Site icon

بی پی اس سی مقابلہ جاتی امتحان کے نتائج

مفتی محمد ثناء الہدی قاسمی/نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھاڑکھنڈ

گذشتہ مہینہ میں بہار پلک سروس کمیشن نے اساتذہ اسکول کے ساتھ سرسٹھویں (67)مشترکہ مقابلہ جاتی امتحان کے فائنل نتائج کا اعلان بھی کردیا، جس میں سات سو ننانوے (799)امیدوار کامیاب قرار پائے، اس بار مسلم کامیاب امید واروں کی تعداد اکاون(51) ہے، جس میں تینتالیس(43) وہ طلبہ ہیں جنہوں نے حج بھون میں تربیت حاصل کی تھی، جملہ کامیاب امید واروں کے مقابل مسلم امید وار کی تعداد صرف ساڑھے چھ فی صد ہے، ایک مسلم امید وار نے سر فہرست دس میں اپنی جگہ بنانے میں کامیابی حاصل کی ہے، کامیاب امیدوار مبارک باد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی کامیابی سے مسلم سماج کا وقار بلند کیا، اس موقع سے مختلف کوچنگ مراکز خاص کر بہار حج کمیٹی اور حج بھون کے ذمہ داروں کو بھی مبارکباد دینا چاہوں گا اس لیے کہ کامیاب امیدواروں میں بڑی تعداد نے انہیں کے مرکز سے تربیت پائی ہے،حوصلہ افزائی اور مبارک، سلامت کے بعد ہمیں سمجھنا چاہیے کہ کامیابی کا یہ تناسب کافی نہیں ہے، کیوں کہ سترہ فی صد سے زیادہ مسلم آبادی میں ہماری کامیابی کا تناسب دس فی صد بھی نہیں ہے، اس لیے ضروری ہے کہ ان اسباب وعوامل پر غور کیا جائے، جن کی وجہ سے کامیابی کا تناسب آگے نہیں بڑھ پا رہا ہے، مختلف تنظیموں اور اداروں کی طرف سے چلائے جانے والے کوچنگ کے اثرات بھی بڑے پیمانے پر سامنے نہیں آپا رہے، اب تو مدرسہ کے بچوں کو چٹائی سے اٹھا کر حفظ+ کے نام سے کوچنگ کرایا جا رہا ہے۔لیکن اس کے بھی خاطر خواہ ثمرات سامنے نہیں آ رہے ہیں، ہر ادارہ اپنی پیٹھ ٹھونکتا ہے، ہمارے یہاں کے اس قدر بچے کامیاب ہوئے، کوئی یہ بتانے کی ز حمت نہیں کر تا کہ کتنے بچوں پر آپ نے محنت کی اور کس تناسب سے آپ کے بچے کامیاب ہوئے، یہ اعداد وشمار بھی ہمارے سامنے ہوتے تو ہم تجزیہ کر پاتے کہ تربیت دینے والے اداروں میں کہاں کمی ہے کہ نتائج خاطر خواہ بر آمد نہیں ہو پارہے ہیں، اپنی کمی کو تاہیوں کا ادراک کرکے اس کے ازالہ کی سبیل نہیں پید ا کی گئی تو ہماری کامیابی ایسی ہی مختصر رہے گی اور ہم دوسروں کو الزام دیتے رہیں گے کہ جانبداری کی وجہ سے ہم بچھڑ جاتے ہیں،اور لوگ مسلمانوں کو پیچھے دھکیلنا چاہتے ہیں، یقینا ا ن کی منشا یا نیت یہ ہو سکتی ہے، لیکن ہماری اولو العزمی، غیر معمولی محنت اور حریف کے مقابل اپنی صلاحیت کی بر تری اس منصوبے کو بڑی حد تک نا کام کر سکتی ہے، ماضی میں بھی ایسا ہوا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہو سکتا ہے، ضرورت صحیح تجزیے اور کمیوں کے دور کرنے کی ہے۔

بی پی اس سی نے اساتذہ بحالی کے لیے جو امتحانات لیے تھے، اس کے نتائج بھی سامنے آئے اور ان کی بحالی کی کاروائی مکمل ہو چکی ، نتیش کمار کے ہاتھوں تقرری کا پروانہ تقسیم ہو چکا ہے، مختلف اضلاع میں کامیاب امیدواروں کو اسکول بھی الاٹ کیا جاچکاہے ، اس نتیجے کے کئی قابل ذکر پہلو ہیں، سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ نتیش حکومت نے بہار اسکول سروس کے دروازے دوسری ریاستوں کے لیے کھول دیے اوربڑی تعداد میں دوسری ریاستوں کے امید وار شریک امتحان ہوئے اور کامیاب ہوئے، با خبر ذرائع کے مطابق بہار کے علاوہ چودہ ریاست کے کامیاب امیدواروں کا تناسب ستر فی صد ہے، ان ستر فی صد بیرونی امید واروں کو خوش آمدید، لیکن اگر یہ حسب سابق ہوتا تو بہار کی بے روزگاری کی شرح میں کمی ہوتی، اور عظیم اتحاد کے ووٹ بینک میں بھی اضافہ ہوتا، یہاں پر رک کر سوچنے کا ایک نکتہ یہ بھی ہے کہ کیا ہمارے یہاں کے پڑھے ہوئے امیدواروں کی صلاحیت کمزور تھی کہ دوسری ریاست کے تعلیم یافتہ امیدوار ان پر غالب آگیے، ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ تعلیم کی گرم بازاری اور دوسری ریاستوں کے دروازے کھولنے کے باوجود بڑی تعداد میں سیٹیں اب بھی خالی رہ گئیں، بلکہ کہنا چاہیے کہ کسی بھی سبجیکٹ میں” طلب” کے اعتبار سے کامیاب” رسد "نہیں ہو سکی، اور سیٹیں خالی رہ گئیں، اس کے لیے بی پی اس سی کو پھر سے منصوبہ بندی کرنی ہوگی۔

 اعداد وشمار پر ایک نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ بتیس ہزار نو سو سولہ (32916)اساتذہ کی خالی جگہوں کے لیے کل چھبیس ہزار نوسو اسی(26980) امیدوار ہی کامیاب قرار پائے، سب سے زیادہ امید وار سوشل سائنس میں کامیاب ہوئے، اس سبجیکٹ میں 5425اساتذہ کی ضرورت تھی، 5397کامیاب قرار پائے، معاملہ قریب قریب کا رہا، لیکن دوسرے موضوعات میں سینکڑوں جگہیں خالی رہ گئیں، جاری اعداد وشمار کے مطابق ہندی کی 5486میں 4242،انگریزی کے 5425میں 4001، سائنس کے 5425میں 4588، حساب کے 5425میں 4480، سنسکرت کے 2839میں 1750، اردو کے 2300میں 1612، عربی کے 200میں 04، فارسی کے 300میں 12اور بنگلہ کے 91میں 03امیدوار ہی اہل قرار پائے، آپ دیکھیں گے کہ سب سے بُری حالت بنگلہ کے بعدفارسی، عربی اور اردو کے امیدواروں کی رہی، جو ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔اردو کے لیے کام کرنے والی تنظیموں، اسکول ومدارس کے اساتذہ کو اس پر پوری مستعدی کے ساتھ غور کرنا چاہیے کہ ایسا کیوں ہوا؟ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اردو کے فروغ کے لیے جاری رقم کو سمینار، سمپوزیم پر خرچ کرکے مطمئن ہو گیے اور زمینی سطح پر اردو کے کام میں ہماری دلچسپی باقی نہیں رہی، ہم بھاگ دوڑ اردو کے نام پر کرتے رہے، لیکن اسکول میں آنے والے طلبہ کو اردو کے لیے اس طرح تیار نہیں کرسکے کہ وہ امتحان میں کامیاب ہوپاتے، سوچنے کا یہی محور مدارس کے لیے بھی ہے، عربی فارسی میں ہمارے طلبہ کیوں کامیاب نہیں ہو سکے۔یاتو وہ امیدواری کے اہل ہی نہیں تھے کہ فارم بھر سکتے۔

 تمام کامیاب امیدواروں نے اگر ڈیوٹی جوائن کر لی تو بھی بڑی تعداد میں آسامیاں خالی رہ جائیں گی، اور ظاہر ہے سارے کامیاب امیدوار کا جوائن کرنا نا ممکنات میں سے ہے، کیوں کہ کئی تو بی پی اس سی کے ذریعہ انتظامی سروس کے لیے منتخب ہو چکے ہیں، کئی اپنی پرانی جگہ کو چھوڑنا نہیں چاہیں گے، اس وجہ سے محکمہ تعلیم   نےبی پی اس سی کو خالی آسامیوں کی تفصیلات فراہم کر دی ہیں ، تاکہ نئی بحالی کے لیے کارروائی شروع کی جا سکے، حالاں کہ یہ فی الفور ممکن نہیں، جب تک جوائننگ کے مراحل مکمل نہیں ہوجاتے، خالی آسامیوں کی فہرست بنانی ممکن نہیں ہے، تاخیر ہونے پر عام انتخاب کے لیے ضابطۂ اخلاق نافذ ہو جائے گا اور یہ معاملہ التوا میں بھی جا سکتا ہے ۔

اس موقع سے ہمیں اساتذہ بحالی میں ان کامیاب امیدواروں کو جن کی صلاحیتیں آگے بڑھنے کی ہیں، یہ کہنا ہے کہ انہیں اپنی محنت جاری رکھنی چاہیے اور آئی ایس، آئی پی اس کے لیے امتحانات میں بیٹھنا چاہیے، اور آگے کی طرف دیکھنا چاہیے، ہمیں بڑی حیرت اس وقت ہوتی ہے جب اچھی صلاحیتوں کے منتخب امیدواروں کو اس طرح مبارکباد دی جاتی ہے جیسے انہوں نے بڑا کارنامہ کر دکھایا ہو، حالاں کہ وہ خوب اچھی طرح جانتے ہیں کہ

 ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہے

Exit mobile version