Slide
Slide
Slide

نئے ہجری سال کا تقدس اور وقار پامال نہ ہونے دیں

✍️ ذکی نور عظیم ندوی – لکھنؤ

________________

سال اور مہینوں کا آنا جانا معمول سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتاجس میں انسان کو اپنے منصوبوں،اس کے نفاذ کی کوشش اور اس میں پیش رفت کا جائزہ لینا چاہیئے اور حسب ضرورت اس میں ردو بدل تقدیم و تاخیر اور کبھی کبھی کچھ کمی و زیادتی پر بھی غور کرنا چاہیئے ۔ اس سلسلہ میں عیسوی، ہجری، ایرانی،بکرمی یا کسی بھی کیلنڈر کا کوئی فرق اور امتیاز نہیں۔

اسلامی نقطہ نظر سے ہجری سال کو اسلامی سال کہنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مہینوں، عشروں اور دنوں میں ہجری قمری سال کا اعتبار کیا جاتا ہے اور اسی اعتبار سے روزہ، حج ، عدت کے مسائل اور بعض دیگر عبادتوں کی تعیین ہوتی ہے ۔ اس کا یہ مطلب قطعا نہیں کہ اسلام میں سورج کے مقابلہ چاند کی گردش زیادہ معتبر مانی گئی ہے ، بلکہ غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جس طرح ماہ و سال،عشروں اور دنوں کے تعین کے لئے رؤیت ہلال کا اعتبار کیا گیا اسی طرح دن کے مختلف اوقات، وقت افطار اور نمازوں کے اوقات کے لئے سورج کی گردش کو معتبر مانا گیا۔

جہاں تک دنیا میں کیلنڈرکے نظام کی بات ہے تو یہ بہت قدیم ہے،کیونکہ وقت کو گھنٹوں، دنوں، ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تقسیم اور شمار کرنے،تاریخ و ہفتہ کے دنوں کی تعیین ، دنیوی نظام کو منصوبہ بند طریقہ پر انجام دینے اوراس کویاد رکھنے کے لئے دنیا میں مختلف زمانوں میں مختلف اعتبار سے مختلف کیلنڈر رائج کئے گئےجن میں عیسوی کیلنڈر، ہجری کیلنڈر, بکرمی کیلنڈر، مالیاتی کیلنڈر، تعلیمی کیلنڈر، زرعی کیلنڈر ،مختلف افراد کی تاریخ پیدائش اور کاروبار کے اعتبار سے اس کی عمر کا کیلنڈر اور کاروباری و معاملاتی کیلنڈر وغیرہ وغیرہ ۔ ہجری کیلنڈر بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے جس کی بنیاد چاند کی رؤیت پر ہے ۔بعض ملکوں میں ہجری شمسی کیلنڈر بھی رائج ہے جن میں چاند کے بجائے شمسی نظام پر اعتماد کیا گیا ہے اور جس کو بعض نقطہ نظر سے عیسوی گریگورین کیلنڈر سے بھی زیادہ منظم کہا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

لہذا نئے ہجری سال پر کچھ الگ پروگرام یا جشن اسلامی نقطہ نظر سے کسی طرح بہتر نہیں بلکہ دیگر کیلنڈروں کی طرح یہ بھی ماہ و سال کی تعیین کا ایک حصہ ہے جس کا الگ سے کوئی امتیاز نہیں ۔ اس کو حضرت عمر نے ہجرت کے ۱۷ویں سال اوراپنی خلافت کے ڈھائی سال بعد سرکاری طور پر رائج کیا اور محرم الحرام کو اس کا پہلا مہینہ قرار دیا حالانکہ نبی اکرم ؐ نے ہجرت ربیع الاول کے مہینہ میں کیا تھا۔

نئے ہجری سال کا پہلامہینہ محرم ان حرمت و احترام والے مہینوں (اشہر حرم) میں ہے جس کے بارے میں سورہ توبہ کی آیت 36 میں آپسی ظلم و زیادتی سے خاص طور پر منع کیا گیا اور سورہ بقرہ کی آیت نمبر217میں ان مہینوں میں جنگ و جدال اور لڑائی جھگڑوں کو بڑا جرم قرار دیا گیا اور فتنہ وفساد کو قتل و قتال سے بھی زیادہ سنگین اور خطرناک قرار دیا گیا۔ان حقائق کے مد نظر ان مہینوں میں مسلم معاشرہ کو ہر طرح کے اختلافات، لڑائی جھگڑے، فتنہ وفساد اور غلط فہمیوں سے بچتے ہوئے عام دنوں سے بھی زیادہ امن و سلامتی، پیار و محبت، اپنائیت اور اتفاق و اتحاد کے ساتھ زندگی گزارنے کا ماحول بنانا اور اسے پروان چڑھانا چاہئے۔

لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہی نہیں بلکہ تشویش کی انتہا نہیں رہتی کہ ان شہروں میں جہاں مسلمانوں کے مختلف طبقات آبادہیں حکومت کو سلامتی کے ایسے انتظامات کرنے پڑتے ہیں کہ اس میں کوئی شبہ نہ رہ جائے کہ یہاںشدید تناؤ ہے اور حالات پر کنٹرول انتظامیہ کے لئےدرد سر بن گیا ہے، اس کوہر طرف سخت حفاظتی انتظامات، اونچی عمارتوں پر سیکورٹی اہلکاروں کی تعیناتی ، ڈرون اور سی سی ٹی وی کے ذریعے نگرانی، ہزاروں پولیس اہلکار، بم ڈسپوزل اسکواڈ، فائر فائٹنگ گاڑیوں ،پی اے سی اور ریپڈ ایکشن فورس کی طلبی، پچاسوں اے ڈی سی پی اور اے سی پی سطح کے افسران اورلا تعداد مقامات پر سی سی کیمرے لگاکر حالات کو بگڑنے سے بچانے کی تدبیر کرنی پڑتی ہے۔ ماحول خراب کرنے والے شرارتی عناصر اور سوشل میڈیا پراشتعال انگیز پیغامات وائرل کرنے والوں پر کڑی نظر رکھنا، سائبر کرائم سیل کو الرٹ کرنا اور سخت فوری کارروائی کا انتباہ جاری کئے بناحالات قابو سے باہر ہونے کا خدشہ رہتا ہے۔ جلوس کے راستوں اور مقامات کی سیکورٹی کے لیے ڈاگ اسکواڈ بلانا،اے ٹی ایس کے بم ڈسپوزل اسکواڈ کو سخت تفتیش اور تلاشی کےلئے متعین کرنا اورمشکوک گاڑیوں کی چیکنگ کا حکم بھی جاری کرنا پڑتا ہے۔

آخر اس ماہ میں ایسی صورت حال اور اس کو کنٹرول کرنے کے لئےجنگی پیمانہ پر کئے گئےایسے وسیع انتظامات کی ضرورت کیوں؟ جب کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق محرم کو تو خاص طور پرظلم و زیادتی سے پاک ، امن و سکون ، پیار و محبت، عدل وانصاف اور اتفاق و اتحاد کا گہوارہ ہونا چاہئےاور ایسے انتظامات کی ضرورت تو دور اس کا گمان تک نہیں گزرنا چاہئے۔

یہ صحیح ہے کہ اس ماہ کی 10 تاریخ کو اسلامی نقطہ نظر سے دو اہم واقعات پیش آئے:

  • (1)حضرت موسی اور بنی اسرائیل کی فرعون اور اس کے ظلم و زیادتی سے نجات، جس کی وجہ سے یہود اس دن روزہ رکھتے تھےاور نبی اکرم نے حضرت موسی سے تعلق کی وجہ سے مسلمانوں کو بھی اس دن اور اس کے ساتھ مزید ایک دن روزہ رکھنےکا حکم دیا۔
  • (2) نواسہ رسول اور جنت میں نوجوانوں کے سردار حضرت حسین کی نہایت تکليف دہ وافسوسناک شہادت۔جو سن 61 ھ میں نبی اکرمؐ اور قرآن کی تکمیل کے تقریبا 50 سال بعد پیش آئی۔یہ واقعہ بہت افسوسناک اور تکلیف دہ ہونےکے باوجود صبر و تحمل اوربرداشت کا متقاضی ہےاور تقریبا چودہ سو سال قبل پیش آنے والے اس واقعہ کی وجہ سےاسے کوئی ایسا رخ نہیں دینا چاہئے کہ یہ منتشر اسلام کے اعلان اور چرچہ کا سبب بن جائے۔

بلکہ سورہ طہ آیت 51 -52 کی روشنی میں پچھلی صدیوں کے لوگوں کے بارے میں حضرت موسیؑ کا دیا گیا جواب کہ’’ اس کی معلومات اللہ کے پاس تحریری شکل میں ہے جس سے بھول چوک نہیں ہوتی‘‘سے یہ رہنمائی لینی چاہئےکہ سابقہ زمانے کے واقعات اللہ کی کتاب میں محفوظ ہیں جس کے بارے میں اللہ بہتر فیصلہ فرمائے گا ہمیں اس میں الجھنے اور آپسی انتشار واختلاف بڑھانے کی ضرورت نہیں۔

اس طرح امید کی جاسکتی ہے کہ شاید موجودہ حیرت انگیز اور تشویشناک صورت حال جو امت مسلمہ میں اختلاف وانتشار کی بڑی وجہ اور اسلام پر ایک بدنما داغ اور شرمندگی کا سبب ہے اس میں کچھ بہتری آئے۔ اور اس جانب بھی توجہ ضروری ہے کہ محرم میں دس پندرہ دنوں ہونے والے پروگراموں میں یوم عاشوراء کی اصل مشروعیت، اس میں روزہ، حضرت موسی کی نجات ، فرعون کی ہلاکت اور عصر حاضر میں اس کے مثبت نتائج کے تذکرہ کے ساتھ اسلام کی مثبت اور متفقہ تعلیمات کو پیش کیا جائے اور اس کومسلکی بنیادوں پر نفرت و عداوت کی تجدید کے دن کے طور پر نہ پیش کیا جائے کیونکہ اہل بیت ،صحابہ کرام، ان کی تعلیمات اور ان کی محبت کے نام اور بنیاد پر یوم عاشورا اور محرم کو انتشار و اختلاف اور نفرت و عداوت کی تجدید کا سالانہ موقع بنا لینا کسی طرح درست نہیں ہو سکتا ؟

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: