مولانا مفتی محمد اعظم ندوی
ہماری زندگی فتنوں، خواہشات، آزمائشوں اور مجاہدات کا ایک ایسا دائرہ ہے جس سے کوئی فرد بشر باہر نہیں، دل کی گہرائیوں میں چھپی ہوئی نفسانی خواہشات کی آگ جب بھڑکتی ہے تو انسان اپنے آپ سے ہی برسرِ پیکار ہو جاتا ہے، اور اس آتش سوزاں میں جھلس جاتا ہے، یہ معرکہ باہر نہیں، انسان کے اندرون میں بپا ہوتا ہے؛ ایک خاموش مگر شدید جنگ، نفس کی شورش، خواہشات کا شور اور شیطان کی سرگوشیاں جب ایک ساتھ حملہ آور ہوتی ہیں تو بہت سے لوگ اس میدان میں شکست کھا جاتے ہیں، اور کامیاب ہونے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر رہ جاتی ہے، لیکن جو اس جنگ میں سرخرو ہو جاتا ہے، اسے صرف فتح نہیں ملتی، بلکہ زندگی کا حسن بھی اسی کے قدم چومتا ہے، وہ اپنے وقار واعتبار کی حفاظت کرتا ہے، عزت وناموس کو آلودگیوں سے بچاتا ہے، نفس کی پاکیزگی اسے جسمانی راحت بخشتی ہے، دل کو قوت اور روح کو اطمینان عطا کرتی ہے، ایمان کی بشاشت اسے سرشار رکھتی ہے، سینہ روشن ہو جاتا ہے، فکر وغم اور حزن وملال کے بادل چھٹ جاتے ہیں، اور اللہ سے اچھی امیدوں کی ایک دنیا آباد ہوجاتی ہے، حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں: "إن للحسنة لنورا في القلب وضياء في الوجه، وسعة في الرزق وقوة في البدن، ومحبة في قلوب الخلق. وإن للسيئة لسوادا في الوجه، وظلمة في القلب، ووهنا في البدن ونقصا في الرزق، وبغضا في قلوب الخلق” (تفسیر ابن القیم، سورۂ شوری: 30) {نیکی دل میں نور، چہرے پر چمک، جسم میں طاقت، رزق میں وسعت اور لوگوں کے دلوں میں محبت پیدا کرتی ہے، جب کہ گناہ چہرے کو سیاہ، دل کو تاریک، ، جسم کو کمزور، رزق کو تنگ کرتا ہے، اور لوگوں کے دلوں میں نفرت کا سبب ہوتا ہے، اور یہ اثرات وہی شخص محسوس کرسکتا ہے جو صاحبِ بصیرت ہو، جو انہیں اپنی ذات میں بھی دیکھتا ہے اور دوسروں میں بھی مشاہدہ کرتا ہے}
اللہ تعالیٰ نے ہمیں شہوات کے خطرے سے خبردار فرمایا ہے، ارشاد ہے: {زُيِّنَ لِلنَّاسِ حُبُّ الشَّهَوَاتِ مِنَ النِّسَاءِ} [آل عمران: 14] یعنی لوگوں کے لیے عورتوں کی محبت اور دیگر خواہشات کو خوشنما بنا دیا گیا ہے، رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا: "مَا تَرَكْتُ بَعْدِي فِتْنَةً أَضَرَّ عَلَى الرِّجَالِ مِنَ النِّسَاءِ ” (میں اپنے بعد مردوں کے لیے عورتوں سے زیادہ نقصان دہ کوئی فتنہ چھوڑ کر نہیں جا رہا ہوں) {بخاری: کتاب النکاح، باب مایتقی من شؤم المرأة، حدیث نمبر: 5096}
اور ایک اور موقع پر فرمایا: "وَاتَّقُوا النِّسَاءَ، فَإِنَّ أَوَّلَ فِتْنَةِ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَانَتْ فِي النِّسَاءِ ” {عورتوں سے بچو، کیونکہ بنی اسرائیل کا پہلا فتنہ عورتوں ہی کے سبب ہوا تھا}، حضرت یحی بن معاذ رازی (م:258ھ) فرماتے ہیں: "من أرضى الجوارح باللذات فقد غرس لنفسه شجر الندامات”{جس نے اپنے اعضا وجوارح کو لذتوں سے راضی کیا، اس نے خود اپنے لیے ندامتوں کا درخت لگا دیا}، کسی صاحب نظر کا قول ہے: "من لم يعلم أن الشهوات فخوخ فهو لعاب” {جو یہ نہیں جانتا کہ خواہشات در اصل پھندے ہیں، وہ کھلنڈرا ہے}۔
لیکن افسوس کہ تاریخ میں کبھی کوئی ایسا دور نہ آیا تھا جس میں خواہشات کو اس قدر تقدیس کا درجہ دیا گیا ہو جتنا کہ آج کے جدید دور میں دیا جا رہا ہے، پہلے خواہشات کو قابو میں رکھنے کا نام تہذیب تھا، آج خواہشات کی پیروی کو ہی تہذیب قرار دیا جا رہا ہے، میڈیا، فیشن، انٹرٹینمنٹ، تعلیم، حتیٰ کہ قانون سازی، ہر میدان میں نفس کو معبود بنانے کی مہم چل رہی ہے، اور "اتباع ھدی” کے بجائے "اتباع ھوی” کی گرم بازاری ہے، جو چیز خواہش نفس کو تسکین دے، وہ حق ہے؛ اور جو چیز اسے روکے، وہ ظلم، انسانیت کی اس سے بڑی ہلاکت اور کیا ہو سکتی ہے کہ وہ اپنے خالق کی وحی کو پس پشت ڈال کر اپنی جبلّت کو رہبر بنا لے، اور پھر اسی کو آزادی، ترقی اور شناخت کا نام دے دے۔
مغربی تہذیب نے خواہشات کو محض فرد کا مسئلہ نہیں رہنے دیا، بلکہ اسے معاشرتی قدر، ثقافتی شناخت، اور آئینی حق بنا دیا، دونوں صنفوں کی فطری ساخت کو رد کرتے ہوئے ‘ایل جی بی ٹی کیو پلس’ (LGBTQ+) جیسے نظریات کو اس شد ومد سے اپنایا گیا کہ اب مرد مرد سے اور عورت عورت سے خواہشات پوری کریں، یہ عین تہذیب ہے، یہاں تک کہ انسان اپنی جنس خود متعین کرنے لگا، جیسے خالق کا فیصلہ نہیں بلکہ انسان کی مرضی اصل معیار ہے، یہ وہ باغیانہ رویہ ہے جو فطرت کی توہین بھی ہے اور عقل کی تحقیر بھی، اور جسے آج روشن خیالی، سائنسی شعور اور انسانی حقوق کا نام دے کر پھیلایا جا رہا ہے، اور دن بدن اس کے خلاف آواز اٹھانا جرم ہوتا جارہا ہے۔
یہ گراوٹ یہیں نہیں رکی، وہ دروازے جو کبھی بند رکھے جاتے تھے، وہ اب نہ صرف کھول دیے گئے بلکہ ان پر قالین بچھا کر دعوت عام دی جا رہی ہے، زوفیلیا Zoophilia یعنی جانوروں سے جنسی تعلق جیسے حیوانی رجحانات، جنہیں پہلے نفسیاتی بیماری سمجھا جاتا تھا، اب کچھ حلقے ان کے لیے بھی قبولیت کی راہیں ہموار کر رہے ہیں، مغرب میں بعض دانشور، فنکار، اور ماہرین نفسیات، "کِنک کلچر” (kink culture) اور "کَنسینشوئل نان-ہَیومن” (Consensual Non-Human) جیسے نظریات کے تحت ان افعال کو "متبادل شناخت” کا حصہ قرار دیتے ہیں، یہ وہ مقام ہے جہاں انسان اپنی انسانیت سے دستبردار ہو کر حیوانیت پر فخر کرنے لگا ہے، جدید دور میں لا جنسیت Asexuality کو بھی ایک شناخت کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے، ایسے افراد خود کو نہ مردوں کی طرف مائل سمجھتے ہیں نہ عورتوں کی طرف، بلکہ ہر طرح کی جنسی کشش سے لاتعلق ہوتے ہیں، مغرب میں اسے جنسی آزادی کی ایک شکل اور "متبادل شناخت” قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ فطرت کی رو سے یہ ایک انحراف ہے۔ اسلام میں جنسی کشش کو نکاح، محبت، اور نسل کی بقا کا ایک فطری ذریعہ مانا گیا ہے، اور اس سے گریز یا بغاوت ایک غیر طبعی رویہ ہے، جسے افتخار کا عنوان نہیں بنایا جا سکتا، کچھ افراد مکمل طور پر جنسی کشش سے خالی ہوتے ہیں، جب کہ بعض کو مخصوص حالات یا جذباتی تعلق کے بعد تھوڑی بہت کشش محسوس ہو سکتی ہے، اسے "demisexual” کہا جاتا ہے۔
اس فکری و اخلاقی زوال کے پس پشت ایک ہی اصول کارفرما ہے کہ نفس جو چاہے، وہی حق ہے، یہ درحقیقت ابلیس کی ایجاد کی ہوئی وہی صدیوں پرانی روش ہے جس میں وہ آدمی کو فطرت سے ہٹا کر خواہشات کے راستے پر لانا چاہتا ہے، تاکہ وہ اپنے رب کا نافرمان اور اپنی جبلّت کا غلام بن جائے، مگر ایک باشعور مومن اس فریب میں نہیں آتا، وہ جانتا ہے کہ خواہشات کا بندہ دراصل عزت، سکون اور نجات سے محروم ہوتا ہے، اور نفس کو قابو میں رکھنے والا ہی دنیا و آخرت کی حقیقی فلاح پاتا ہے۔
یہ معرکہ، جو انسان کے باطن میں ہر لمحہ جاری ہے، محض ایک نفسیاتی کشمکش نہیں بلکہ ایک روحانی جہاد ہے، نفس کی لگام کو آزاد چھوڑ دینا بظاہر آزادی ہے، مگر درحقیقت یہ غلامی کی بدترین صورت ہے۔ مغرب نے جس آزادی کا پرچم اٹھایا ہے، وہ انسان کو انسان نہیں رہنے دیتا؛ وہ اسے فطرت سے بغاوت سکھاتا ہے، اور خواہشات کی غلامی کو زندگی کا منتہا قرار دیتا ہے۔ لیکن ایک مومن جانتا ہے کہ اصل آزادی رب کے حکم کی اطاعت میں ہے، اصل سکون خواہشات کو قابو میں رکھنے میں ہے، اور اصل عزت وہی ہے جو تقویٰ کے سائے میں نصیب ہوتی ہے۔ پس جو اس معرکے میں اپنے نفس پر غالب آ گیا، وہی کامیاب ہے، اور جو اس میں ہار گیا، اس کے لیے دنیا بھی خسارے کی جگہ ہے اور آخرت بھی، یہی وہ فیصلہ کن جنگ ہے جس کے انجام پر انسان کی دائمی قسمت کا دار ومدار ہے، اس لیے یاد رکھنا چاہیے کہ جو اپنے نفس پر غالب آ جاتا ہے، وہی دراصل زمانے پر غالب آتا ہے۔