Slide
Slide
Slide

اصلاح معاشرہ اور تعلیمات نبویﷺ

محمد ناصر ندوی پرتاپگڑھی

____________________

اسلامی تعلیم کے مقاصد میں سے ایک اہم مقصد انسانی معاشرے کی ایسی اصلاح کرنا ہے کہ دنیا میں تمام انسان امن و امان کی زندگی بسر کرسکیں ، اسلامی تعلیم کا یہ بنیادی مقصد صرف اس طرح سے حاصل ہو سکتا ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے حکم کے مطابق ہم رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کے اسوہ حسنہ کی پیروی کرتے ہوئے یہ معلوم کریں کہ حضور صلی اﷲ علیہ و سلم نے معاشرے کی اصلاح کس طرح کی تھی۔

ہر کام کی غایت ﷲ سبحانہ تعالیٰ کی رضا ہے اور ﷲ تبارک وتعالی نے قرآن کریم میں واضح طور پر یہ حکم دیا ہے کہ اس کی رضا اور خوشنودی صرف رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم کی پیروی ہی سے حاصل ہو سکتی ہے، بلکہ اس نے ہم سے یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ تم ﷲ کے رسول کی پیروی کروگے تو ﷲ تعالیٰ تم سے محبت کرے گا ، کسی انسان کےلئے اس سے زیادہ بڑا مرتبہ اور کیا ہو سکتا کہ خود ﷲ اس سے محبت کرنے لگے۔

اصلاح معاشرہ کےلئے بھی ہمیں محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہی اتباع کرنی ہوگی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی کی بتائی ہوئی راہ پر چلنا ہوگا ،اور آپ کی حیات طیبہ کا مطالعہ کرنا ہوگا، ہماری خوش قسمتی یہ ہے کہ ﷲ کے آخری رسول کی پوری زندگی کا ریکارڈ ہمارے اسلاف نے ہمارے لئے جمع کر دیا ہے، اس کے علاوہ حضرت عائشہؓ کے بلیغ ارشاد کے مطابق خود قرآن حکیم ہی آپ کی مبارک زندگی کا سب سے زیادہ قابل اعتماد وسیلہ موجود ہے۔ اصلاح معاشرہ کے سلسلہ میں حضور صلی ﷲ علیہ و سلم نے جو کامیابی حاصل کی وہ دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا اور سب سے اہم واقعہ ہے، عرب کے باشندے مختلف ٹولیوں میں بنٹے ہوئے تھے، جہالت و سرکشی نے انہیں ایسے اوصاف سے بھی محروم کردیا تھا کہ جو تمام انسانوں کےلئےتو کیا خود ان کے لئے ہی ایک پر امن معاشرہ مہیا کرتا، ایسے معاشرے میں ﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلّم پیدا ہوئے اور ﷲ تعالیٰ نے آپ کو نبوت سے سرفراز فرمایا اور آپ صلی ﷲ علیہ و سلم کے ذمہ یہ کام لگایا کہ معاشرے کو برائیوں سے پاک کریں اورمعاشرہ کی ایسی اصلاح کریں کہ دنیا کا مثالی معاشرہ بن جائے، اور افراد معاشرہ دنیا کے بہترین افراد بن جائیں۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ و سلم کی حیات طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اصلاح معاشرہ کے سلسلے میں آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے دو بنیادی اصولوں پر عمل فرمایا، ایک یہ کہ آپ نے کبھی کوئی ایسی بات نہیں کہی، جس پر آپ خود عمل نہ فرماتے ہوں، حضور صلی اﷲ علیہ و سلم کے قول و فعل میں کبھی کوئی تضاد نہ تھا، جو فرماتے تھے خود اس پر عمل فرماتے تھے۔ معلوم ہوا کہ اصلاح معاشرہ کی کوئی کوشش اس وقت تک کامیاب اور مکمل مفید نہیں ہو سکتی جب تک اصلاح کرنے والا خود اس پر عمل نہ کرتا ہو، یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیم اور اصلاح معاشرہ کی کوشش ایسی بار آور ہوئی کہ لوگوں کی کایا پلٹ گئی، لیکن آپ سے قبل سقراط، افلاطون اور ارسطو اور بیسیوں دوسرے حکماء اور فلاسفہ ومصلحین جو وعظ نصیحت کرتے رہے اور انہوں نے فلسفہ اور عقل و دانائی کی بنیاد پر عمارتیں کھڑی کردیں ,لیکن معاشرے پر ان کا کوئی اثر نہیں پڑسکا، ایسا صرف اس لئے ممکن نہیں ہوسکا کہ وہ دوسروں کو تو روشنی دکھاتے رہے، لیکن خود تاریکی سے باہر نہیں آئے ،وہ شفقت و محبت کا سبق پڑھاتے رہے، لیکن خود غریبوں پر ترس کھانے کی صفت سے عاری اور دشمنوں سے محبت کرنے کی حلاوت سے محروم تھے۔
آج ہمارے معاشرے کا کیا حال ہے آج ہم کہاں کھڑے ہیں؟ قرآن نے کہا:
ولا تلقوا بأیدیکم الی التهلکة (سورة البقرہ)
ترجمہ: اپنے تئیں اپنے ہاتھوں سے ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
احکام الٰہی کی رو سے انسان کو اپنے تئیں ہلاکت میں ڈالنا منع ہے، مگر ہم نے ﷲ اور اس کے رسول اور قرآن و سنت سے صرف نظر کرکے خود کو، اور پوری ملت کو اس راہ پر ڈال رکھا ہے جو صرف ہلاکت کی طرف لے جاتی ہے، چنانچہ آج حال یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں ہر قسم کے رذائل سرایت کر چکے ہیں، حد یہ ہے کہ عزت اور جان بھی اپنے ہی بھائیوں کے ہاتھوں خطرے میں رہتی ہے، اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اصلاح معاشرہ کی کوشش نہ ہو رہی ہوں، مدارس وتنظیمیں اور اسکالرز اصلاح کی تلقین کرتے رہتے ہیں، وعظ و تبلیغ کا ایک سلسلہ ہے ، مسجدوں کے ائمہ ہر جمعہ کو لوگوں کو اچھا بننے کی تلقین بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن ان تمام کوششوں کا بظاہر کوئی مثبت نتیجہ نظر نہیں آتا، غالباً اس کی بہت بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم جو بات یا کام ترک کرنے کو کہتے ہیں خود ترک نہیں کرتےہیں (الا ما شاءاللہ) یہ طریق اصلاح سنت رسول کے خلاف ہے۔
اسلام میں اصلاح معاشرہ کا ایک بنیادی نکتہ یہ ہے کہ رسول ﷲ صلی اﷲ علیہ و سلم نے اوائل زندگی ہی سے سچائی اور راست بازی پر سختی کے ساتھ عمل کیا اور مسلمانوں کو جھوٹ سے بچنے کی تلقین کرتے رہے، آپ صلی ﷲ علیہ و سلم نے خود زندگی میں کبھی جھوٹ نہیں بولا اور آپ صحابہ کرام کو بھی اس رذیل ترین فعل سے احتراز کی تاکید فرماتے رہے، آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کا یہ وصف بعثت سے قبل بھی اس قدر نمایاں تھا کہ کفار و مشرکین بھی آپ صلی اﷲ علیہ و سلم کو صادق اور امین گردانتے تھے۔
معاشرے کی تمام برائیوں میں سر فہرست جھوٹ ہے، اسلام کی لغت کا سخت ترین لفظ ’’لعنت‘‘ ہے، قرآن پاک میں اس کا مستحق شیطان اور اس کے بعد مشرک، کافر اور منافق کو بتایا گیا ہے، لیکن کسی مؤمن کو کذب یعنی جھوٹ کے سوا ،اس کے کسی فعل کی بناء پر لعنت سے یاد نہیں کیا گیا ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ جھوٹ ایسی برائی ہے کہ مسلمان سے بھی سرزد ہو تو اس کےلئے لعنت کی وعید ہے۔
آج معاشرہ کئی قسم کی برائیوں میں مبتلا ہے، ذخیرہ اندوزی، چیزوں میں ملاوٹ، ناپ تول میں کمی، آپس ہی میں ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کی کوشش، لوٹ مار، ڈاکہ، انسانوں کا اغوا اور قتل و غارت، وعدہ خلافی، خیانت اور بددیانتی، چغل خوری، بہتان اور غیبت، رشوت اور جوا اور سود، سوال یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح کیوں کر ہو؟ اس کا عملی جواب یہ ہے کہ سربراہان معاشرہ اپنے کردار کو درست کریں اور صرف ایک برائی کو چھوڑنے کی کوشش کریں تو معاشرہ بتدریج ان شاء ﷲ اصلاح کی راہ پر گامزن ہوجائے گا۔ اسی طرح رفعت خلق کی بلندی اخلاق کا تجربہ کرلیں اور اس حقیقت کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اخلاق کی اچھائی سے ہم معاشرے کی اصلاح کر سکتے ہیں اور ملک کو صحیح معنی میں امن وسکون کا گہوارہ بنا سکتے ہیں۔

دعا ہے کہ ﷲ تعالیٰ ہم سب کو اپنی اور اپنے ملک کےحالات کی اصلاح کی کوشش کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: