بے روح جلسے
✍️ مفتی ناصرالدین مظاہری
___________________
معاشرہ کی اصلاح میں ہر تحریک لائق تعریف ہوتی ہے، چاہے تصنیفی لائن سے ہو، تدریسی میدان سے ہو، منبرومحراب کے ذریعہ ہو، وعظ ونصیحت اور اجتماعی یا انفرادی کوششوں سے ہو، جلسوں، سیمیناروں، کارنر میٹنگوں اور گھر گھر جاکر افہام وتفہیم سے ہو ہر کوشش لائق تحسین اور ہر قدم قابل آفرین ہوتاہے لیکن افراط اور تفریط کسی بھی مخلصانہ تحریک کو سبو راز کردیتی ہے، مثلا گشت کو ہی لے لیجیے اور ہر نماز میں گشت شروع کردیں تو لوگ دروازہ ہی نہیں کھولیں گے، مثلا وعظ وتقریر ہی ہے ہر نماز سے پہلے یا بعد اگر شروع ہوجائیں گے تو لوگ مسجدیں بدلنے پر مجبور ہوجائیں گے، مثلا راہ چلتے روک ٹوک کی آپ کی عادت ایک وقت وہ لائے گی کہ لوگ راستہ بدلنا شروع کردیں گے، مثلا جلسہ اور تقریری پروگرام ہی کو لے لیجیے اگر بار بار جلسے، ہر چوک چوراہے پر جلسے، ہر جمعہ یا جمعرات کو جلسے، ہر محلہ اور ٹولہ میں جلسے شروع ہوگئے تو رہے سہے نمازی غائب ہوجائیں گے۔
مجھے یاد ہے ایک مسجد میں نماز فجر کے بعد چند منٹ کے لئے فضائل اعمال پڑھی جاتی تھی، امام بدل گیا، تو نئے امام نے فضائل اعمال کے ساتھ منتخب احادیث بھی پڑھنی شروع کردی، اسی پر اکتفا نہیں کیا، منتخب احادیث سے کئی کئی جگہوں سے ایک ہی نشست میں پڑھنے لگا نتیجہ یہ ہوا کہ پہلے لوگ نوے پچانوے فیصد رکتے تھے، اب نوے پچانوے فیصد لوگ دعا کے بعد چلے جاتے ہیں، یہاں افراط نے یہ حالت پیدا کی، ورنہ لوگ تو کتاب سنتے ہی تھے۔
دینی جلسوں میں جو مقرر سب سے اچھا ہوتا ہے اسے اس وقت اسٹیج پر لایا اور بلایا جاتا ہے جب مجمع نیند کی آغوش میں جانے کے لئے تیار ہو چکا ہوتا ہے، آنکھیں نیند کے بوجھ سے بوجھل ہوچکی ہوتی ہیں، بچے مجمع میں دراز ہوچکے ہوتے ہیں، اسٹیج سے” فالتو” لوگ ایک ایک کرکے جاچکے ہوتے ہیں، عورتیں اپنے بچوں کو لے کر گھر جاچکی ہوتی ہیں، منتظمین بناوٹی مستعدی کا مظاہرہ کررہے ہوتے ہیں اور ناظم اجلاس اپنی فیس کے چکر میں بادل ناخواستہ شیریں بیانی و شیریں مقالی سے مجمع کو بیدار رکھنے کی آخری کوششیں کر رہا ہوتا ہے۔
اور اب انٹری ہوتی ہے کسی شیخ طریقت کی، کسی ماہر شریعت کی، کسی بزرگ اور عارف ربانی کی، جو خود معذور ہیں، آرام کی عمر اور آرام کا وقت ہے، ڈاکٹروں کی طرف سے کچھ بولنے کی ممانعت اور زیادہ نیند لینے کی ہدایت ہے، آپ سوچیں اب ان بزرگ کی وعظ ونصیحت کس پر اثر انداز ہوگی، کون ان کی تقریر سنے گا، کس کو فرصت ہے کہ نیند سے جاگے اور آگے آئے۔
جب اصلاح معاشرہ کا یہ جلسہ ختم ہوتا ہے تو قانوناً تین گھنٹے زیادہ ہوچکے ہوتے ہیں، نماز فجرمیں لوگوں کی حاضری کا تناسب نصف سے بھی کم ہوجاتاہے، کئی ہزار بلکہ لاکھوں روہے اصلاح معاشرہ کی خاطر لگانے کا پہلا صلہ تو یہی ملاکہ پہلی ہی نماز میں نمازی کم ہوگئے دوسرا صلہ یہ ملا کہ "مدار یوں "نے اچھی خاصی رقمیں اینٹھ لیں، تیسرا نقصان یہ ہوا کہ ٹینٹ، باورچی اور دیگر اخراجات سو فیصد ادا نہیں کئے گئے، چوتھا رزلٹ یہ بھی ہے کہ مردوں کے درمیان سجی سنہری بے پردہ خواتین اور لڑکیاں پہنچ گئیں، بہت سے مردوں نے ” اصلاح معاشرہ "کے جلسہ کو اپنی بدنظری سے خراب کیا، بہت سی خواتین اپنی بے پردگی سے خود بھی گنہ گار ہوئیں اور بہت سوں کو گناہگار کیا، بہت سے واقعات تو ایسے مواقع پر فرار کے بھی ہوچکے ہیں۔
خدارا! اصلاحی جلسوں میں یا تو سدھار لائیں ورنہ مخلوط اور بے پردگی کے ان اجتماعات سے بہتر ہے کہ پروگرام ہی منعقد نہ کریں۔ اپنی خواتین کو رات کے جلسوں میں گھر سے باہر نہ بھیجیں زیادہ شوق ہوتو ایک اسپیکر یا موبائل سے مربوط کرکے گھر بیٹھ کر پروگرام سن لیں۔ کسی بھی نیک کام کرنے کے لئے گناہ کرنے کی اجازت شریعت نے ہرگز نہیں دی ہے، گناہ سے بچئے، گناہوں کے پھیلنے کا ذریعہ مت بنئے۔