۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام
۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس اور تعطیلِ عام

۱۲ ربیع الاول، یوم میلاد، جلوس، اور تعطیلِ عام از ـ محمود احمد خاں دریابادی _________________ ہندوستان جمہوری ملک ہے، یہاں مختلف مذاہب کے لوگ بستے ہیں، ہر مذہب کے بڑے تہواروں اور مذہب کے سربراہوں کے یوم پیدائش پر مرکز اور ریاستوں میں عمومی تعطیل ہوتی ہے ـ ۱۲ ربیع الاول کو چونکہ پیغمبر […]

ناصرالدین مظاہری

درد بے چارہ پریشاں ہے کہاں سے اٹھے

✍️ناصرالدین مظاہری

_______________

دیوبند، گنگوہ، کاندھلہ، انبہٹہ، نکوڑ، بہٹ، تھانہ بھون، بڈھانہ، چرتھاول، پھلت، سہارنپور یہ وہ مواضعات اور بستیاں ہیں جہاں پہلے سے ہی مرکزی تربیت گاہیں، خانقاہیں، تعلیم گاہیں اور مدرسے موجود ہیں، لیکن آپ ان جگہوں کے عام مسلمانوں کے درمیان جاکر سروے کر لیجیے، مسلمانوں کی دینی اور تعلیمی حالت کا جائزہ لے لیجیے، مساجد میں مسلمانوں کا تناسب دیکھ لیجیے، اور آگے بڑھ کر مولویوں کی شادیوں میں شرکت کر لیجیے، آپ کا دماغ روشن ہوجائے گا، جب آپ ایسی ایسی رسمیں دیکھیں گے جن کا تذکرہ اصلاح الرسوم میں بھی نہیں ملے گا، ایسی ایسی خرافات سے آپ کا واسطہ پڑے گا کہ آپ سر اٹھانے کی جرأت نہ کرسکیں گے، وہ مقرر شعلہ بیان جس نے اپنے گلے کو رسوم کے خلاف چیخ چیخ کر خشک کرلیا تھا وہی ان رسومات کی ادائیگی میں پیش پیش نظر آئے گا، وہ فارغ جس نے جہیز نہ لینے کی قسمیں کھائی تھیں وہ اپنی جہیز کی موٹر سائیکل پر "ھذا من فضل ربی” کا اسٹیکر لگائے دندنا نظر آئے گا، وہ مصلح امت جس کی اصلاح سے ایک دنیا فیض پارہی ہے اسی کے گھر شادیوں میں منڈھا کی رسم ملے گی، نیوتہ کی رسم ملے گی، کارڈ کی رسم ملے گی، نکاح سے پہلے و بعد کی اتنی رسمیں ملیں گی کہ آپ بیٹھے بٹھائے اصلاح الرسوم جلد دوم لکھ سکتے ہیں۔ جب آپ نکیر کریں گے تو شیطانی تاویلات شروع کردیں گے، دوسروں کے سر ٹھیکرا پھوڑ دیں گے، ناپسندیدگی کے باوجود مجرمانہ خاموشی اختیار کرلیں گے، برادری واد میں جکڑی اور نت نئی خرافات میں اکڑی اس قوم کو نہ کتابیں فائدہ پہنچا رہی ہیں نہ تقریریں سودمند ہورہی ہیں، نہ اصلاح معاشرہ کی تحریک کچھ اثر دکھا رہی ہے نہ قوم اور عوام ہماری باتوں پر کوئی عملی اقدامات پر آمادہ و کمربستہ ہے، کیونکہ ہم تاریخ کے وہ منافق ہیں جس کے قول وعمل میں تضادات کی طویل فہرست ہے، ہم شیطان کے آدھے ادھورے کاموں کی تکمیل کے لئے اپنا دھن دولت قربان کرنے پراتاؤلے بلکہ باؤلے ہوئے جارہے ہیں، کہیں اپنے نفس کے ہاتھوں خوار ہیں، کہیں اپنی عورتوں کے آگے لاچار ہیں کہیں برادری کی رسومات سے مجبور ہیں کہیں ناک کٹنے کا خطرہ ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کا جنازہ ہمارے ہاتھوں سے اٹھ رہاہے اور قصور وار کسی اور کو گردانتے ہیں، فتنے ہماری ذات سے اٹھتے ہیں اور ہماری ذات میں گم ہوجاتے ہیں پھر بھی ہم شیطان کی مانتے ہیں کہ ہم مفتی وقت ہیں، مصلح قوم ہیں، ہادی ورہبرہیں، قوم کے کھیون ہار اور کشتی اسلام کے ناخدا ہیں۔

ہماری اس دورنگی پرہمارا نفس ہمیں ملامت کرتا ہے، ہماری اس غفلت پر ہمارا ضمیر ہمیں لعن طعن کرتا ہے مگر ہم وقت کے چکنے گھڑے ہیں جس پر کوئی چیز اثر انداز نہیں ہورہی ہے پھر بھی قصور وار قوم ہے، عوام ہے، پبلک ہے کیونکہ ہم "دودھ کے دھلے ہیں” معصوم عن الخطا ہیں۔
لاحول ولا قوۃ الا باللہ

(29/شوال المکرم 1445ھ)

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: