا اور انوكھی ادا اور انداز جیسی كامیاب فلمیں بنائیں اور ان كی مشہور فلم مدر انڈیا كو كون بھلا سكتا ہے ‏،جس كو آسكر كے لیے بہترین غیر ملكی فلموں میں نامزد كیا گیا اور یہ اعزاز حاصل كرنے والی یہ پہلی ہندوستانی فلم تھی۔ اس مناسبت سے دیكھاجائے تو ہندستانی سنیما كو آسكركے لیے متعارف كرانے كے سہرا انھیں بابا رمضان كے سر بندھتا ہے۔بعد كے دور میں پدم بھوشن طیب مہتہ‏، دلیپ كمار اور عہد حاضر میں كنگ خان‏، مسٹر پرفیكشنسٹ عمران خان اور ہیرؤں كا ہیرو سلمان خان جیسے خانوں كے ذریعہ ہی فلم انڈسٹری كی حیثیت عالمی سطح پر قائم اور باقی ہے۔


علمی دنیا میں تحقیق وجستو میں مگن شخصیات كا تذكرہ كیا جاے تو راجستھان سے تعلق ركھنےوالے ممبئی كے اصغر علی انجینر كا ذكر ضروری قرار پائے گا ۔ انھوں نے اسلام ‏، مسلمانوں كے مسائل اور مسلم خواتین اور آزادہندوستان میں فرقہ وارانہ تشدد پر تقریبا 50 سے زیادہ كتابیں تصنیف كی ہیں اور حكومت ہند كے خود مختار ادارے نیشنل فاؤنڈیشن فار كمیونل ہارمنی كے اعلی ایوار ڈ سے سرفراز كیے گئے ہیں۔


تاریخ كے میدان میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی كے عرفان حبیب اور جواہر لال نہرو یونیورسٹی كے امتیاز احمد جیسی ممتاز شخصیات نے نہایت گراں مایہ خدمات انجام دی ہیں۔
كتابوں كی دنیا میں وطن عزیز كے عالمی شہرے میں اپنے حصے كا كردار پٹنہ كےمحترم خدا بخش نے بھی انجام دیا تھا ‏،جنھون نے خدابخش اورینٹیل پبلك لائبریری قائم كی ‏،جس كا آج ملك كی چند حوالہ جاتی بڑی لائبریریوں میں شمار ہوتا ہے۔ رام پور كی رضا لائبریری‏، ٹونك راجستھان كی لائبریری جسے مولانا ابوالكلام آزاد عربی فارسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ كے نام سے جانا جاتا ہے ۔ حیدرآباد كا سالار جنگ میوزم اور آصفیہ لائبریری یہ سب كتابوں كے وہ عظیم ذخیرے ہیں‏، جنھیں قائم كرنے ‏،سنوارنے اور ان كی معلومات كو عمومی افادے كے لیے عام كرنے میں مسلم اسكالرز كا عظیم كردار ہے ۔ اور بیرونی دنیا سے آنے والا كوئی بھی ریسرچر اور محقق ملك كی ان عظیم لائبریریوں سے استفادہ اپنی سعادت سمجھتا ہے۔


كھیل كے میدانوں میں بھی وطن عزیز كے مسلمانوں نے ملك كا نام روشن كیا ہے؛چناں چہ بیڈمنٹن كی دنیا میں آٹھ بار كے بیڈ مینٹن چمپئن ارجن ایوارڈ سے سرفراز سید مودی كا نام چاند كی مانند روشن ہے۔موصوف كا تعلق گوركھپور سے تھا۔ انھوں نے دولت مشتركہ كھیلوں میں انگلینڈ كوشكست دے كر ملك كے لیے طلائی تمغہ حاصل كیا تھا۔دہلی میں منعقد ایشائی كھیلوں میں كانسے كا تمغہ جیتا تھا اور بعد میں آسٹریائی اوپن جیت كر ملك كا نام روشن كیا تھا۔ اسی طرح فٹ بال كے میدان میں حیدرآباد سے تعلق ركھنےوالے ارجن ایوارڈ یافتہ سید نعیم الدین نے بھی وطن عزیز كے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں اور ملك كا نام روشن كیا ہے۔وہ ایك عظیم فٹ بالر اور كوچ تھے۔ پہلوانی میں رستم ہند كے نام سے مشہور گاما پہلوان سے كون ناواقف ہے خواہ ان كا اصلی نام نہ جانتا ہو لیكن گاما پہلوان سے تو ہرہندوستانی واقف ہے ۔ان كا اصلی نام غلام محمد بخش ہے۔ موصوف نے انگلینڈ اور پولینڈ میں كئی بار كشتیاں جیت كر وطن عزیز كا نام روشن كیا۔ كركٹ كے مشہور كھلاڑی پدم شری محمد اظہر الدین كو كیسے بھلایا جاسكتا ہے انھوں نے متعدد بار اپنے كھیل سے وطن عزیز كا نام روشن كیا اور صرف وہی كیا ان سے پہلے افتخار علی خاں پٹودی‏، غلام احمد علی اور منصور علی خاں پٹودی جیسے عظیم كھلاڑیوں نے بھی ہندوستانی ٹیم كی قیادت اور متعدد بار وطن عزیز كا نام روشن كیا۔ كركٹ كی دنیا میں تو ایك وقت ایسا بھی آیا ہےكہ گیارہ كھلاڑیوں میں سے چار كھلاڑی مسلم ہواكرتے تھے۔ حالیہ دور میں كھیلوں كی دنیا میں وطن عزیز كا نام روشن كرنے والے چند تابناك چہروں میں سے ایك حیدرآباد كی مشہور ٹینس اسٹار پدم شری ثانیہ مرزا بھی ہیں‏، جنھوں نے وطن عزیز میں ٹینس كھیل كو ایك نئی شناخت دی اور بین الاقومی سطح پر ملك كے لیے كئی بار نام كمایا۔


عدلیہ كو دیكھا جائے تو وطن عزیز كے سپریم كورٹ كی پہلی خاتون جج كا سہرا بھی كیرل كی ایك مسلم خاتون ایم فاطمہ بیوی كے سر بندھتا ہے؛ جو ملك ہی نہیں بلكہ دنیا كے كسی بھی عدالت عظمی میں جج بننے والی پہلی مسلم خاتون تھیں۔ بدر الدین طیب جی جنھوں نے انگریزی دور میں ممبئی ہائی كورٹ كے چیف جسٹس كی حیثیت سے خدمات انجام دیں اور بعد میں گاندھی جی كے ساتھ متعدد ستیہ گرہوں میں حصہ لیا ۔بیوروكریسی اور سفارت كاری میں نائب صدر جمہوریہ حامد انصاری‏، مرحوم سید حامد‏، مرحوم سید شہاب الدین‏، علی یاور جنگ ‏ اور تلمیذ احمد جیسے نہ جانے كتنے مسلمانوں نے ہندوستان كی ترجمانی اور ملك كے لیے اپنی بے بہا خدمات پیش كیں۔


صحافت میں مڈ ڈے پبلی كیشن گروپ كےچیئر مین خالد عبدالحمید انصاری كا نام بھی ملك وملت كے عظیم خدمات انجام دینے والوں میں شمار كیا جاتا ہے انھیں كے والد بزرگوار نے 1938 میں ممبئی میں روزنامہ انقلاب كی اشاعت شروع كی تھی۔ میدان صحافت كا ایك بڑا نام پدم شری فاطمہ زكریا بھی ہے۔ یہ ماہر تعلیم رفیق زكریا كی اہلیہ تھیں انھوں نے انگریزی صحافت میں كافی نام كمایا۔
صنعت كاری میں پدم بھوشن عظیم ہاشم پریم جی كوہندوستان كا ٹیك كنگ شمار كیا جاتا ہے۔ ٹكنالوجی میں ہندوستان كی عالمی شناخت بنانے میں عظیم پریم جی اور ان كی كمپنی وپرو لمٹیڈ كا عظیم كردار ہے۔
پینٹگ كی دنیا كے بے تاج بادشاہ پدم وبھوشن مقبول فدا حسین بھی ایسے ہندوستانی مسلمان تھے ‏،جنھوں نے وطن عزیز كا نام كرہ ارضی كے ہر چہار جانب روشن كیا ہے۔حسن وزیبائش كی دنیا میں پدم شری شہناز حسین كا نام جلی حروف میں لكھا ہوا ہے۔امریكہ كے سكسیس گروپ نے موصوفہ كو دنیا كی عظیم ترین خاتون صنعت كار ایوارڈ دیا ہوا ہے۔ادارے كی صدسالہ تاریخ میں یہ ایوارڈ حاصل كرنے والی وہ پہلی خاتون ہیں۔
سائنسی میدان میں بھی وطن عزیز كے مسلمانوں نے اپنی گراں قدر خدمات پیش كی ہیں‏، میزائل مین كا ذكر اوپر گزر چكا ہے یہاں یہ جان لیا جائے كہ الہ آباد سے تعلق ركھنےوالے پدم بھوشن سید ظہور قاسم كو ملك میں صف اول كے سائنسدانوں میں شمار كیا جاتا ہے‏، انھوں نے ہی بحری جغرافیے سے متعلق تحقیق كی بنیاد ركھی اور ملك كو مضبوط بنانے میں اپنا كردار نبھایا۔
یہ وہ چند اشخاص اور چند موضوعات ہیں جن كے ذكر سے اس حقیقت كی طرف اشارہ كرنا مقصود ہے كہ وطن عزیز كی ترقی اور فلاح وبہبود میں ملك كے مسلمانوں نے كبھی بھی كام چوری كامظاہر نہیں كیا ‏ ہے ‏،انھوں نے حسب وسعت ہر میدان میں اپنے حصہ كے كارنامے انجام دیے ہیں‏ اور مسلمانوں كی نوجوان نسل میں آج بھی وہی جذبہ اور حوصلہ برقرار ہے ‏، وطن عزیز كے لیے ہر ممكن قربانی دینے سے یہ قوم كبھی بھی پسپائی اختیار كرنے والی نہیں ‏، بس فرقہ واریت كا كھیل كھیلنے والی حكومتوں نے ان نوجوانوں كو مواقع فراہم كرنا ہی بند كردیے‏، ‏ جس كی وجہ سے جذبات ‏،حوصلے اور صلاحتیں خود اپنے ذہنوں اور سینوں میں ہی مرتی جار ہی ہیں۔


ایسے میں ضرورت ہے كہ ملی تنظیمیں اٹھیں اور ایك بار پھر قومی خدمات كا جائزہ لیں اور مسلمانوں كے ذریعہ انجام دیے جانے والے لائق ستائش اہم كاموں كو اجاگر كریں تاكہ برادران وطن كے ساتھ آنے والی نئی نسل كو بھی پتہ چلے كہ اس گلستان كی سیرابی میں مسلم قوم كا بھی گراں مایہ كردار ہے ؛ اس كے لیے ضروری ہے كہ ارجن ایوارڈ‏، پدم شری ‏،پدم بھوشن اور پدم وبھوشن جیسے ہرمیدان میں صدارتی ایوارڈ یافتہ افراد كے سوانحی خاكے مرتب كیے جائیں اور اسكولوں میں ان شخصیات پر اوپن لكچرز ہوں ۔ اسی طرح ملك كے طول وعرض میں قائم شدہ جیلوں كے دستاویزات سے مسلم محبان وطن كی ایك جامع دستاویز تیار كروائیں كہ كن كن مسلمانوں كو كب كب فرنگی زندانوں میں قید كیا گیا اور انھیں كس كس طرح كی مشقتیں دی گئی تھیں۔ اسی طرح ملك كو صنعتی لحاظ سے مضبوط كرنے میں اپنا كردار ادا كرنے والی علی گڑھ كی تالا چابی‏، مرادآباد كی پیتل مصنوعات‏، رام پور كی قینچی ‏، بھدوہی كی قالینیں ‏،بنارس اور مبارك پور كی ساڑیوں جیسی بہت سے صنعتوں كا جائزہ لے كر ان كی اہمیت كو اجاگر كیا جائے۔ لیكن مشاہدے كی آنكھ یہ كہتی ہے كہ ملی تنظیموں كی ترجیحات مسلم قوم كی ترقی كے سوا اور كچھ ہے‏، فالله المستعان وعليه التكلان.

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔