✍️ سید احمد اُنیس ندوی
_______________
خود اعتمادی ایک بڑی نعمت ہے۔ اور احساس کمتری و مرعوبیت ایک نفسیاتی مرض ہے۔ اگر کوئی طالب علم غیر ضروری پابندیوں اور سختی کی وجہ سے احساس کمتری میں مبتلا ہوتا ہے تو یہ نظام تعلیم و تربیت کا بڑا نقص ہے۔ عاقل، بالغ اور با شعور طلبہ کے ساتھ وہ سختیاں برتنا جو چھوٹے بچوں کے ساتھ برتی جاتی ہیں، ہرگز مناسب نہیں اور اس سے طلبہ پر بہت ہی منفی اثر پڑتا ہے۔ ایسی سختیوں سے اُن کے اندر جھوٹ، فریب اور ادارے و اساتذہ سے بد ظنی جیسی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں۔ نفسیاتی طور پر وہ خود کو بہت ہی مجبور سمجھتے ہیں، اور اس کیفیت کے ساتھ نہ تو ان کے اندر حریت فکر باقی رہتی ہے اور نہ وہ اپنے اندر خود اعتمادی محسوس کرتے ہیں۔ حیرت انگیز بات ہے کہ ایسی سختیوں کو لوگ باعث فخر سمجھتے ہیں۔ عصری اداروں میں اساتذہ و ذمہ داران کو تربیت دینے کا جو نصاب ہے (B.Ed, M.Ed.) اُس میں ان پہلؤوں پر بڑی توجہ دی جاتی ہے۔
ہم جس معاشرے میں زندگی گزار رہے ہیں، شرعی حدود میں رہتے ہوئے اس معاشرے کی بلند سطح تک خود بھی پہنچنا اور اپنے طلبہ کو وہاں تک پہنچانے کی فکر کرنا ادارے کی انتظامیہ کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہیے، یہ دور حاضر کی شدید ضرورت ہے۔ کام بھلے ہی بہت زیادہ نہ ہو, لیکن جو بھی کام ہو وہ معیاری ہو۔ عمل میں "کمیت” کے بجائے "کیفیت” کو اور "کثرت” کے بجائے "حسن” کو ترجیح دی جائے۔ طلبہ کے رکھ رکھاؤ، رہن سہن اور ان کے حلیے و لباس کے سلسلے میں اس پہلو کو نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ ان کو ایسا بنا رہنے دینا کہ وہ معاشرے میں بد تہذیب کہلائیں یا وہ خود احساس کمتری اور مرعوبیت کا شکار ہو جائیں، یہ ہمارے لیے نہایت افسوس کا مقام ہے۔
کرتا، پاجامہ، ٹوپی اور رومال کو بھی شرعی اور غیر شرعی خانوں میں تقسیم کرنے کی بیماری بھی بڑی عجیب ہے۔ اب تو حال یہ ہے کہ پاجامہ اور ٹوپی سے مسلک و منہج کی تحدید کی جاتی ہے، اور بعض ایسی پابندیاں مسلط کی جاتی ہیں جن کا تعلیم و تربیت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، محض تحزب اور گروہ بندی کی نفسیات پروان چڑھتی ہیں۔ جب ابھی سے طلبہ کو ایسی غیر ضروری پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو نفسیاتی طور پر وہ نہ صرف یہ کہ احساس کمتری میں مبتلا ہوتے ہیں، خود اعتمادی کھو بیٹھتے ہیں بلکہ ان کی تعلیم و تبلیغ سے بھی افادہ عام نہیں ہو پاتا۔
اس لیے غیر ضروری پابندیوں کے بجائے نظام تعلیم و تربیت کو اس طرح پیش کرنا چاہیے کہ طلبہ پر اپنے مطالعے اور مذاکرے کا بوجھ پڑے، خارجی مطالعے کی عادت پڑے، اور نفسیاتی طور پر ان کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو۔ وہ معاشرے کے بلند ترین لوگوں سے آنکھیں ملا کر بات کرنے کی صلاحیت سے آراستہ ہوں۔