✍️ محمد قمر الزماں ندوی
استاد /مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ
_____________________
دوستو،بزرگو اور بھائیو !
قربانی کا لفظ جیسے ہی ذھن میں آتا ہے، ایک خاص عبادت کا خیال اور تصور ذہن میں گردش کرنے لگتا ہے، جو عید الاضحی کے موقع پر انجام دی جاتی ہے ۔
*قربانی* اسلام کی دیگر اہم عبادات کی طرح ایک مہتم بالشان عبادت ہے ، جو دراصل حضرت ابراہیم خلیل اللہ کی یاد گار اور ملت اسلامیہ کا اہم شعار ہے ۔ قربانی کا اجر و ثواب بے حد و حساب ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ : قربانی کے دنوں میں قربانی سے زیادہ کوئی چیز اللہ تعالی کو پسند نہیں، ان دنوں میں یہ نیک کام سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے ،اور قربانی کرتے وقت خون کا جو قطرہ زمین پر گرتا ہے، تو زمین تک پہنچنے سے پہلے ہی اللہ کے پاس مقبول ہو جاتا ہے، تو خوب خوشی اور دل کھول کر قربانی کیا کرو ۔
ایک موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کہ قربانی کے جانور کے بدن پر جتنے بال ہوتے ہیں، ہر بال کے بدلہ میں ایک نیکی لکھی جاتی ہے ۔
قربانی کے جانور کے سلسلہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اگر چہ اس حدیث کو محدثین نے ضعیف قرار دیا ہے لیکن ضعیف حدیث کو فضائل کے باب میں بیان کرنے کی گنجائش ہے) *سمنوا ضحایاکم فانھا مطایاکم یوم الصراط* قربانی کے جانور کو موٹا اور فربہ رکھو کہ یہ پل صراط کے دن تمہاری سواری کے کام آئیں گے ۔
جس طرح قربانی کا اجر وثواب بہت زیادہ ہے، اسی طرح اس سنت براہیمی اور شعار خلیلی کے چھوڑنے پر وعید بھی بہت سخت ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ : *من لہ سعة ولم یضح فلا یقربن مصلانا* جو شخص وسعت کے باوجود قربانی نہ کرے وہ ہرگز ہرگز میرے مصلیٰ اور عید گاہ کے قریب نہ پھٹکے ۔ اس حدیث کے الفاظ و انداز، تعبیر اور زجر و توبیخ سے صاف پتہ ہے کہ یہ عمل سنت موکدہ سے بڑھ کر واجب ہے، امام ابو حنیفہ رح کے نزدیک، اسی طرح بعض دیگر ائمہ اربعہ کے نزدیک قربانی واجب ہے، احناف میں صاحبین کے نزدیک اور بعض دیگر فقہی مسالک میں اس کی حیثیت سنت موکدہ کی ہے،۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تک مدینہ منورہ میں رہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر سال قربانی کی، اسی طرح تمام صاحب حیثیت صحابہ اس عمل کو پابندی سے انجام دیتے رہے، آخری سال تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سو 💯 کے قریب اونٹ کی قربانی کی، اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصیت فرمائی کہ میرے انتقال کے بعد بھی، ہر سال اس موقع پر میری طرف سے قربانی کا اہتمام کرنا، چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس وصیت پر ہمیشہ عمل فرمایا اور آپ کی طرف سے قربانی کرتے رہے۔ آج بھی بہت سے لوگ قربانی کو سنت قرار دینے پر مصر رہتے ہیں، اور بعض لوگ تو قربانی کے وقت کو پورے ذی الحجہ جائز قرار دیتے ہیں، ایسے لوگ در اصل امت کے اندر اضطراب اور بے چینی پیدا کرنا چاہتے ہیں، کل حکومت کہنے لگی گی کہ قربانی تو سنت ہی ہے اور اس پر عمل ضروری نہیں ہے، اس لیے مسلمان قربانی نہ کریں، اس پیسے کو سماجی کاموں میں لگا دیں۔ اس لیے ایسے علماء کی فروعات اور تفردات پر بالکل نظر نہ کریں، جمہور اور سلف کے موقف پر قائم رہیں۔
غالبا حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما یا حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کسی صحابی نے سوال و استفسار کیا کہ کیا قربانی واجب ہے؟ انہوں جواب دیا، حضور ﷺ قربانی کے دنوں میں قربانی کرتے تھے، انہوں نے پھر سوال کیا، تو پھر یہی جواب دیا کہ ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ حضور ﷺ قربانی کے دن اہتمام سے قربانی فرماتے تھے ۔۔۔
اب سوال یہ ہے کہ اللہ تعالی کو یہ عبادت اس قدر کیوں پسند ہے ؟ اور وسعت رکھنے کے باوجود قربانی نہ کرنے والے کے لئے اس قدر سخت وعید زبان رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے کیوں وارد ہے ؟
واقعہ یہ ہے کہ اللہ تعالی کو اپنے بندے کی جانب سے قربانی بہت پسند ہے ۔ اس لئے کہ اللہ تعالی اپنے بندوں کو اس قربانی کے ذریعہ اپنی بندگی کی طرف متوجہ ہونے اور خدائے واحد کے علاوہ دنیا کے تمام مصنوعی معبودوں سے منہ موڑنے کا پیغام دینا چاہتا ہے ۔ قرآن مجید نے اس جانب یوں اشارہ کیا ہے اور اس عقدہ کو اس طرح حل کیا ہے ۔ لن ینال اللہ لحومھا ولا دماءھا و لکن یناله التقویٰ منكم ( حج ۳۷)
اللہ تعالی کو نہیں پہنچتا ان کا گوشت اور نہ ان کا لہو لہکن اس کو پہنچتا ہے تمہارے دل کا ادب ۔
اس آیت کریمہ کی تشریح میں علماء نے لکھا کہ ۔
*قربانی* کا اصل مقصود اللہ تعالی کا خوف و خشیت دل میں جاگزیں ہونا اور ہر معاملہ میں شریعت اسلامی اور دین حنیف کا تابع فرمان بن جانا ہے ۔ یہ قربانی ہمیں اسی جانب متوجہ کرتی ہے کہ جس طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اپنے آقا کے حکم پر لاڈلے لخت جگر اور پیارے نور نظر کو قربان کرنے کا تہیہ کرکے واقعی اپنی بندگی اور خلوص وللہیت کا ثبوت دیا ۔ اسی طرح ہر انسان کو اپنی ۰۰ انا۰۰ (میں اور میں کی رٹ) ارشاد الہی اور احکام ربانی کے سامنے فنا کر دینی چاہیے ۔ بلا شبہ یہ عمل اور انسان کی یہ ادا انسانیت کی معراج ہے اور عبدیت کا سب سے زبردست مظہر اور دلیل ہے ۔ ۔ شعار براہیمی اور سنت خلیلی کی ادائیگی کا یہ دن یعنی قربانی کا دن ہر سال ہمیں چیخ چیخ کر متنبہ کرتا ہے کہ انسان اس وقت تک قربت خداوندی اور تقرب الہی حاصل نہیں کرسکتا ،جب تک کہ وہ زندگی کے ہر ہر لمحہ میں قربانی دینے والا نہ بن جائے ۔ ایثار و قربانی اور ترجیح کا جذبہ اس کے سینہ میں موجزن نہ ہو جائے ۔ ذاتی مفادات کو ملی مفادات کے لئے قربان کر دینے کی عادت اور طبعیت نہ بن جائے ۔ قربانی صرف جانوروں کو ذبح کرکے خون بہا دینے کا نام نہیں ہے( یہ سال کے بارہ مہینہ بھی ہم کرتے ہیں ) بلکہ قربانی در اصل عنوان اور تمہید ہے حکم خداوندی کے سامنے خواہشات نفس کو مٹا دینے اور ملیا میٹ کر دینے کا ۔ اور یہ کام صرف ذی الحجہ کے تین دن کا ہی نہیں ہے یہ تین دن تو تربیت اور ٹرینیگ کے ہیں بلکہ سال کے تین سو پینسٹھ دن کرنے کا ہے ۔ قربانی کی یہ عبادت ہم سے مطالبہ کرتی ہے کہ ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کی اس سنت سے سبق حاصل کریں اور قربانی کے پیغام کو سمجھیں اور اس کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیں ۔ آج زندگی کے ہر موڑ پر اسلام ہم سے قربانی کا مطالبہ کر رہا ہے ۔ آئیے ہم سب عہد کریں کہ ہم ایسی قربانی دینے کے لئے آخری سانس تک تیار رہیں گے ۔
چلتے چلتے اس بات کا تذکرہ بھی کر دیتے ہیں کہ قربانی کامیابی کی شاہ کلید اور دنیوی و اخروی فوز و فلاح کی ضمانت بھی ہے۔ تاریخ کے صفحات گواہ ہیں کہ قوموں کا عروج و ارتقا ان کی قربانیوں سے وابستہ ہے اور قربانی کا جذبہ سرد پڑنے کے بعد بڑی سے بڑی قومیں بھی نیست و نابود ہوکر تاریخ کے صفحات سے مٹ گئیں ہیں اور تاریخ کے نہاں خانوں میں چلی گئی ہیں ۔
قربانی جیسی مہتم بالشان عبادت انجام دیتے وقت ہمارے سامنے صرف جانور کا گوشت و پوست نہ رہے ۔ بلکہ اس عبادت کے پس پشت جو عظیم آفاقی پیغام مضمر اور پنہا ہے اسے دل و دماغ اور قلب و نظر میں رکھ کر ہمیں اس عبادت کی سعادت سے بہرہ ور ہونا چاہئے اور اس عبادت کو ادا کرتے وقت یہ استحضار بھی رہنا چاہئے کہ
جان دی ،دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
اور یہ مصرع بھی ذھن میں مستحضر رہے جو قربانی کی روح ہے کہ
سر تسلیم خم جو مزاج یار میں آئے
اس لیے،خوب اہتمام سے دل کھول کر قربانی کے عمل کو ادا کیجیے-"
دوستو بزرگو اور بھائیو!
"اسوہ ابراہیمی” کا سب سے اہم پہلو "توحید پر استقامت, توحید کی دعوت اور شرک سے بیزاری کا اظہار” ہے۔ قرآن مجید میں جہاں کہیں حضرت ابراہیم علیه السلام کا تفصیلی تذکرہ ہے وہاں اکثر ان کی پرزور اور پر جوش دعوت توحید نقل کی گئی ہے۔ سورہ بقرۃ, سورہ اَنعام اور سورہ ممتحنۃ میں حضرت ابرہیم علیہ السلام کے تذکرے میں "شرک سے بیزاری” کے مضمون کو بھی قوت کے ساتھ پیش کیا گیا ہے۔ یہ قربانی "اسوہ ابراہیمی” کو اختیار کرنے کے لیے ہے۔ خانوادہ ابراہیمی کے تینوں اہم کردار کسی بھی گھر کے تینوں کرداروں کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ گھر کے ذمہ دار اور مرد حضرات حضرت ابراہیم کو, خواتین حضرت ہاجرہ کو اور نوجوان نسل حضرت اسماعیل علیہم السلام کو اپنے لئے آئیڈیل اور نمونہ بنائیں۔ اپنے علاقے کے کسی عالم سے درخواست کریں کہ ان دنوں میں قرآن مجید کی ان تمام آیات کا درس مسجد میں دیں جن آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام یا ان کے خانوادہ کا تذکرہ ہے۔ انہی جذبات سے قربانی کا عمل کریں۔ اللہ تعالی کے نزدیک اُن دنوں قربانی سے زیادہ پسندیدہ عمل اور کوئی نہیں۔
بر صغیر کے مسلمان بفضل اللہ اس دینی شعار کو بڑے جوش و جذبے کے ساتھ ادا کرتے ہیں, بے شمار دینی منافع اس شعار کی ادائیگی سے وابستہ ہیں۔ اور اس کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ہمارے یہاں فقہائے مجتہدین کی وہ رائے عام ہے، جس کے مطابق قربانی واجب ہے اور ہر صاحب نصاب کے اوپر الگ الگ قربانی واجب ہے۔ یہ رائے بھی حدیثوں کی بنیاد پر ہی ہے اور متعدد کبار علماء اور فقہائے مجتہدین کی رہی ہے۔ اس لیے بلاوجہ اس رائے کو کمزور دکھانے کی کوششیں نہیں کی جانی چاہیے۔ ایک عام مسلمان کے لیے فقہائے مجتہدین کی تقلید ہی میں ان کی حفاظت ہے۔ جن حدیثوں سے "وجوب کے بجائے مستحب یا سنت” کا ثبوت ملتا ہے , فقہاء اور محدثین نے ان کی توجیہات و تاویلات بھی پیش کی ہیں۔
*اس دور میں اسلامی شعائر کے اظہار کی اہمیت کے پیش نظر , ان دنوں میں قربانی کے عند اللہ سب سے اہم اور محبوب عمل ہونے کے پیش نظر اور قربانی کے اس اہتمام سے جو بے شمار دینی منافع وابستہ ہیں (مدارس اسلامیہ اور فقراء و مساکین کی ضرورتوں کی تکمیل) ان سب کی وجہ سے لوگوں کو اس عمل کی مزید ترغیب دینی چاہیے نا کہ ان کے شوق و جذبے کو راستے دکھا کر ٹھنڈا کیا جائے، وہ بھی تب جب کہ دوسری رائے کے لئے بھی شرعی دلائل موجود ہیں اور شروع ہی سے فقہائے مجتہدین اور علمائے امت کی ایک بڑی تعداد کی وہی رائے رہی ہو۔*
نام و نمود سے بچتے ہوئے اخلاص کے ساتھ اس عمل کو ادا کرنے کی تلقین کی جائے, توحید کا اعلان اور اس کی دعوت عام کی جائے اور خانوادہ ابراہیمی کی طرح اپنے پورے وجود کو, اپنی نفسانیت اور اپنی خواہشات کو اللہ تعالی کی رضا کے لیے قربان کرنے کا جذبہ پیدا کیا جائے”۔