بیٹے کے کاندھے پر باپ کا ہاتھ !!
🖋 جاویداختر بھارتی
( سابق سکریٹری یو پی بنکر یونین)
محمدآباد گوہنہ ضلع مئو یو پی
____________________
یوں تو ہر باپ کا ارمان ہوتا ہے اور دلی خواہش ہوتی ہے کہ میرا بیٹا عروج و ارتقا کی منزل طے کرے باپ کا گھرانے کا اور خاندان کا نام روشن کرے اکثر ایسا ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ باپ فقیر ہوکر بھی بیٹے کے لئے بادشاہت کا خواب دیکھتا ہے ،، بیٹے کے روشن مستقبل کے لئے محنت مزدوری کرتا ہے خوداپنے کندھوں پر بوجھ اٹھاتا ہے ، پورا دن لو کے تھپیڑے کھاتاہے ، دھوپ کی تمازت اور بھوک و پیاس برداشت کرتاہے ، سر سے لے کر پاؤں تک پسینہ بہاتا ہے اور سردیوں کے دنوں میں کانپتا رہتاہے لیکن بیٹوں کے خوابوں کو سجانے کے لئے باہر نکلتا ہے تاکہ بیٹے کا مستقبل تابناک ہوسکے کیونکہ وہی گھرکا سرپرست ہو تا ہے گھر کے آنگن میں وہی تناور درخت ہوتا ہے اور وہ ایسا درخت ہے کہ بسااوقات اس پر پتھر بھی چلتے ہیں لیکن وہ سب کچھ برداشت کرتے ہوئے پھل بھی دیتا ہے اور سایہ بھی دیتاہے –
ایک شخص کے گھر بچہ پیدا ہوتا ہے گھر کے سارے لوگ خوشیاں مناتے ہیں ساتویں دن دھوم دھام سے عقیقہ کا اہتمام ہوتاہے رشتہ دار، عزیز واقارب ، خاندان اور دوست واحباب سب کے لئے دعوت کا انتظام ہوتا ہے لوگ آتے ہیں مبارکباد پیش کرتے ہیں کھانا کھاتے ہیں بچے کی عمر درازی کی دعائیں کرتے ہیں ،، باپ ہے کہ پھولے نہیں سماتا ہے اسے گود میں لیتا ہے اور خوب پیار کرتاہے تھوڑا بڑا ہونے پر اس کی انگلی پکڑ کر چلاتا ہے بیٹا جو کہتا ہے تو اس کی خواہش پوری کرتا ہے اس کا ہر شوق پورا کرنے کی کوشش کرتا ہے اچھے اچھے کپڑے پہناتا ہے جب تھوڑا اور بڑا ہوتاہے تو اسکول و کالج اور مدرسے میں اس کا نام لکھواتا ہے مدرسے کے استاد اسکول کے ٹیچر یونیورسٹی کے پروفیسر سے کہتاہے کہ میرے بچے کو خوب اچھی تعلیم دیجئے میں اپنے بیٹے کو بہت بڑے اور بہت اونچے منصب پر دیکھنا چاہتا ہوں غرضیکہ مدرسے کے استاد نے اسے خوب اچھے سے پڑھایا اسے دینی مسائل و احکامات کی معلومات ہوگئی ،، باپ اب اپنے بیٹے کا نام ایک اسکول میں لکھواتا ہے بیٹا روزانہ اسکول جاتاہے ٹیچر بھی اسے محنت سے پڑھاتے ہیں کئی سالوں تک وہ اسکول میں پڑھتا ہے ہر سال امتحان میں اچھے نمبروں سے پاس ہوتاہے اس کے بعد باپ اپنے بیٹے کا نام ایک یونیورسٹی میں لکھواتا ہے بیٹا بھی تعلیم کے معاملے میں ذرہ برابر بھی لاپرواہی نہیں کرتا دن میں پروفیسروں سے تعلیم حاصل کرتاہے اور رات میں سب لوگ سوجاتے ہیں اور وہ دیر گئے رات تک کتابوں کا مطالعہ کرتاہے بالآخر اسے محنت کا صلہ ملتا ہے کمپٹیشن میں ٹاپ پوزیشن لاتا ہے نتیجے میں اسے اعلیٰ سروس بھی مل جاتی ہے اب تو گھر میں خوشیوں کا کوئی ٹھکانہ نہیں رہا ماں باپ کے چہرے کھل اٹھے پڑوس میں میٹھائیاں بانٹی جارہی ہیں مبارکباد پیش کرنے والوں کا تانتا بندھا ہوا ہے بیٹا روز صبح سویرے نہا دھوکر بہترین لباس میں ملبوس ہوکر دروازے پر کھڑی کار کے پاس پہنچتا باڈی گارڈ سلامی پیش کرتے ہوئے کار کا دروازہ کھولتا ہے اور وہ اس میں بیٹھتا ہے پھر کار دفتر کے لئے روانہ ہوجاتی ہے ،، ادھر ماں باپ یعنی میاں بیوی خوب تبصرہ کرتے ہیں بیٹے کی تعریف کرتے ہیں اور خوب مگن رہتے ہیں ،، میاں بیوی تبصرہ کرتے کرتے ایک دن بیٹے کے دفتر جانے کا فیصلہ کرتے ہیں بیوی بولتی ہے آپ اس کے باپ ہیں ایک دن ضرور بیٹے کی آفس میں جائیے نتیجہ یہ ہوا کہ ایک دن باپ اپنے اس لاڈلے اور دلارے بیٹے کی ماں سے کہتاہے کہ بیٹے کو لڈو بہت پسندہے تم وہ لڈو بناؤ میں آج بیٹے سے ملنے کے لئے اس کے دفتر جاؤنگا آخر کار بیوی نے مغزیات سے بھرپور لڈو تیار کردیا باپ نے اس لڈو کو بیگ میں رکھا اور بیوی سے کہا کہ جس کا بیٹا پڑھ لکھ کر ایک اعلیٰ افسر بن جائے پھر اس کے سامنے جاکر باپ پوچھے کہ بیٹے اس وقت تمہاری نظروں میں سب سے بڑا آدمی کون ہے تو بیٹے کا کیا جواب ہوگا تو بیوی نے کہا کہ ہمارے بیٹے کا جواب ہوگا کہ بابا آپ،، بیوی کی بات سن کر شوہر خوشی سے جھوم اٹھا اور بیٹے سے ملنے کے لئے اس کے دفتر کی طرف روانہ ہوگیا ،، جیسے ہی باپ دفتر پہنچ کر دروازہ کھولتا ہے ایک ملازم بڑھ کر قریب آتا ہے اور پوچھتا ہے کہ کیا کام ہے باپ کہتاہے مجھے مونو سے ملنا ہے ملازم جواب دیتا ہے کہ اس آفس میں مونو نام کا کوئی نہیں ہے باپ کہتاہے کہ یہ اس کا گھریلو نام ہے اصل میں نام اس کا ( زید) ہے اور میں اس کا باپ ہوں یہ سنتے ہی سارے ملازم کھڑے ہو جاتے ہیں اور بیٹھنے کے لئے کہتے ہیں کہ آپ تھوڑا انتظار کریں صاحب میٹنگ کررہے ہیں،، کچھ ہی دیرمیں سائڈ سے ایک دروازہ کھلتا ہے سیکورٹی گارڈ کے جھرمٹ میں بیٹا دیکھائی دیا جیسے ہی باپ بیٹے کی نظر ایک دوسرے سے ملی تو دونوں کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے دونوں گلے ملے بیٹے نے باپ کو اپنی کرسی پر بٹھایا باپ نے مغزیات والا لڈو کا ڈبہ بیٹے کی طرف بڑھایا اور بیٹے نے اسے لے کر اپنے سامنے میز پر رکھ دیا باپ کھڑے ہو کر بیٹے کے کاندھے پر اپنا ہاتھ رکھ کر جہاں بہت ساری باتیں کرتا ہے وہیں ایک بات پوچھتا ہے کہ بیٹا بتاؤ اس وقت تمہاری نظروں میں سب سے بڑا آدمی کون ہے تو بیٹا جواب دیتا ہے کہ اس وقت سب سے بڑا آدمی میں ہوں،، یہ سنتے ہی باپ کے پیروں تلے زمین کھسک گئی اور چہرہ اداس ہوگیا اور میاں بیوی کے درمیان ہونے والی گفتگو کی بنیاد پر تصورات کی دنیا میں کھوگیا کہ میں کیا سوچ رہا تھا اور کیا جواب ملا لگتا ہے اس کا نظریہ بدل گیا ہے اس کی نظروں میں اب ہماری کوئی حیثیت نہیں ہے یہ سب سوچتے ہوئے بیٹے کے کاندھے سے اپنا ہاتھ ہٹاتا ہے اور کہتاہے کہ بیٹا میں اب چل رہا ہوں تم بہت بڑے آدمی ہو گئے ہو ہاں وہ لڈو ضرور کھالینا جو تمہاری ماں نے بنا کر دیا ہے ادھر بیٹا بھی گہری سوچ میں ہے بابا کو کیا ہوگیا ہے ابھی اتنے خوش تھے اور اچانک غمگین ہوگئے اور جانے بھی لگے ،، دروازے پر کھڑے ہو کر ایک بار پھر باپ نے پوچھا کہ اچھا ایک بار اور بتاؤ بیٹا تمہاری نظروں میں سب سے بڑا آدمی کون ہے تو بیٹے نے جواب دیا کہ میری نظروں میں سب سے بڑا آدمی جو ہے بابا وہ آپ ہیں ،، باپ پھر پوچھتا ہے کہ ابھی تو تھوڑی دیر پہلے تم خود کو سب سے بڑا آدمی کہہ رہے تھے اور اب مجھے سب سے بڑا آدمی کہہ رہے ہو آخر ماجرا کیا ہے ؟
بیٹا کہتا ہے کہ ائے میرے بابا آپ کے ہاتھوں میں چھالے پڑے تاکہ میرا مستقبل روشن ہو، آپ کے ہاتھوں نے پتھر توڑے، مزدوری کی، بوجھ اٹھائے، آپ کے ہاتھوں نے قرض لئے، آپ کا ہاتھ بارگاہ خداوندی میں اٹھا تاکہ میرا مستقبل روشن ہو اور وہی ہاتھ میرے کاندھے پر تھا اور آپ پوچھ رہے تھے کہ بتاؤ اس وقت تمہاری نظروں میں سب سے بڑا آدمی کون ہے تو میری نظریں میرے کاندھے پر رکھے ہوئے آپ کے ہاتھوں پر پڑی تو میں نے جواب دیا کہ سب سے بڑا آدمی میں ہوں اس لئے کہ میرے کاندھے پر میرے مشفق و مہربان باپ کا ہاتھ ہے اور جب آپ دروازے پر کھڑے ہو کر دوبارہ وہی سوال کررہے ہیں تو میرے کاندھے پر وہ ہاتھ نہیں ہے تو میں نے جواب دیا کہ میری نظروں میں سب سے بڑے آدمی بابا آپ ہیں ،، ائے میرے بابا آج میرا جو بھی جلوہ ہے وہ سب کچھ آپ کی دعاؤں اور آپ کی محنتوں و مشقتوں کی بدولت ہے اللہ کرے کہ یوں ہی آپ کی دعا میرے ساتھ رہے اور آپ کا سایہ میرے سرپر رہے –