شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

✍️ عبدالغنی قاسمی

_______________

میں سمجھتا ہوں کہ ملکی یا صوبائی سیاست میں ہم بحیثیت قوم ایسی مختلف کشتیوں پر سوار ہیں جو بھنور میں پنھسی ہوئی ہیں ، جن کے ملّاح نہ تو اتنے ماہر اور سمجھدار ہیں کہ ان کشتی سواروں کو بھنور کے خوف سے نکال سکیں اور نہ ہی ان ملّاحوں کو اس بات کی کوئی پرواہ ہے ، اور حال یہ ہے کہ بھنور میں پنھسے کشتی سواروں میں بھی اتنی سمجھ نہیں کہ متحد ہو کر ہاتھ پاؤں مار کر ہی سہی کسی بھی طرح خود کو بھنور کی چپیٹ سے بچانے کے لیے کوئی تدبیر کرسکے __جبکہ بادِ مخالف کی تند و تیز ہواؤں کے جھونکے ، وقفہ وقفہ سے قہر بن کر اٹھتی ہوئی موجوں کی روانی قریب ہے کہ ان سب کشتی سواروں کو ڈبودے ۔

اسی لئے منزل تک پہنچنا ہے تو ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کی کشتی پر بیٹھنے کے بجائے کسی ایک اور صحیح کشتی کا انتخاب کیجئے اور ساتھ ہی کشتی سوار کیلئے صحیح معنی میں ہمدردی و غمخواری کا جذبہ رکھنے اور ملّاحی میں مہارت رکھنے والے افراد کو ہی ملّاحی کی ذمہ داری سونپیے ! ورنہ اس قوم کو ڈوبنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔

غرق کر دیتی ہے کشتی ، ناخدا کی بے خودی
چھوڑ دے وہ مے کدہ ، ساقی جہاں مدہوش ہے
کہہ رہا ہے شورِ دریا سے____سمندر کا سکوت
جس کا جتنا ظرف ہے ، اتنا ہی وہ خاموش ہے

اور بقول چاند اکبر آبادی

ایرے غیرے نتھو خیرے پڑھ رہے ہیں چہرے اب
چہرے چہرے نہ ہوئے_______گویا رسالے ہو گئے

داغ سورج کی حکومت پر بھی کچھ تو لگ گیا
کچھ اجالے جب___: اندھیروں کے نوالے ہو گئے

آئنوں پر______ پتھروں کے قتل کا الزام کیوں
آئنے آئینے نہ ہوں _______ جیسے بھالے ہو گئے

دیکھ لیتے تم بھی اپنے اس زمیں کے چاندؔ کو
اتنی جلدی ____ آسماں کے کیوں حوالے ہو گئے
_________________________

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔