کیوں کہ ہماری زندگی کا مقصد،تو صرف اللہ کی عبادت ہے!!
کیوں کہ ہماری زندگی کا مقصد،تو صرف اللہ کی عبادت ہے!!
از:-: انوارالحق قاسمی
ترجمان جمعیت علماء روتہٹ نیپال
______________________
یہ ہم سب جانتے ہیں کہ ہماری زندگی کا اصل مقصد مال ودولت نہیں ہے؛بل کہ ہماری زندگی کی حقیقی غایت خدائے واحد کی ان کے منشا و مراد کے مطابق عبادت اور پرستش ہے اور مال و منال سے مقصود تو بس عبادت میں یکسوئی اور عدمِ خلل ہے؛کیوں کہ اس کے بغیر تو دل و دماغ الجھنوں کے شکار ہوتے ہیں۔
اور انسانی زندگی کو دنیاوی پٹری پر چلانے،انسانی جسم میں جان بر قرار رکھنے اور دیگر دنیاوی ضروریات کی انجام دہی کی خاطر ضرورت پڑتی ہے ‘معاش ‘ کی ۔ کیوں کہ معاش کے بغیر انسانی جسم میں جان کا باقی رہنا ایک امر متعذر ہے،اسی لیے شریعتِ اسلام نے کسبِ معاش پر خصوصی توجہ دیتے ہوئے حلال رزق تلاش کرنے کو ضروری قرار دیاہے؛چناں چہ حضرت انس بن مالک- رضی اللہ عنہ- سے منقول ہے کہ نبی کریم- صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے۔ (المعجم الاوسط للطبرانی:8610۔
اسی طرح حضرت عبد اللہ بن مسعود- رضی اللہ عنہ- سے مروی ہے کہ نبی کریم- صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا کہ حلال مال کا طلب کرنا(اصل) فرائض کے بعد فرض ہے۔ (المعجم الکبیر للطبرانی: 9993)۔حضرت ابو سعید خدری- رضی اللہ عنہ -حضورِ اقدس- صلی اللہ علیہ وسلم- سے نقل کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ جس آدمی نے بھی حلال مال کماکر خود اپنے کھانے اور پہننے میں خرچ کیا یا اپنے علاوہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کسی دوسرے کو کھلایا یا پہنایا تو یہ بھی اُس کے لیے صدقہ ہوگا۔(صحیح ابن حبان:4236)
اور حضرت مقدام بن معدی کرب- رضی اللہ عنہ -سے مروی ہے کہ نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ارشاد فرمایا کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے بہتر کھانا کسی نے نہیں کھایا اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داوٴد -علیہ السلام- اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔(صحیح بخاری:2072)۔
تو اپنے ہاتھوں کی محنت سے رزق حاصل کرنا،یہ انتہائی مبارک عمل ہے اور بہترین روزی وہی ہے جو خود کی محنت سے حاصل کیا جائے ۔ اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ کسب حلال کے لیے اگر دستی محنت کی ضرورت پڑے،تو دستی محنت بھی کرے ؛مگر رزق حلال ہی سے اپنا اور اپنے اہل وعیال کاشکم بھری کے ساتھ دیگر ضروریات کا بھی بندوبست کرے اور رزق حرام سے خود کی اور اپنے اہل وعیال کی حفاظت کرے ،کیوں کہ جب لقمہ حلال انسان کے پیٹ میں جاتاہے تواس سے خیر کے امور صادر ہوتے ہیں،بھلائیاں پھیلتی ہیں،وہ نیکیوں کی اشاعت کا سبب بنتاہے۔ اس کے برعکس حرام غذا انسانی جسم کو معطل کردیتی ہے۔نور ایمانی بجھ جاتاہے،دل کی دنیا ویران وبنجر ہوجاتی ہے۔شیطان اس کے قلب پر قابض ہوجاتاہے۔ پھرایسا شخص معاشرے کے لیے موذی جانور بن جاتاہے۔ جس منہ کو حرام کی لت لگی ہو، اس سے بھلا امور خیر کیسے اور کیوں کر انجام پاسکتے ہیں۔
یہی وجہ ہے حرام وخبیث کو جزو بدن بنانے والا ،اللہ تعالیٰ کے ہاں مردود ومطرودٹھہرتاہے: حضرت ابن عباس- رضی اللہ عنہ- سے روایت ہے ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے یہ آیت (یا ایھا الناس کلوا الخ) اللہ کے حبیب -علیہ السلام -کے روبرو تلاوت کی۔ حضرت سعد بن ابی وقاص+ رضی اللہ عنہ -کھڑے ہوئے اورفرمایا :”یا رسول اللہ! میرے لیے اللہ تعالیٰ سے مستجاب الدعوات بننے کی دعا فرمادیں۔“آپ علیہ السلام نے فرمایا :” اے سعد!اپنا کھانا پاکیزہ اورحلال رکھو۔ تم مستجاب الدعوات بن جاؤ گے۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہٴ قدرت میں محمد کی جان ہے! حقیقت یہ ہے کہ جو آدمی اپنے پیٹ میں حرام کا لقمہ ڈالتاہے تو چالیس دن تک اس کی عبادات قبول نہیں کی جاتیں۔ جس بندے کی نشو ونما حرام اور سود کے مال سے ہوئی ہو ،جہنم کی آگ اس کے زیادہ لائق ہے۔“(ابن کثیر:1/267)۔ایک دوسری حدیث مبارکہ میں، جو حضرت ابوہریرہ سے مروی ہے ، جناب نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے مال حرام کی قباحت وشناعت کو اس انداز میں ذکر فرمایا:”بے شک اللہ تعالی پاک ہیں اور پاکیزہ مال ہی قبول فرماتے ہیں۔ اور اللہ رب العالمین ( اپنے) مومن بندوں کو بھی اسی چیز کا حکم دیتے ہیں ،جس کا حکم اپنے پیغمبروں کو دیا۔ پھر آپ- علیہ السلام- نے قرآن مجید کی یہ آیات تلاوت فرمائیں: یا ایھا الرسل کلوا من الطیبات واعملوا صالحا( اے رسولو! پاکیزہ اورحلال چیزیں کھاؤ اورنیک عمل کرو)․․․․ یا ایھا الذین امنوا کلوا من الطیبات ما رزقنکم (اے اہل ایمان! جو رزق ہم نے تمہیں دیاہے ، اس میں سے پاکیزہ اشیاء کھاؤ)۔
اس کے بعد جناب رسول اللہ- صلی اللہ علیہ وسلم- نے ایک ایسے آدمی کا تذکرہ فرمایا جو لمبے سفر میں پراگندہ حال اورغبار آلود (ہوتا)ہے۔اور وہ آسمان کی طرف ہاتھ اٹھاکر دعامانگتے ہوئے کہہ رہاہو”اے میرے رب! اے میرے رب!“جب کہ (حقیقت حال یہ ہو کہ ) اس کا کھانا، پینااوراوڑھنا (سب) حرام ہے۔اورحرام کی غذا اسے مل رہی ہو،سو اس حالت میں اس کی دعائیں کیسے قبول ہوسکتی ہیں؟“( مشکوٰة:241)۔
اب ہمارا (یعنی کسب حلال کی فضیلت اور مال حرام کی مذمت جاننے کے بعد)یہ عمل چاہیے کہ ہم اپنی ہر ضرورت حلال مال سے ہی پوری کریں اور حرام مال سے بچنے کو اپنے لیے لابدی قرار دیں اور مال ودولت کو بس ایک زندگی کی ضرورت سمجھیں! مقصد نہیں ؛کیوں کہ ہماری زندگی کا مقصد،تو صرف اللہ کی عبادت ہے۔اس لیے اللہ کی عبادت پر خاصی توجہ دیں،اسی میں ہمارے لیے دین و دنیا کی کامیابیاں ہیں۔