ڈاکٹر جمیل احمد خان

ایرانی صدر کی شہادت اور خطے میں بڑھتی ہوئ تشویش

✍️ ڈاکٹر جمیل احمد خان

_____________________

ایرانی صدر ابراہیم رئیسی 19 مئی کے روز ہیلی کاپٹر حادثے میں ایرانی وزیر خارجہ اور دیگر حکام کے ہمراہ جاں بحق ہوگئے جس پر پاکستان سمیت دنیا بھر سے اظہارِ افسوس جاری ہے تاہم یہاں ہمیں خطے کی صورتحال کا مزید غور و خوض سے جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ جس پر سب سے پہلا سوال یہ بنتا ہے کہ کیا یہ حادثاتی موت تھی یا قتل؟ تاہم اس کے متعلق سر دست کچھ بھی کہنا مناسب نہیں ہوگا، جب تک کہ اس حادثے کی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ سامنے نہیں آجاتی۔

سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ ایک افسوسناک واقعہ ہے، ایران سمیت کسی بھی مسلمان قوم کے سربراہِ مملکت کی دنیا سے ایسے حالات میں رخصتی کسی بھی قوم کیلئے صدمۂ جانکاہ سے کم نہیں اور پاکستانی قوم بھی اپنے ایرانی بھائیوں کے ہمراہ دکھ کی اس گھڑی میں ان کے غم میں برابر کی شریک ہے۔ سوشل میڈیا سمیت دیگر پلیٹ فارمز پر عوام کی بڑی تعداد نے صدر ابراہیم رئیسی کی وفات کو ایران کیلئے بڑا صدمہ قرار دیا اور حادثے کی تحقیقات کا بھی کھل کر مطالبہ کیا گیا۔

تشویشناک بات یہ ہے کہ عموماً ایسے حادثات سے قبل ڈسٹریس سگنل دیا جاتا ہے لیکن ہیلی کاپٹر کی ہارڈ لینڈنگ سے قبل جو ڈسٹریس سگنل دیا جاتا ہے، وہ نہیں دیا گیا اور 14 گھنٹے بعد ہیلی کاپٹر کا ملبہ ملا اور جس قسم کی اطلاعات ایرانی صدر کی وفات سے قبل سامنے آرہی تھیں، اس سے اندازہ ہوگیا تھا کہ حادثے میں کسی بھی شخص کے بچ جانے کے امکانات صفر کے لگ بھگ ہیں۔ حادثے کی جگہ اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب سے صرف 1000 کلومیٹر کے فاصلے پر تھی۔

صدر ابراہیم رئیسی کا پاکستان کا دورہ بھی تاریخی اہمیت کا حامل تھا جس پر بعض ممالک خوش نہیں تھے ، جنہیں ایران کا مضبوط ترین اور سپریم لیڈر کے قریب ترین لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ اگر اس کے پس منظر میں دیکھیں تو ایران کے اندر اسٹیبلشمنٹ کے اندر بھی تضادات اور اختلافات موجود ہیں اور صدر ابراہیم رئیسی کی وفات کے بعد نیا صدر تلاش کرنا جس کیلئے نگران صدر کو ایرانی آئین کے تحت 50 دن کا وقت دیا گیا ہے، ایک بے حد مشکل اور دقت طلب کام ہے۔

قانون کے مطابق نائب صدر نے صدر کے عہدے کا چارج سنبھال لیا۔ سعودی عرب، کویت، قطر، روس اور چین نے ایرانی صدر کے انتقال پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ہیلی کاپٹر حادثے کے دوران ریسکیو کارروائیوں کیلئے اپنا تعاون پیش کیا اور چین نے تو واقعے کی تحقیقات میں بھی تعاون کا اعلان کیا ہے اور ابتدائی تحقیقات میں چونکہ ہیلی کاپٹر سے ڈسٹریس سگنل جنریٹ نہیں ہوئے جو عموماً ہوتے ہیں، اس لیے خطے کی صورتحال ایک نئی کروٹ لیتی دکھائی دیتی ہے۔

آج سے 4سال قبل 2020 میں ایران کے نیو کلیئر پروگرام ہیڈ محسن فخری زادہ کو بھی قتل کردیا گیا تھا جبکہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی بھی نیو کلیئر معاملات میں پیش پیش تھے اور چاہتے تھے کہ نیو کلیئر ڈیل میں سب کچھ ایرانی مفادات کے مطابق ہو جس کیلئے انہیں ایران کی جانب سے مکمل سپورٹ اور تعاون کے ساتھ ساتھ اثر و رسوخ بھی حاصل تھا کیونکہ صدر ڈاکٹر ابراہیم رئیسی کو ایرانی سپریم لیڈر کی پشت پناہی اور حمایت حاصل تھی۔

جیسا کہ سوشل میڈیا صارفین اور تجزیہ کار پہلے ہی صدر ابراہیم رئیسی کی موت کے پیچھے قتل کے محرکات تلاش کر رہے ہیں تو ہمارے لیے پریشان کن امر یہ ہے کہ اگر صدر ابراہیم رئیسی کے حادثاتی انتقال کے پیچھے کسی بیرونی طاقت کا ہاتھ ہوا یعنی وہ حادثاتی شہادت قتل نکلی تو خطے کی صورتحال پر کتنے سنگین اثرات رونما ہوسکتے ہیں، جیسا کہ ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی شہادت کے بعد سامنے آنے والے امریکا کے اعتراف کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے تھے۔

ضرورت اس بات کی تھی کہ جب ایرانی صدر کے ہیلی کاپٹر حادثے کی خبر سامنے آئی ، پاکستان اس وقت اپنی ریسکیو ٹیم وہاں بھیج دیتا اور ہم ایرانی حکومت کی مدد کرتے تاکہ ایران کے عوام جو اس وقت رو رو کر صدر ابراہیم رئیسی کی زندگی کی دعائیں مانگ رہے تھے، ان کے دلوں میں پاکستان کیلئےمزید جگہ بنا لی جاتی جو خطے کی صورتحال اور صدر ابراہیم رئیسی کے انتقال سے پیدا ہونے والی صورتحال کی کشیدگی کو کم کرنے میں معاون ثابت ہوسکتی تھی۔

صدر ابراہیم رئیسی کا انتقال ، جیسا کہ پہلے کہا گیا کہ پاکستان سمیت خطے کے تمام ممالک کیلئے ایک لمحۂ فکریہ ہے کہ مستقبل میں کسی بھی سربراہِ مملکت کی کسی خوفناک حادثاتی موت سے بچنے کیلئے اٹھائے جانے والے حفاظتی اقدامات کو بہتر سے بہتر کیا جائے تاکہ پاکستان اور ایران سمیت ہمارے ہمسایہ ممالک کو خطے میں عالمی طاقتوں کی بڑھتی ہوئی دلچسپی سے مفادات کے ٹکراؤ کے باعث پیدا ہونے والی ممکنہ باہمی چپقلش، محاذ آرائی اور تصادم کا لقمہ بننے سے بچایا جاسکے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: