✍️ ابو الحسین آزاد
_________________
مسلم معاشروں میں تزکیہ و تربیت کا سب سے بڑا ادارہ خانقاہ کی شکل میں تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خانقاہ اور تصوف نے پیر زادگی، گدی نشینی، مجاوری اور دکان داری کی ایسی شکل اختیار کی کہ تزکیہ و احسان کے اس منبع سے جہالت، شرک، قبر پرستی اور ہوسِ جنس و زر کے نالے اُبل پڑے۔تصوف نے ایک ایسے طوق کی شکل اختیار کر لی ”جس سے زیادہ بھاری اور سخت طوق انسان نے انسان کے لیے کبھی ایجاد نہ کیا ہوگا۔“ (تفہیمات:1/ 137)
بیسویں صدی کے مسلمان مصلحین کے سامنے سوال یہ تھا کہ کہ اصلاح کا متبادل راستا کیا ہو؟سقوط یافتہ تہذیب کے ملبے میں پڑا مسلم شعور، جسے ہر طرف سے ارتدار کے گدھ نوچنے کو تیار کھڑے تھے، اُسے واپس سوئے حرم کیسے لایا جائے؟ کچھ مصلحین نےتصوف کی اصلاح کے بعد بدستور اُسے ہی باقی رکھا، کچھ نےقرآن و حدیث سے علمی اور شعوری تعلق اُستوار کرنے کا نسخہ تجویز کیا، کچھ نے تحریکی، انقلابی اور اقامتِ دین کی جدوجہد کو حل بتایا اور کچھ کو ”تبلیغ “کی راہ سوجھی۔ سب اپنی اپنی جگہ مؤثر رہے لیکن مؤخر الذکر طریقہ سب سے زیادہ مقبول ہوا اور عددی کثرت کے اعتبار سے نتائج دینے میں بقیہ تمام طریقوں پر بازی لے گیا۔ کیوں کہ عوام کو کسی بھی معاملے میں شعوری یا نظریاتی روش پہ لانا بہت مشکل ہے، خاص طور پر مذہب کی تو نامیات ہی الگ ہیں۔مذہب نظریے سے زیادہ تجربہ ہے۔مولانا الیاسؒ نے مذہبی تجربے کو عوامی وسعت دی، مسجد کو عبادت گاہ سے بڑھا کر اقامت گاہ کیا اور چلتی پھرتی خانقاہوں کی روایت ڈال دی۔
صوفیا کے ہاں اصلاح و تربیت کا ایک مؤثر طریقہ یہ تھا کہ اپنے اندر جو خوبی پیدا کرنا چاہتے ہو دوسروں کو اُس کی دعوت دو اور اپنے اند ر سے جس برائی کو ختم کرنا چاہتے ہو دوسروں کو اُس سے بچنے کی تلقین کرو۔ مولاناؒنے اس اُصول کو ایک پوری تحریک بنادیا۔ اُنھوں نے میوات کے اُس ”نامکمل“ مسلمان کو، جسے خود کلمہ بھی نہیں آتا تھا، اٹھا کر مسجد کے صحن میں کھڑا کر دیا کہ لوگوں کو دین کی دعوت دو۔ دوسروں پر تو اس کا جو اثر ہوا سو ہوا، کم از کم اتنا نتیجہ ضرور نکلا کہ خود دعوت دینے والے کا نماز روزہ درست ہوگیا۔
اگر آپ مولانا الیاس کے ملفوظات اور خطوط کا مطالعہ کریں تو آپ کو اُس میں ایک ایسی بے قرار روح نظر آئے گی جو مسلمانوں کے غم میں گھلی جارہی ہے، ایک ایسا دل جو شدتِ کرب میں دھڑکنا بھول چکا ہے، ایک ایساسینہ جو اسرار سے بھرا ہوا ہے مگر الفاظ زبان پہ آآکر رہ جاتے ہیں : ”مولانا المحترم! کوئی اندرونی ولولہ متقاضی ہے کہ میں کچھ لکھوں اور اپنی ہیچ مدانی اور اپنی پراگندہ زبانی، کدورتِ خاطرِ اقدس کے ڈر سے کسی مضمون کے آغاز سے مانع ہے۔اگر کوئی مضمون تحریر میں آجائے اور جناب کی موزونیتِ طبع اُس میں بہتر معنی نہ ڈال سکے تو اُس کی عیب پوشی فرماویں۔“(بنام سید ابو الحسن علی ندوی)
”حضرت مولانا! دل و دماغ اور تمام قویٰ کچھ ایسے ہارے تھکے ہوئے اور ضعیف ہو رہے ہیں کہ کسی مضمون کے لکھنے کی ہمت و تاب نہیں ہوتی اور دراصل یہ تبلیغ کی نوع اور یہ جہت کچھ ایسی ہے کہ اس طرف کو توجہ کرنا ہی مجھ ضعیف کے لیے تھکان کا باعث ہو جاتا ہے کیوں کہ اس لائن میں یہ صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ اصل مضمون جو قابلِ بیان ہے اس اصل مضمون کے مقابلہ میں ہر وہ عبارت کہ اس کی تعبیر کے لیے طبیعت مضمون تجویز کر تی ہے، وہ ایک آزاد اور ایک وسیع چیز کو اور ایک نورِ مطلق کو پابند کردینا نظر آتا ہے، جو اس کی شان کے ساتھ کچھ بھی مناسبت رکھتا نظر نہیں آتا۔“(بنام ندوی)
ایک خط میں مولانا لکھتے ہیں کہ اصل میں اُن کے پیشِ نظر یہ ہے کہ مسلمانوں کا ظاہر اور باطن دین کے ساتھ جڑ جائے۔ ظاہر کو جوڑنے کا طریقہ یہ ہے کہ مسلمان اجتماعی طور پر دین کے متعلق بات کریں، مسلمان ایک دوسرے کے پاس جائیں اور دین کو ڈسکس کریں۔ دین اُن کی زندگی میں ایک اہم موضوعِ گفت گو بن جائے اور باطن کے دین سے جڑنے کی راہ یہ ہے کہ اعمال کو ایمان اور احتساب کے ساتھ ادا کرنے کی تربیت حاصل کی جائے۔ یہ وہ مقاصد تھے جن کے حصول کے لیے مولانا نے تبلیغ کا سانچہ تجویز کیا۔ مولانا کا یہ اسلوب بہت ہی تخلیقی اور مؤثر تھا اور اسے غیر معمولی پذیرائی ملی۔ لیکن مولانا مقاصد اور وسائل کے فرق کو بخوبی جانتے تھے، انھیں منزل اور راستے کی مکمل تمیز تھی۔ وہ جانتے تھے کہ مقاصد اصل ہوتے ہیں اور وسائل و ذرائع کو موقع کی مناسبت سے تبدیل بھی کیا جاسکتا ہے:
”طریقت کی خاص غایت ہے اللہ تعالی کے احکام و اوامر کا مرغوبِ طبعی اور نواہی کا مکروہِ طبعی ہو جانا، یہ تو ہے طریقت کی غایت، باقی جو کچھ ہے (یعنی اذکار و اشغال اور مخصوص قسم کی ریاضات) سو وہ اس کی تحصیل کے ذرائع ہیں لیکن اب بہت سے لوگ ان ذرائع ہی کو اصل طریق سمجھنے لگے ہیں۔۔۔بہرحال چوں کہ ان چیزوں کی حیثیت صرف ذرائع کی ہے اور یہ بذاتِ خود مقصود نہیں ہیں، اس لیے احوال و مقتضیات کے اختلاف کے ساتھ ان پر نظر ثانی اور حسبِ مصلحت ترمیم و تبدیل ضروری ہے۔۔۔“ (ملفوظات)
مولانا کے بعد مولانا یوسف کی مساعی سے تبلیغ کا کام عالمی مقبولیت حاصل کرگیا۔ دیگر تمام جماعتوں کے برعکس تبلیغی جماعت کا یہ امتیاز ہے کہ اس میں شخصیت پرستی ادنی برابر بھی نہیں پنپ سکی۔ آپ کو تبلیغی بیانات میں شاذ و نادر ہی بانیانِ جماعت اور اکابرِ تبلیغ کا تذکرہ ملے گا۔
لاکھوں افراد پر مشتمل ایک جماعت جس میں معاشرے کے ہر طبقے سے لوگ شامل ہیں، اس میں ہر طرح کی کمی بیشی اور اونچ نیچ ہو سکتی ہےلیکن اس کے باوجود کچھ فنی اور نظری نوعیت کے ایسے نکتے ہیں جو بہت زیادہ قابلِ توجہ ہیں۔ اصل مقصود کسی انسان کی اپنی اصلاح تھی لیکن بہر حال تبلیغ میں شامل ہونے والا انسان اب باضابطہ طور پر دین کا مبلغ، داعی اور معلم بن گیا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دین کی دعوت محض ایمانی کیفیات اور عملی عبادات کی اساس پر کامیاب انداز میں دی جاسکتی ہے؟ کیا واقعی یہ مناسب ہوگا کہ دین کے داعی نے زندگی میں ایک مرتبہ بھی قرآن کو سمجھ کر نہ پڑھا ہو،اسے سیرتِ رسولؐ سے شعوری آگاہی نہ ہو، مقاصدِ شریعت سے نا آشنا ہو، منزل اور راستے کی تمیز سے عاری ہو، مقاصد اور ذرائع کے فرق سے بے خبر ہواورتاریخِ اسلام کی مبادیات سے ناواقف ہو؟
ایک لاعلم شخص جسے زندگی کے کسی موڑ پر ایک جماعت نے مذہبی تجربے کی لذت سے آشنا کیا ہو اور پھر وہ زندگی بھر اسی تحریک سے جڑ کر رہ گیا ہو واضح سی بات ہے اُس کے لیے دین کی حتمی تصویر چھ نمبر اور ”فضائلِ اعمال“ ہی میں محصور ہو گی۔ انسان اپنے زمان و مکان سے باہر نہیں نکل سکتا، شعور گرد و پیش ہی سے علم حاصل کرتا ہے اور انسان وہی سوچتا ہے جو وہ دیکھتا اور سنتا ہے۔ تبلیغی جماعت والے ”ساتھی“ کے لیے اِس حقیقت کو سمجھنا بہت ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے کہ مدرسے یاخانقاہ میں بیٹھا ہوا،امامت و خطابت کو سنبھالنے والا، تصنیف و تالیف میں مشغول شخص یا کسی تحریک سے وابستہ انسان بھی ”دین کا کام“ کر رہا ہے۔ تبلیغ کا پہیا جسے ایک مرتبہ بہت شدت کے ساتھ گھما دیا گیا ہے اور اب وہ اپنے ہی زور میں گھومتا ہی گھومتا چلا جارہا ہے اُس پہ چکر کھانے والا انسان کچھ اور کیسے دیکھے گا؟
اس کا ایک حل یہ تجویز کیا گیا کہ علماء بکثرت تبلیغ میں جائیں تاکہ رویوں میں اعتدال آئے اور دوریاں کم ہوں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سال والے اور غیر سال والے علماء کی دو کیٹگریاں بن گئیں۔ اب مدرسوں میں پڑھانے جائیں تو سال کا مطالبہ ہے، مسجدوں میں امامت کو جائیں تو پہلا سوال: ”مولانا سال لگا ہے؟“ مولانا بے چارے یہ بھی نہیں کہہ سکتے بھائی آٹھ سال تو لگے ہیں اب اور کتنے سال لگاؤں؟ الغرض اس دوا نے درد کو مزید بڑھایا ہے کم تو ہرگز نہیں کیا۔
بہر حال آپ نے یہ لمبی اور بے ربط تحریر پڑھی، آپ کا شکریہ لیکن سچی بات یہ ہے کہ میرے پاس مسئلہ تو ہے مسئلے کا حل نہیں ہے۔ بس اہلِ رائیونڈ سے یہی گزارش ہے کہ اللہ تعالی نے میری، آپ کی اور دنیا کے سارے انسانوں کی کامیابی اپنے دین میں رکھی ہے اور یہ دین ہماری زندگیوں میں کیسے آئے گا اُس کے لیے محنت کی ضرورت ہے اور یہ محنت کسی بھی شکل میں، کسی بھی طریقے اور کسی بھی نہج پر کی جائے مبارک، قابلِ ستائش اور پسند کیے جانے کے لائق ہے۔سب کے سروں پر ایک ہی سائز کی ٹوپی فٹ نہیں آسکتی۔