✍️ محمد قمر الزماں ندوی
_________________
سماج اور سوسائٹی میں ہمیشہ ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہوتی ہے، جو منفی ذہنیت کے شکار ہوتے ہیں اور مثبت فکر کی بجائے منفی طرز فکر رکھتے ہیں ،جو ہمیشہ اپنے سامنے والے کو جو علم و فضل ،مرتبہ اور حیثیت میں ان کے برابر کے ہوتے ہیں ان کو کمزور کرنے ،نیچا دکھانے اور ان کو بیحیث کرنے میں پوری ایڑی چوٹی کا زور صرف کرتے ہیں ،اس کام میں ان کو بڑا لطف اور مزہ آتا ہے ، ایسے لوگ اپنے کو ان کے مقابلے میں نمایاں کرنے کے لئے ہر طرح کے حربے کرتے ہیں ،چال چلتے ہیں، منصوبے بناتے ہیں ،جتھے اور گروہ بناتے ہیں، اور اپنی پوری ذہانت اور صلاحیت ان ہی کاموں میں صرف کرتے ہیں ۔ آپ دینی و عصری اداروں تحریکوں تنظیموں جماعتوں اور جمعیتوں میں آئے دن اس کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں ۔ جس کی وجہ سے ادارے ، تحریکیں تنظیمیں جماعتیں اور جمعیتیں دن بدن بیحیث اور کمزور ہوتی جا رہی ہیں اور جب قابل باصلاحیت افراد کا استحصال ہوتا ہے ، تو ایک بڑی تعدادِ پھر یہاں کے ماحول سے اوب کر اور تنگ آکر اپنا میدان عمل بدل لیتی ہے۔ ایک اور بات یاد رکھیں جو لوگ اس کردار کے ہوتے ہیں وہ اپنے معاصرین ہی کو نہیں، بلکہ اپنےاساتذہ اور سنئیر ساتھیوں ، مربیوں و محسنوں کو بھی نہیں بخشتے۔
لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جو لوگ ایسی حرکتیں کرتے ہیں، انہیں بھی اس کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے، اور اکثر اپنے منصوبے میں ناکام ہو جاتے ہیں، اور ذلت کا خود سامنا کرتے ہیں، بلکہ کبھی تو کسی کو نیچا دکھانے والا اس بھی زیادہ نیچے پہنچ جاتا ہے اور اپنی ذلت و رسوائی کا سامان خود تیار کر لیتا ہے ۔ بعد میں انہیں احساس ہوتا ہے کہ کاش ! ہم ایسے منفی کاموں میں مشغول نہ ہوتے صرف اپنے کام سے کام رکھتے، اپنی ذمہ داری اور فرض منصبی سے واسطہ رکھتے،ادھر ادھر کے منفی کاموں میں نہیں لگتے ، چغلی، لگائی بجھائی اور غیبت سے بچے ہوتے ۔ بہر حال یہ حقیقت اور مشاہدہ ہے کہ کسی کو نیچا دکھانے والا انجام کار خود بھی نیچا ہو جاتا ہے ۔
ایسے لوگوں کو اس مثال اور کہانی سے سبق لینا چاہیے اور اپنی زندگی رویے اور طرز عمل میں تبدیلی لانی چاہیے ، جس کو نیچے لکھ رہے ہیں ۔
مشہور واقعہ ہے کہ ایک موقع پر ایک استاد صاحب نے کلاس میں موجود جسمانی طور پر ایک مضبوط اور صحت مند بچے کو بلایا، اسے اپنے سامنے کھڑا کیا، اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا اور اسے نیچے کی طرف دھکیلنا شروع کر دیا۔ وہ بچہ تگڑا اور توانا تھا، وہ اکڑ کر کھڑا رہا۔
استاد محترم نے اپنا پورا زور لگانا شروع کر دیا۔ وہ بچہ دبنے لگا اور بالآخر آہستہ آہستہ نیچے بیٹھتا چلا گیا۔ استاد محترم بھی اسے دبانے کے لئے نیچے ہوتےچلے گئے۔ وہ لڑکا آخر میں تقریباً گر گیا۔ استاد صاحب نے اس کے بعد اسے اٹھایا اور کلاس سے مخاطب ہوئے:
”آپ نے دیکھا مجھے اس بچے کو نیچے گرانے کے لئے کتنا زور لگانا پڑا ؟” دوسرا یہ جیسے جیسے نیچے کی طرف جا رہا تھا میں بھی اس کے ساتھ ساتھ نیچے جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ ہم دونوں زمین کی سطح تک پہنچ گئے۔“
وہ اس کے بعد رکے، لمبی سانس لی اور بولے
”یاد رکھئیے ۔۔۔!!!
ہم جب بھی زندگی میں کسی شخص کو نیچے دبانے کی کوشش کرتے ہیں، تو صرف ہمارا ہدف ہی نیچے نہیں جاتا، ہم بھی اس کے ساتھ زمین کی سطح تک آ جاتے ہیں۔ جب کہ اس کے برعکس ہم جب کسی شخص کو نیچے سے اٹھاتے ہیں تو صرف وہ شخص اوپر نہیں آتا، ہم بھی اوپر اٹھتے چلے جاتے ہیں۔ ہمارا درجہ، ہمارا مقام بھی بلند ہو جاتا ہے۔
استاد صاحب اس کے بعد رکے اور بولے؛
"باکمال انسان کبھی کسی کو نیچے نہیں گراتا، وہ ہمیشہ گرے ہوﺅں کو اٹھاتا ہے اور ان کے ساتھ ساتھ خود بھی اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے۔ اور یوں وہ بلند ہوتا رہتا ہے۔