از:- ڈاکٹرظفرالاسلام خان
ناظم دارالمصنفین شبلی اکیڈمی، اعظم گڑھ
’’ اردو ادب ‘‘سہ ماہی (شمارہ جولائی-دسمبر۲۰۲۵) میں صدف فاطمہ کا مضمون ”دینی مدارس کے فارغین اور یونیورسٹی کے نظام میں اردو درس وتدریس“ شائع ہوا ہے۔ اس کا ایک ورژن انقلاب دہلی (یکم جون ۲۰۲۵ ) میں بھی شائع ہوا ہے۔ عنوان کے لحاظ سے اس مضمون میں دینی مدارس کے فارغین کے ہندوستانی یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں میں داخلے اور اس کے فوائد و نقصانات پر بحث کرنا مقصود تھا لیکن اس مضمون میں آدھے سے زیادہ جگہ غیرمتعلق باتوں کو دی گئی ہے مثلا مختلف عالمی زبانوں کے آداب،” ادبی کلچر“، ”اردو ادب کا خلقیہ“ (معلوم نہیں ’’ خلقیہ‘‘ کیا چیز ہے؟)، ”اردو کلچر“،امراء کا تہذیب سیکھنے کے لئے اپنے بچوں کو طوائفوں کے پاس بھیجنے کا مزعومہ، زمیندارانہ نظام، اشراف کی مریضانہ زندگی، لکھنوی کلچر، کائستھوں کا ظاہرہ، جھوٹا دعوی کہ عربی اور فارسی کے نوّے فیصد الفاظ کے تلفظ اور معنی اردو میں بدل گئے ہیں، دعوی کہ اردو کے مستند محاوروں کی سند خواتین سے لی جاتی تھی، دعوی کہ ہندوستان میں پٹھان ابھی بھی اپنے گھروں میں پشتو اور دری وغیرہ بولتے ہیں(میں نے مختلف ایسے علاقوں جیسے بریلی، بارہ بستی اور رام پورسے تحقیق کی تو معلوم ہوا کہ یہ صدفیصد من گھڑت ہے)، جدید ہندی، امریکہ نے ماہرین لسانیات پر قارون کے خزانے کھول دئے(معلوم نہیں یہ کب اور کہاں ہوا؟)، سیدحامد کے اپنے زمانے میں علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے دروازے دینی مدارس کے فارغین کے لئے کھولنے کو مراداباد فساد سے جوڑا گیا ہے اور سید حامد کو ”اندراگاندھی کے قریب ترین لوگوں شمار ہوتے تھے“ بتایا ہے جو ایک انکشاف ہے، سیدحامد کے اس فیصلے کو سیاسی مقاصد سے تعلیم کے میدان میں کیا گیا فیصلہ بتایا گیا ہے (کس ملک میں تعلیم سیاست سے الگ ہے؟) اور اس کو ”نہایت منفی اور دور رس تخریبی نتائج کا حامل“ بتایا گیا ہے (اس کی کوئی دلیل نہیں)،دعوی کہ جنرل ضمیرالدین شاہ نے ایک شخص کو (جو انگریزی میں پی ایچ ڈی ہے، بیسیوں کتابوں کا مصنف ہے اور مفکر کی حیثیت رکھتا ہے ) کو ”ایک متنازعہ فیصلے کے ذریعے انگریزی ادب کا براہِ راست پروفیسر بنانے“ کے لئے برج کورس شروع کیا (جو جھوٹ اور بہتان ہے اور براہ راست کسی کو پروفیسر بنانے کی یہ واحد مثال نہیں ہے)، دعوی کہ دینی مدارس کے فارغین اردو ادب سے نابلد ہوتے ہیں، جامعہ اردو کے کورس کی بڑی تعریف کی گئی ہے لیکن اس میں وہ ”سماجی علوم“ کہاں ہیں جن کو مضمون نگار مدارس کے نصاب میں داخل کرنے کی وکالت کر رہی ہیں؟ یہ مشتے از خروارے کچھ نمونے ہیں جو اس چھوٹے سے مضمون میں دیکھنے کو ملے۔
مضمون نگار کے خیال میں اسکولوں میں پڑھائی جانے والی اردو ،یونیورسٹیوں میں بی اے اور ایم اے میں داخلے کے لئے مناسب ہے لیکن ہمارا تجربہ ہے کہ اسکولوں میں اردو پڑھنے والے بچوں کو کچھ اردو نہیں آتی ہے(یہ میرا اپنے بچوں کے ساتھ تجربہ ہے جن کو میں نے ’’اچھے‘‘ اسکولوں سے نکال کر جامعہ اسکول میں ڈالا تھا جہاں اردو بھی پڑھائی جاتی تھی)۔ جس’’ اردو ادب‘‘ کی فاضل مضمون نگار بات کر رہی ہیں وہ اسکولوں میں نہیں پڑھایا جاتا بلکہ کالج اور یونیورسٹی میں پڑھایا جاتا ہے اور اس کو سمجھنا اسکولوں میں اردو پڑھنے والے بچوں کے لئے نا ممکن ہے جبکہ مدارس کے فارغین کے لئے ان کو سمجھنا قطعا مشکل نہیں ہوتا۔
مدارس کے فارغین کے یونیورسٹیوں میں داخلے کا حل مضمون نگار نے ”ایک ، دو اور تین سال“ کا کورس بتایا ہے جس میں مختلف مضامین بالخصوص Humanities اور سوشل سائنس (کیا یہ Humanities میں نہیں ہے؟) کے مضامین شامل ہوں اور یہ بھی تجویز دی ہے کہ اس کے اخراجات یونیورسٹیاں برداشت کریں (موجودہ حالات میں تو یہ بہت دور کی بات ہے ہی،لیکن کیا عام حالات میں بھی ایسا ممکن ہے؟)۔
مضمون میں متعدد الفاظ بہت کھٹکے، مثلا ’’معرّب‘‘ تو سنا اور پڑھا تھا لیکن ’’مفرّس ‘‘پہلی بار دیکھا۔ ٹرینڈاد ]ٹرینیڈاڈ [ اینڈ ٹوبیکو (انگریزی میں بھی Tobacco ہی لکھا گیا ہے!)۔ یہ کس ملک کا نام ہے مجھے نہیں معلوم۔ شاید وہاں تمباکو بہت پیدا ہوتاہو گا! ایک لفظ ”اونرس“(!!) بھی نظر کو کھٹکا جس کو ہم اردو میں آجتک ”آنرز“ کی شکل میں لکھا ہوا دیکھتے تھے، اب یہ نئی شکل سامنے آئی ہے۔ شائد اس کے پیچھے بھی کوئی بڑا ادبی و تحقیقی راز ہو گا۔
مضمون کے پیچھے دراصل مدارس عربیہ اور ان کے فارغین سے الرجی چھپی ہوئی ہے۔ مضمون نگار اور ان کے منٹر (گرو) یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں کہ مدرسوں کی وجہ سے ہی آج ہندوستان میں اردو زندہ ہے۔ اسی کے فارغین اردو لکھتے، پڑھتے اور بولتے ہیں۔ ان کے علاوہ اردو والے تو زیادہ سے زیادہ صرف اردو بول لیتے ہیں جبکہ ان کا ساراکام درحقیقت انگریزی، ہندی یا دوسری علاقائی زبانوں میں ہوتا ہے۔ آج اردو کی مطبوعات پڑھنے اور خریدنے والے مدرسہ کے فارغین ہی ہیں۔ وہ نہ ہوتے تو سارے اردو اشاعتی ادارے اور مجلات بند ہو جاتے۔دوسرے اردو والے چاہے وہ اکیڈمیوں میں ہوں یا انجمنوں میں یا یونیورسٹیوں کے شعبہ ہائے اردو میں، وہ اردو کے نام پر روزی ضرور کما رہے ہیں لیکن وہ اردو کا حق ادا نہیں کر رہے ہیں بلکہ وہ اردو کی کتابیں اور مجلات بھی خرید کر نہیں پڑھتے ہیں۔
مضمون میں یہ افسانہ بھی دہرایا گیا ہے کہ مدرسے کے فارغین اردو کی خدمت نہیں کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اردو صحافت، تحقیق، ادب، شعر، ترجمہ،تدریس وغیرہ مدارس کے فارغین کے ہی دم سے باقی ہے۔پرانے علماء کو چھوڑ دیں، میں یہاں صرف چند معاصر نام گناؤں گا جن کے بدولت آج اردو زندہ ہے: حقانی القاسمی، الطاف احمد اعظمی، وارث مظہری، پروفیسر ابو بکر عباد، قاضی جمال قاسمی، پروفیسر خواجہ اکرام الدین، پروفیسر شہاب ظفر اعظمی، عمیر منظر ، ڈاکٹر مشتاق تجاروی ، رضی الاسلام ندوی، عنایت اللہ سبحانی ، پروفیسر شمس کمال، عمیر الصدیق ندوی، علیم اشرف جائسی، عطاء الرحمن قاسمی وغیرہ وغیرہ۔۔۔ لسٹ بڑی لمبی ہے۔
ایک آخری بات: مدرسوں کے فارغین کے براہ راست یونیورسٹیوں کے اردو شعبوں میں داخلے کی اتنی سخت مخالف مضمون نگار صاحبہ خود ایک مدرسے کی فارغ ہیں اور فراغت کے بعد انھوں نے وہی راستہ اپنایا ہے جس کی وہ شد و مد سے مخالفت کر رہی ہیں! یاللعجب!
(ختم)