Slide
Slide
Slide

سفر،مسافر سفراء اور طلبہ

از قلم: مفتی ناصر الدین مظاہری



چند دنوں کے بعد ہمارے طلبہ جوق درجوق بصد ذوق و شوق اپنے وطن اپنے والدین اور اہل تعلق کے پاس جانے کے لئے بسوں، ٹرینوں اور پلینوں سے رواں دواں نظر آنے والے ہیں، آپ یقین جانئے روئے زمین پر آپ سے زیادہ بے ضرر کوئی نہیں ہے، آپ کی جیب میں سیب کاٹنے کے لئے چاقو بھی نہیں ہوتا، آپ کے بیگ میں چند کتابیں اور کپڑوں کے سوا کبھی کسی کو کچھ نہیں ملا لیکن اب حالات پہلے جیسے ہرگز نہیں رہے، اپنےسامان کے بارے میں بالکل غافل نہ رہیں، یہ نہ سوچیں کہ میرے پاس تو کچھ بھی غیرقانونی چیز نہیں ہے بلکہ یہ سوچیں کہ کوئی شرپسند ہمارے بیگ میں کوئی غیر قانونی چیز نہ رکھ دے، کوئی سرکاری نوکر بیگ چیک کرے تو پہلے کئی ساتھیوں کو قریب کرلیں بلکہ ویڈیو بنائیں تاکہ چیک کرنے کے بہانے کچھ رکھ نہ سکے۔



پہلے کے سبھی لوگ اچھے تھے، انسانیت تھی، مروت تھی، بزرگانہ شفقت تھی، چھوٹے بھی بڑوں کا اکرام اور احترام کرتے تھے زیادہ دن نہیں ہوئے ایک جنرل ڈبے میں مجھے سفر کرنا پڑا، اندر ہر سیٹ پر چار چار پانچ پانچ لوگ بیٹھے تھے، میں نے ایک سیٹ پر دیکھا کچھ اسکولی طلبہ بیٹھے تھے، جسم وجثہ میں معمولی، ہلکے پھلکے، میں نے کہا بچو ٹھوڑی سی جگہ بناکر مجھے بھی بیٹھنے کا موقع دو، ایک بچہ بولا چچا میاں آپ کو تو پتہ ہے جگہ نہیں ہے، میں نے کہا کہ چچا بھی کہتے ہو اور چچا کی موجودگی میں خود بیٹھے ہوئے ہو، کھڑے ہو جاؤ، اتنا سننا تھا کہ وہ بچہ کھڑا ہو گیا میں بیٹھ گیا اور پھر بقیہ بچوں سے کہا کہ اس بھتیجے کے لے جگہ بناؤ چنانچہ وہ بچہ بھی بیٹھ گیا۔ یہ واقعہ اب سے پندرہ سال پہلے کا ہوگا تب تک حکام کی طرف سے لوگوں کے ذہن ودماغ کو نہیں بگاڑا گیا تھا، تنظیموں کی طرف سے نفرت کی ہوائیں نہیں چلی تھیں، سیاسی طالع آزماؤں نے مذھب کے نام پر لڑانا شروع نہیں کیا تھا، عوام اب بھی اچھی ہے بس وہ ہمارے پیار بھرے جملوں اور رویوں کے مشتاق و محتاج ہیں، مجھے ایک دن مظاہر علوم وقف کے کام سے اچانک مرادآباد جانا پڑگیا، سیالدہ ایکسپریس کا وقت تھا میں اسٹیشن پہنچا، جنرل ٹکٹ لے کر ٹی ٹی کے پاس گیا اور بولا کہ سر مجھے اچانک مرادآباد جانا پڑا ہے اس لئے جنرل ٹکٹ لے کر آپ کی خدمت میں حاضر ہوگیا ہوں آپ کی اجازت ہوگی تو عزت کے ساتھ بیٹھ جاؤں گا اجازت نہیں ہوگی تو ذلت کے ساتھ اتر جاؤں گا، وہ ٹی ٹی ان جملوں کی لذت سے اتنا محظوظ و متاثر ہوا کہ بار بار یہ جملہ دہراتا اور سر ہلاتا رہا ، پھر بولا کہ یہ سات نمبر سیٹ میری ہے آپ بے تکلف بیٹھیں آپ سے مل کر بہت خوشی ہوئی ، اس زمانے میں ایسے پیارے شبدوں کا استعمال کون کرتا ہے۔



بہرحال اب گرگٹ نے رنگ بدل لیا ہے، ویسے بھی گرگٹ رنگ بدلنے میں بڑا ماہر و مشاق ہے آپ ان رنگوں کو سمجھنے کی کوشش کریں، ہرگز کسی سے راستہ میں بات نہ بڑھائیں، قطعی کسی کی کوئی چیز نہ کھائیں، بالکل اپنی کوئی چیز کسی بھی اجنبی کو نہ کھلائیں کیونکہ یہ ہمدردی بھی کبھی کبھی بھاری پڑچکی ہے۔



دوران سفر آپ اپنے کام سے کام رکھیں، اپنے ساتھیوں کا خیال رکھیں، جنرل ڈبوں میں تو بالکل ہی سفر نہ کریں، سلیپر میں بھی اکیلے نہ رہیں، اے سی ڈبے ابھی محفوظ ہیں کیونکہ دنگا فساد، بدتمیزی، شور شرابہ نچلے درجے اور نچلے طبقہ کے لوگ ہی کرتے ہیں۔



آپ کو نماز کا مرحلہ بھی پیش آئے گا اگر آپ اپنی گفتگو کی مٹھاس سے اپنے قریب لوگوں کو راضی کرلیں تو نمازپڑھنے میں کوئی دقت نہیں ہوتی لیکن اگر ایسا نہ ہو تو آپ اپنی سیٹ پر ہی بیٹھے بیٹھے پڑھ لیجیے منزل پر پہنچ آپ دہرا بھی سکتے ہیں۔



کھانے پینے کے معاملہ میں بھی ہمارا طبقہ بالکل مصلحت کے خلاف کام کرتا ہے جس کا انجام غلط ہوتاہے۔ آپ سفر کے دوران ایسی چیز کھائیں جس سے کسی کو پریشانی نہ ہو، ایسی چیز بالکل نہ کھائیں جس سے دوسروں کو پریشانی ہو، پان، پڑیا، بیڑی، سگریٹ آپ نہیں پیتے لیکن دوسروں کو منع بھی نہیں کرسکتے، خود پر کنٹرول ضروری ہے۔



لوگ آپ کو چھیڑنے اور جوش دلانے کے لئے بھی کچھ ایسے سوال کرسکتے ہیں جو آپ کے مزاج کے خلاف ہیں ایسے موقع پر آپ مناظر اسلام نہ بنیں اور اگر اچھا مطالعہ اور اچھی تربیت آپ کو حاصل ہوتو انھیں تسلی بخش جواب ضرور دیجیے۔ بعض طلبہ بہت جلد جوش میں آکر لڑنے بھڑنے کامزاج بنالیتے ہیں تو صاف عرض ہے اب آپ کا کوئی کیس، کوئی دعوی، کوئی عذر سننے والا نہیں ہے آپ ایک ایسے حمام میں ہیں جہاں سب یکساں ہیں، ایسوں سے انصاف کی توقع اور شرافت کی امید فضول ہے۔ اس لئے اختلاف، انتشار اور فضول گوئی سے بچیں بھی اور اپنے ساتھیوں کو بچائیں بھی۔ ایک واقعہ سنتے چلیں میں سلیپر میں سفر کررہاتھا انڈیا پاکستان کامیچ ناگپور میں کھیلا جارہا تھا میرے ہاتھ میں کتاب تھی اور کتاب میں ہی نظریں تھیں لیکن باتیں سب کی سن رہا تھا، بعض کہتے تھے انڈیا جیتے گا بعض کہتے تھے ہارے گا۔ اچانک دو لوگوں نے میری طرف رخ کیا اورمجھ سے بولے کہ ملاجی! آپ بتائیں انڈیا جیتے گا یا پاکستان، میں نے انجان بنتے ہوئے کہا : کیا لڑائی شروع ہوگئی ہے؟ اگر لڑائی شروع ہوگئی ہے تو مان لو کہ انڈیا ہر طرح سے پاکستان سے زیادہ ہے اسلحے میں بھی، فوج میں بھی اس لئے انڈیا ہی جیتے گا۔ وہ لوگ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے اور بولے کہ اجی نہیں ہم لوگ کرکٹ کی بات کررہے ہیں۔ میں نے کہا کہ پاکستان کی ہمت ہی نہیں ہے کہ وہ انڈیا میں کھیلے کیونکہ دونوں ملکوں کے درمیان اچھی خاصی گرما گرمی چل رہی ہے؟ ایک نے کہا کہ اجی کھیل تو ناگپور میں دونوں کا چل رہا ہے۔ میں نے کہا کہ کھیل تو دوستوں کے ساتھ ہوتا ہے دشمنوں کے ساتھ نہیں، اسے آنے ہی نہیں دینا چاہیے۔ ایک صاحب نے ان صاحب کو کوستے ہوئے کہا کہ لے بھئی اب بول، ملاجی کو تو کرکٹ سے کچھ بھی لینا دینا نہیں ہے خواہ مخواہ وقت ضائع ہوا۔

ہمارے طلبہ نوجوان ہیں، ناتجربہ کار ہیں، سفر حقیقی معنی میں تجربہ گاہ ہوتاہے آپ سفر سے سیکھیے،لوگوں کو پڑھئے، حالات کو سمجھئے اور اپنی پیش آمدہ زندگی کو سنوارنے کے لئے آگے بڑھئے، سفر سفر ہے اس کو وسیلہ ظفر بنائے۔ چلنے سے پہلے اپنے ٹکٹ کا فوٹو اپنے اہل تعلق والدین کو بھیج دیجیے، اپنی آئی ڈی کی حفاظت روپے پیسے کی طرح کیجیے، ہرگز کسی اجنبی کو اپنی آئی ڈی یا ٹکٹ مت دیجیے۔ خوش رہئے اور خوشیاں بانٹئے۔سفر کی مسنون وماثور دعائیں پڑھ کر سفر شروع کیجیے، درمیان سفر بھی اپنے گھر والوں سے رابطہ رکھئے، موبائل کی بیٹری ختم نہ ہونے دیں، موبائل آف نہ کریں، بیدار مغزی کا ثبوت دیں۔ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: