✍️ ظفر امام قاسمی
______________________
. قربانی (ذی الحجہ) کے چاند کے طلوع ہوتے ہی لبرل طبقہ اور کچھ آزاد خیال لوگ برساتی کیڑوں کی طرح کلبلا اٹھتے ہیں، اپنی عادت سے مجبور برہنہ گفتاری پر اتر آتے ہیں،مذہبِ اسلام پر طعن و تشنیع اور ہفوات و اعتراضات کا پٹارہ کھول کر بیٹھ جاتے ہیں کہ: لاکھوں کی تعداد میں قربانی کرنے کا کیا فائدہ ہے؟یہ تو سراسر ضیاعِ مال ہے،اس سے اچھا تو یہ ہے کہ ان پیسوں کو کسی رفاہی کاموں میں استعمال کیا جائے،ان سےکسی مریض کا علاج کرادیا جائے، کسی غریب کا چولہا جلا دیا جائے،کسی بیوہ کی فریاد رسی کی جائے،کسی یتیم کی فیس ادا کردی جائے،ان کے علاوہ لاکھوں جانوں کی خون بہائی کرکے ان پر جو ظلم ہوتا ہے وہ ان سب پر مستزاد ہے۔
درحقیقت یہ اپنے معاشرے کے وہ بدبودار اور تعفن زدہ قسم کے لوگ ہیں جو اپنی آنکھوں پر تعصب و عناد کی عینک لگا رکھتے ہیں،جن کو ہر پھٹے میں اپنی ٹانگ اڑانے کی عادتِ بد لگی ہوتی ہے،اسلام اور اہلِ اسلام کا تمسخر اڑانا ان کی فطرتِ ثانیہ ہوتی ہے،وہ صرف قربانی ہی نہیں بلکہ اسلام کے ہر شعار کو اپنی آزاد خیالی کے ٹکسال پر اتارنے کی کوشش میں مبتلا رہتے ہیں،جس کی وجہ سے قربانی اور ان جیسے دیگر شعائرِ اسلام کے فوائد و ثمرات ان کی نظروں میں نہیں بھاتے،جبکہ قربانی کے مقابل میں جن چیزوں کی اہمیت کو یہ اجاگر کرنا چاہتے ہیں،شریعت میں ان کی تکمیل کے لئے بہت سے مدات ہیں،مگر معلوم نہیں قربانی کو لیکر ان کے پیٹ میں بل کیوں پڑنے لگتے ہیں، اس کالم میں راقم السطور قربانی کے چند ایسے دینی و اخروی فوائد کی طرف اشارہ کرنے کی کوشش کرےگا جن کا کسی کو بھی مجالِ انکار نہیں۔
۞ قربانی کا سب سے بڑا فائدہ تو یہی ہے کہ اس کے ذریعے سے ایک بندہ اپنے فریضے سے عہدہ برآ ہوکر خدائی باز پرس سے بچ جاتا ہے،بالفاظِ دیگر قربانی خدائی حکم کی تکمیل کا نام ہے،اگر قربانی کرنے والے کی نیت خالص ہو اور اس نے صرف رب کی رضا جوئی کے لئے قربانی کی ہو تو پھر اس سے رب راضی ہوتا ہے،قربانی خدا کے تقرب کا اقرب ترین وسیلہ ہے کہ اس کا خون زمین پر لالی بکھیرنے سے پہلے ہی وہ اللہ کے یہاں مقبول ہوجاتی ہے، اور قربانی اس کے لئے مغفرت کا سامان فراہم کرتی ہے،ایک بندے کو اس سے زیادہ کی اور کسی چیز کی غرض بھی نہیں ہوتی۔(یہ تو اخروی فائدہ ہے،اب آئیے دنیوی فوائد کی طرف)
۞ قربانی بلا امتیازِ مذہب و ملت کمزور اور نادار طبقہ کے لوگوں کے معاشی مسائل کے حل کا ایک بہترین وسیلہ اور مؤثرترین ذریعہ ہے،اس لئے کہ اس کی وجہ سے کمزور اور نادار طبقہ کے لوگ کچھ عرصے کے لئے معاشی بحران سے نکل کر بافراغت زندگی گزارنے والے بن جاتے ہیں،ان کے چہروں پر تبسم کی دل آویز لکیریں کچھ دنوں کے لئے کھنچ جاتی ہیں،وہ اس طور پر کہ صاحبانِ سیم و زر، مالکانِ دولت و ثروت اور معاشرے کے اعلی طبقات میں شمار لوگ تو ڈھور ڈنگر پالنے پوسنے سے رہے،یہی وہ غریب اور نادار قسم کے لوگ ہوتے ہیں جو باوجود بےانتہا ضرورت مند ہونے کے اپنی خودداری کا بھرم رکھتے ہیں اور کسی کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلاتے،یہ لوگ سال بھر اپنا خون پسینہ بہاکر اور اپنے دلوں میں کچھ یافت کی امید کی شمع جلاکر موسم برسات کا ہو کہ گرمی کا، پانی چھم چھم برسے یا بجلی کڑکڑ کڑکے ان تمام حالات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اپنے ڈھور ڈنگروں کی رکھوالی کرتے ہیں،دنوں کو انگلیوں میں شمار کرتے ہوئے قربانی کے ایام کی وہ بڑی بےصبری سے انتظار کرتے ہیں،اور جب قربانی کے جانوروں سے بازار آراستہ ہونے لگتے ہیں تو یہی لوگ نہ صرف یہ کہ اپنے جانوروں کو بیچ کر مالداروں کے لئے آسانیاں فراہم کرتے ہیں بلکہ خود بھی مہینوں تلک آسائش کی سانسیں گنتے ہیں۔
اسی ہفتہ کی بات ہے کہ میں کسی ضروری کام کی وجہ سے پَو پھٹے ہی بازار پہونچ گیا،مجھے اندازہ نہیں تھا کہ اتنے سویرے ہی لوگ اپنے جانوروں کے ساتھ پورے بازار کو گھیر لیں گے،میں آپ کو بتا نہیں سکتا کہ کتنی تعداد میں وہاں مویشیاں آئی ہوئی تھیں،اور مویشیوں کے آنے کا یہ تانتا ابھی رکا نہیں تھا بلکہ بڑھتا ہی جا رہا تھا،مویشیوں کی نکیلوں کو ہاتھوں میں لئے ان لوگوں (جن میں ایک معتدبہ تعداد خواتین اور کنواری لڑکیوں کی بھی تھی) کی اکثریت کے چہرے سے غربت و نکبت کی پرچھائیں جھانک رہی تھیں،فقر و افلاس کی لکیریں ان کی پیشانیوں پر مرتسم تھیں،ان کے خد و خال اور ان کی بجھی بجھی آنکھیں بتا رہی تھیں کہ ان کو پیسوں کی کتنی سخت ضرورت ہے۔
کمزور اور نادار قسم کے لوگوں کو پیسوں کی کتنی ضرورت ہوتی ہے اس کا اندازہ آپ اس ایک جملے سے لگاسکتے ہیں: آج ہی رات کی بات ہے،میں قربانی کے ایک جانور (جو تقسیم کے لئے میرے پاس کہیں سے ہدیہ میں آیا ہے) کو رات بھر رکھنے کے لئے جگہ کی تلاش کرتا ہوا اپنے گاؤں کے ایک یومیہ مزدور (ویسے یومیہ مزدوری تو مجھ جیسے ماتحتی میں کام کرنے والے سارے لوگ کرتے ہیں،اگرچہ طریقے الگ اور انداز جداگانہ ہیں،مگر نہ جانے پھر کیوں سماج میں ان بیچاروں کو نیچ خیال کیا جاتا ہے،یہ بھی ہمارے معاشرے کا ایک المیہ ہے)کے گھر جا پہونچا،ان سے کہا کہ:مامو آج اور کل کے لئے ہمارے قربانی کے جانور کی جگہ نکالئے“اس پر انہوں نے جواب دیا ”بابو میرے پاس پہلے ہی سے کئی جانور ہیں،جگہ کی تنگی کی وجہ سے میں ایک جانور کو رسوئی گھر میں باندھتا ہوں“ اس پر میں نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا” اچھا یہ بتائیے اتنے سارے جانور رکھنے کا کیا فائدہ ہوتا ہے؟“ اس پر اس بیچارے نے ایک آہِ سرد کھینچتے ہوئے جواب دیا ”بابو اگر ہم غریب لوگ جانور نہ رکھیں تو کھائیں کیسے،انہی سے تو ہمارا گزر بسر ہوتا ہے“ ہائے کتنا درد چھپا ہوا تھا ان کے اس چھوٹے سے جملے میں، میں اس وقت ان کو تسلی دینے کے علاوہ اور کر بھی کیا سکتا تھا۔
اب ان آزاد خیال لوگوں سے ایک سوال ہے کہ اگر قربانی نہ ہوتی تو آپ ان مفلوک الحال لوگوں کے لئے کیا کرتے؟کیونکہ یہ لوگ اپنی خودادری کو عریاں کرکے کسی کے سامنے ہاتھ تو نہ پھیلاتے تو کیا پھر یہ لوگ فاقوں میں اپنی زندگی بسر کرنے پر مجبور نہ ہوتے؟
۞ ہمارے معاشرے میں کچھ لوگ آج کی اس کشادگی کے دور میں بھی ایسے پائے جاتے ہیں جو نانِ شبینہ کے بھی محتاج ہوتے ہیں، ڈھور ڈنگروں کی پال پرورش ان کی استطاعت سے باہر کا کام ہے، مہینوں گزر جاتے ہیں مگر ان کی زبانیں گوشت کے ذائقے سے محروم رہتی ہیں، عام دنوں میں کوئی ان کا پُرسانِ حال بھی نہیں ہوتا،وہ دن گزارتے نہیں بلکہ کاٹتے ہیں،ان کے بچے پڑوسیوں کی ہانڈیوں کی خوشبوؤں سے بےقرار ہوکر روتے ہوئے اپنی ماں سے گوشت کی طلب کرتے ہیں مگر دکھیاری ماں انہیں گوشت کے بجائے تھپکیاں دے کر سلادیتی ہیں،قربانی کے موسم میں قربانی کرنے والوں کی جانب سے ان کو اتنا گوشت نصیب ہوجاتا ہے کہ ہفتوں تک خوشی ان کے چہروں سے زائل نہیں ہوتی۔
۞ خود قربانی کرنے والے اور ان کے بچوں کو بھی بافراغت کئی دنوں تک گوشت کھانا نصیب ہوجاتا ہے،صرف گوشت ہی نہیں وہ جانور کے ہر عضو سے لطف اندوز ہوتے ہیں،قربانی کے گوشت کے ذریعے رشتے داریاں بھی نبھائی جاتی ہیں۔
۞ قربانی انسان کی سخاوتِ قلبی کو ناپنے کی ایک میزان ہے،قربانی آسانی کے ساتھ انسان کے سخی اور بخیل ہونے کا فیصلہ کرتی ہے۔
۞ پھر جب قربانی کی کھالیں اتاری جاتی ہیں تو ان سے حاصل شدہ رقومات سے نہ جانے کتنے مفلوک الحال لوگوں کی حاجت روائی ہوتی ہے،مدارس کا نظام ان سےمستحکم ہوتا ہے،نادار طلبہ کی تعلیم کے بند و بست کا یہ مؤثر ترین ذریعہ ہے،اور قربانی کی یہ کھالیں ان آزاد خیال لوگوں کے بھی بہت کام آتی ہیں،بایں طور کہ جب یہ کھالیں فیکٹریوں میں پہونچتی ہیں اور وہاں ان سے اعلی اور نفیس قسم کی ضروریات کی چیزیں تیار ہوکر بازاروں میں پہونچتی ہیں تو زیادہ تر یہی آزاد خیال لوگ ان کو خرید کرفٹیچری دکھاتے اور ہیکڑی مارتے ہیں۔
۞ قربانی کا ایک اہم اور بڑا فائدہ یہ بھی ہے کہ یہ جیو رکچھکوں اور گئوسیوکوں کے دو رُخے منہ پر زور دار طمانچہ رسید کرنے اور ان کی قلعی کھولنے کا کام کرتی ہے،اس لئے کہ قربانی کے جانوروں کے بازار میں لگام ہاتھ میں تھامے اپنے گاہکوں کے انتظار کی قطار میں وہ متعصب اور اندھ بھکت لوگ بھی بڑی تعداد میں نظر آتے ہیں جو مسلمانوں پر جیوہتھیا کرنے کا الزام لگاتے اور ان کو ظالم و جابر جیسے القاب سے ملقب کرتے ہیں۔
ان کے علاوہ قربانی کے اور بھی بہت سے فوائد ہیں، شرط یہ ہے کہ ان کی تعصب کی عینک اتار کر جستجو کی جائے،اور اگر کوئی تعصب کی عینک اتارے بغیر اس کے فوائد پر غور کرےگا تو سوائے اس کے اس کو کچھ ہاتھ نہ آئےگا کہ: قربانی میں علاوہ خون بہائی اور ضیاعِ مال کے اور کچھ نہیں ہوتا۔
اگر ہم خدائی عطا اور بخشش پر غور کریں تو ہمارے انگ انگ سربسجود ہوئے بنا نہیں رک سکتے،ہم خون بھی بہاتے ہیں،جانوروں کی گردنوں پر چھریاں بھی چلاتے ہیں،گوشت بھی کھاتے اور کھلاتے ہیں،ہڈیوں کے چوسنے کا لطف بھی اٹھاتے ہیں،اور الٹا ثواب بھی لوٹتے ہیں۔
؎ عجیب ماجرا ہے کہ بروز عید قرباں
وہی ذبح کرے ہے وہی لے ثواب الٹا
اورایک بےچارے لبرل اور آزاد خیال لوگ ہیں کہ قربانی پر بےجا اعتراضات کرکے خدائی نعمت کے چکھنے سے تو وہ محروم رہتے ہی ہیں ساتھ میں شعائرِ اسلام کے تمسخر اڑانے کی پاداش میں ان پر جو پھٹکار برستی ہے وہ کسی دردناک عذاب سے کم نہیں ہوتی۔