سوشل میڈیا کے کاغذی شیر

از:- معصوم مرادآبادی

ہندوستانی مسلمان اس وقت اپنی تاریخ کے سب سے نازک دور سے گزر رہے ہیں۔ فسطائی طاقتیں انھیں نرم چارہ بنانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہیں۔ایسے میں انھیں محتاط اور غیرجذباتی لائحہ عمل تیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔جب بھی مسلمانوں سے متعلق کوئی معاملہ سامنے آتا ہے تو فسطائی طاقتیں اپنے خفیہ ایجنڈے کے ساتھ سرگرم عمل ہوجاتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے وہ عناصر بھی سرگرم ہوجاتے ہیں جو درحقیقت ان ہی فسطائی عناصر کے آلہ کار ہوتے ہیں۔ عام مسلمان ان کے ناموں سے دھوکہ کھاکر انھیں اپنا ہمدرد سمجھنے لگتے ہیں۔حالانکہ یہ ان کے بدترین دشمن ہوتے ہیں۔ان کا سب سے بڑا آلہ سوشل میڈیا ہے۔ واٹس ایپ کے مختلف اور متنازعہ گروپوں کے علاوہ فیس بک، انسٹا گرام اور ایکس ان کے خاص میدان ہیں۔جیسے ہی کوئی معاملہ سامنے آتا ہے یہ مسلمانوں کو ورغلانے کی کوششیں شروع کردیتے ہیں۔ان کا خاص نشانہ سنجیدہ مسلم قائدین، دوراندیش صحافی اور دانشور ہوتے ہیں۔ان میں سے اگر کوئی بھی سوجھ بوجھ کی بات کرتا ہے یا مسلمانوں کو صبر وتحمل سے کام لینے کی اپیل کرتا ہے تو یہ عناصر فوراً اس کی کردار کشی شروع کردیتے ہیں اور سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کا آغاز ہوجاتا ہے تاکہ بگڑے ہوئے حالات میں مسلمان ہوش مندی سے کام نہ لیں۔

اسلام خود کو ہلاکت میں ڈالنے کی ہرگز اجازت نہیں دیتا۔ اسلام اور مسلم دشمن طاقتیں ملک میں آئے دن ایسے تنازعات کو ہوا دیتی رہتی ہیں جن کے فریب میں گرفتار ہوکر مسلمان سڑکوں پر نکلیں اور پولیس وانتظامیہ کی زد پر آئیں۔ وہ گولیوں کا نشانہ بنیں اور ان کے گھر وں پر بلڈوزر چلیں۔ جمہوریت میں کسی بھی مسئلہ پر پرامن احتجاج ہر شہری کا فرض ہے۔جمہوری نظام ہمیں اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ہم اپنے بنیادی حقوق کے لیے لڑیں اور آخری وقت تک لڑتے رہیں، لیکن اپنے جان ومال کو محفوظ رکھنے کے لیے مصلحت کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا ضروری ہے۔ عام طورپر یہ دیکھا گیا ہے کہ جو عناصر کسی بھی مسئلہ میں مسلمانوں کو بھڑکانے اور مشتعل کرنے یا مسلم قائدین سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں ان کے تانے بانے مسلم دشمن طاقتوں سے ملے ہوتے ہیں۔ وہ مسلمانوں جیسے نام رکھ کر ہمارے درمیان آتے ہیں اور ان میں سے اکثر فرضی اکاؤنٹس کے ذریعہ سوشل میڈیا پر سرگرم ہوتے ہیں۔ ان کی سب سے بڑی پہچان یہ ہے کہ یہ صرف کاغذی شیروں کی طرح کام کرتے ہیں اور جہاں کہیں مسلمانوں پر مصیبت نازل ہوتی ہے ،وہاں دور دور تک ان کا اتہ پتہ نہیں ہوتا۔اس سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ محض مسلمانوں کو مشتعل کرنے کے لیے ہی سرگرم ہوئے تھے اور وقت پڑنے پر اپنے بلوں میں چھپ جاتے ہیں۔مسلمانوں کے زخموں پرمرہم رکھنے کا کام وہی مسلم قائدین اور جماعتیں کرتی ہیں جن کی کردار کشی کا کام سوشل میڈیا کے یہی کاغذی شیر ہمہ وقت کرتے رہتے ہیں۔مسلمانوں جیسے نام رکھنے والے ان مشکوک اور مشتبہ عناصر سے مسلمانوں کو بہرحال ہوشیار رہنا چاہئے تاکہ وہ ان کا استحصال نہ کرسکیں۔اس مرحلے میں مسلم قیادت کو بھی ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا چاہیے ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔