✍️ محمد ناظم اشرف
دہرہ دون، اتراکھنڈ
بارش ربِ کریم کی عظیم نعمت ہے جس سے مُردہ زمین کو حیاتِ نو اور سرسبز و شادابی کی نعمت میسر ہوتی ہے۔ تالاب، جھیلیں، ندیاں اور دریا پانی سے بھر جاتے ہیں اور سال بھر مخلوقِ ارض کو محظوظ کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ پانی ہی سے زندگی کی بقا ہے۔ اگر بارش نہ ہو تو زندگی دشوار ہو جائے اور قحط و خشک سالی کی وجہ سے جان لبوں تک آجائے۔ اسی لیے بارش کے لیے جو دعا سکھلائی گئی ہے اس میں یہ پیغام بھی ہے کہ بارش نفع بخش ہو اور ضرورت کے مطابق ہو تاکہ خوش حالی باقی رہے۔
اگر بارش ضرورت سے زیادہ ہوگی تو وبالِ جان بن جائے گی۔ ندیاں اور نالے سیلاب کی صورت اختیار کر لیں گے، لہلہاتے کھیت اجڑ جائیں گے اور زندگی سخت ہو جائے گی۔
اسی طرح اگر بارش وقت پر نہ ہوگی تو اناج، پھل، سبزیاں اور دوسری ضرورت کی اشیاء کو اگانا مشکل ہو جائے گا اور عام زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔
اسی لیے بارش کے موقع پر پڑھی جانے والی دعاؤں میں یہ الفاظ سکھلائے گئے ہیں کہ:
"اللهم اسقنا غيثاً مغيثاً مريئاً مريعاً نافعاً غير ضار عاجلاً غير آجل”
یعنی: بارش نفع بخش ہو، نقصان دہ نہ ہو، بروقت ہو اور بے وقت نہ ہو۔ لہٰذا بارش ایک عظیم نعمت ہے۔
لیکن افسوس! موسمِ برسات کے ساتھ ساتھ ہماری بد اخلاقیاں بھی سامنے آ جاتی ہیں۔ گلی کوچوں میں کچرا پھینک دینا، نالیوں کو بند کر دینا، سڑکوں پر پانی چھوڑ دینا اور گاڑیوں سے چھینٹے اڑانا عام بات ہو گئی ہے۔ اکثر دیکھا جاتا ہے کہ نمازی مسجد جا رہے ہوتے ہیں تو کوئی گاڑی والا تیز رفتاری میں چھینٹے مار کر ان کے کپڑے خراب کر دیتا ہے، یا اسکول و آفس جانے والوں کی ڈریس گندی کر دیتا ہے۔ یہ حرکتیں نہ صرف بد اخلاقی ہیں بلکہ دوسروں کے لیے اذیت کا باعث بھی ہیں۔
بارش کے دنوں میں اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ہم دوسروں کو تکلیف نہ پہنچائیں، گندگی کو راستوں میں نہ ڈالیں، مریضوں، بچوں اور بزرگوں کا خیال رکھیں اور اللہ کی اس نعمت پر شکر ادا کریں نہ کہ اپنی بد اخلاقیوں سے اس عظیم نعمت کو عوام الناس کے لئے زحمت کا باعث بنا دیں