از:- محمد فداء المصطفےٰ قادری
ہندوستان کا موجودہ سیاسی منظرنامہ کسی المیے سے کم نہیں۔ گزشتہ برسوں میں جو کچھ ہوا ہے اس نے جمہوریت کے چہرے پر کئی سوالیہ نشان لگا دیے ہیں۔ اقلیتیں، خصوصاً مسلمان، ایک مسلسل دباؤ کے شکار ہیں۔ ایسے وقت میں جب معاشرہ تعلیم، صحت اور روزگار جیسے بنیادی مسائل پر گفتگو کا متقاضی ہے، وہیں دوسری طرف مخصوص طاقتیں نفرت اور فرقہ واریت کو ہوا دے رہی ہیں۔ ان حالات میں اگر کسی بڑے مذہبی یا سماجی رہنما کو گرفتار کیا جاتا ہے تو یہ محض ایک انتظامی کارروائی نہیں بلکہ ایک سیاسی پیغام بھی ہوتا ہے۔ مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری اسی زنجیر کی تازہ کڑی ہے جس میں پہلے بھی کئی اقلیتی رہنماؤں کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
اس گرفتاری کا پس منظر نہایت حساس ہے۔ بریلی ہمیشہ سے ایک ایسا شہر رہا ہے جس کی مذہبی، علمی اور سماجی شناخت پورے ملک میں تسلیم شدہ ہے۔ یہاں سے اٹھنے والی آوازیں ملک کے کروڑوں مسلمانوں تک پہنچتی ہیں۔ ایسے میں مولانا توقیر رضا خان جیسے رہنما کی گرفتاری صرف ایک شہر یا ایک حلقے تک محدود نہیں بلکہ پوری ملت کے دل کو چوٹ پہنچانے کے مترادف ہے۔ یہ گرفتاری ایک علامت ہے کہ اختلافِ رائے کی گنجائش سمٹتی جا رہی ہے اور جو بھی ملت کے مسائل پر کھل کر بات کرے گا، اسے خاموش کرانے کی کوشش کی جائے گی۔ اس کے نتیجے میں ملت کے اندر ایک اضطراب پیدا ہونا فطری ہے۔ لوگ سوچنے پر مجبور ہیں کہ آخر یہ سلسلہ کہاں جا کر رکے گا؟ کیا قیادت کی آوازیں اسی طرح دبتی رہیں گی؟ اور کیا ملت کے جذبات کو بار بار للکارنے کا کوئی انجام نہیں ہوگا؟ یہ سوالات اس وقت ہر حساس دل کے اندر گردش کر رہے ہیں۔ مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری نے نہ صرف ایک فرد کی آزادی چھینی ہے بلکہ مسلمانوں کے اجتماعی شعور کو بھی جھنجھوڑ کر رکھ دیا ہے۔
مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری محض ایک قانونی کارروائی نہیں بلکہ اس کے اندر کئی تہہ در تہہ پیغامات پوشیدہ ہیں۔ سماجی سطح پر یہ گرفتاری اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ ملک میں اقلیتوں کو اب بھی شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ جب ایک معروف اور ذمہ دار قیادت رکھنے والی شخصیت کو اچانک نشانہ بنایا جاتا ہے تو اس کے اثرات صرف اس کے ماننے والوں پر نہیں پڑتے بلکہ عام شہری بھی غیر محفوظ محسوس کرنے لگتے ہیں۔ معاشرے میں یہ تاثر پھیلنا شروع ہو جاتا ہے کہ کسی کے ساتھ بھی انصاف نہیں ہوگا، طاقت جس کے ہاتھ میں ہے وہی اپنی مرضی کا فیصلہ نافذ کرے گا۔ اس طرح کا ماحول کسی بھی جمہوری ملک کے لیے زہرِ قاتل ہے کیونکہ اس سے لوگوں کا نظام پر اعتماد ٹوٹتا ہے۔
یہ بھی دیکھیں: مولانا توقیر رضا کی گرفتاری اور ہوگی کی بدزبانی
سیاسی سطح پر اس گرفتاری کا مطلب اور بھی گہرا ہے۔ اقتدار کی کرسی پر بیٹھے ہوئے حلقے ہمیشہ یہ کوشش کرتے ہیں کہ جو بھی ان کے خلاف بولے، اسے خاموش کر دیا جائے۔ لیکن ایک مذہبی رہنما کو گرفتار کرنا اس بات کی علامت ہے کہ سیاسی طاقتیں اب صرف مخالف سیاسی جماعتوں سے نہیں بلکہ سماجی اور مذہبی قیادت سے بھی خوفزدہ ہیں۔ اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ ملت کے اندر جو تھوڑی بہت خود اعتمادی اور اجتماعی آواز باقی تھی، اسے دبانے کی کوشش کی جائے تاکہ مستقبل میں کوئی بھی کھل کر بات نہ کر سکے۔ یہ دراصل طاقت کے ذریعے اختلافِ رائے کو ختم کرنے کی سازش ہے۔ یہ پہلو بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس واقعے نے ملک کی دیگر اقلیتوں کو بھی چونکا دیا ہے۔ جب ایک بڑی برادری کا رہنما اس طرح نشانہ بنایا جاتا ہے تو باقی طبقات بھی سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کل ان کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو سکتا ہے۔ یوں یہ گرفتاری صرف مسلمانوں کا مسئلہ نہیں رہتی بلکہ پورے ملک کی جمہوریت اور آئین کی سا لمیت کا سوال بن جاتی ہے۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے سنجیدگی کے ساتھ سمجھنے کی ضرورت ہے، ورنہ ایک دن یہ زنجیر سب کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی۔
مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری کی خبر جونہی عام ہوئی، فضا میں ایک عجیب سا سکوت اور پھر اچانک ہلچل محسوس کی گئی۔ لوگوں کے دلوں پر ایک ہی لمحے میں چوٹ لگی اور یہ صدمہ زیادہ دیر اندر نہیں رہا۔ بریلی سمیت کئی شہروں میں عوام نے اپنے جذبات کا پرامن اظہار شروع کیا۔ یہ احتجاج کسی وقتی جوش یا اتفاقی ہجوم کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ برسوں سے جمع شدہ بے چینی اور مایوسی کا فطری ردعمل تھا۔ عوام کو لگا کہ اب خاموشی ممکن نہیں، کیونکہ جب قیادت کو ہی خاموش کر دیا جائے تو پھر باقی عوام کے لیے خاموش رہنے کا مطلب اپنی شناخت اور غیرت کو دفن کر دینا ہے۔ یہ احتجاج اپنی نوعیت میں منفرد تھا۔ اس میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک تھی جن کے چہروں پر غصے کے ساتھ ساتھ ایک شعوری عزم بھی دکھائی دیتا تھا۔ خواتین نے بھی اپنے طور پر آواز اٹھائی، دعائیہ اجتماعات کیے اور اپنے دل کی تڑپ کو الفاظ میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ یہ سب اس بات کی علامت تھی کہ یہ گرفتاری صرف ایک شخص کی گرفتاری نہیں بلکہ پوری ملت کی دل آزاری ہے۔ لوگ سڑکوں پر اترے لیکن زیادہ تر نے یہ کوشش کی کہ احتجاج پرامن رہے تاکہ کوئی بھی مخالف طاقت اس کو بہانہ بنا کر بدنام نہ کر سکے۔
قابل غور بات یہ ہے کہ احتجاج کا دائرہ صرف ایک علاقے یا ایک شہر تک محدود نہیں رہا۔ مختلف ریاستوں میں چھوٹے بڑے اجتماعات دیکھنے کو ملے۔ سوشل میڈیا پر بھی بڑی مہم شروع ہوگئی، جہاں ہزاروں لوگوں نے اپنے جذبات اور مطالبات کا اظہار کیا۔ یہ پہلو خاص طور پر اہم ہے کہ اس بار نوجوان طبقہ صرف احتجاج کرنے پر ہی نہیں رکا بلکہ اس نے تحریروں، ویڈیوز اور آن لائن مباحثوں کے ذریعے اپنی بات کو آگے بڑھایا۔ اس نے یہ ثابت کیا کہ ملت اب صرف سڑکوں پر نعرے لگانے تک محدود نہیں بلکہ فکری اور میڈیا سطح پر بھی اپنے موقف کو پیش کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
ان احتجاجات نے حکومت کو یہ پیغام ضرور دیا کہ مسلمانوں کو دبانا اتنا آسان نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔ ہاں، یہ سچ ہے کہ احتجاجی آوازیں بکھری ہوئی تھیں، ان میں کوئی منظم ڈھانچہ یا قیادت موجود نہیں تھی، لیکن پھر بھی یہ ردعمل ایک جیتا جاگتا ثبوت تھا کہ ملت ابھی زندہ ہے۔ اگر یہ آوازیں کبھی ایک مرکز پر مجتمع ہوگئیں تو ان کا اثر کہیں زیادہ طاقتور ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ ان مظاہروں نے نہ صرف حکومت کو چونکایا بلکہ ملت کے اندر بھی ایک نئی بیداری کو جنم دیا۔
مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری نے صرف عوامی جذبات کو ہی نہیں جھنجھوڑا بلکہ قیادت کے لیے بھی ایک بڑا امتحان کھڑا کر دیا ہے۔ ملت کے سامنے سوال یہ ہے کہ ایسے نازک وقت میں قیادت کا رویہ کیا ہونا چاہیے؟ کیا صرف بیانات کافی ہیں یا عملی حکمتِ عملی اپنانا بھی ضروری ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے مسلمانوں کے ہر طبقے کو سوچنے پر مجبور کر دیا ہے۔ قیادت کے اصل امتحان کا وقت وہی ہوتا ہے جب دباؤ سب سے زیادہ ہو اور خطرات ہر سمت سے منڈلا رہے ہوں۔ یہ بات سب پر عیاں ہے کہ قیادت کا دعویٰ کرنا آسان ہے مگر حالات کے بوجھ تلے اپنے آپ کو ثابت کرنا نہایت مشکل۔ ایسے میں قیادت کو دو بڑے محاذ پر سرگرم رہنا چاہیے: ایک طرف عوام کے جذبات کو سنبھالنا تاکہ معاملہ کسی انارکی یا تشدد کی صورت اختیار نہ کرے، اور دوسری طرف سیاسی و قانونی سطح پر ایسا لائحہ عمل مرتب کرنا جو ملت کے مفاد میں دیرپا نتائج دے۔ اس توازن کو برقرار رکھنا ہی اصل امتحان ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مسلمانوں سے آزاد بھارت بی جے پی کا خواب
مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری نے یہ بھی ظاہر کر دیا کہ ملت کی قیادت ابھی بھی بکھری ہوئی ہے۔ مختلف گروہوں کی ترجیحات الگ الگ ہیں اور یہی تقسیم ملت کو کمزور کر دیتی ہے۔ اب وقت اس بات کا متقاضی ہے کہ قیادت وقتی اختلافات سے بالاتر ہو کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم تیار کرے۔ اگر قیادت اس موقع کو ضائع کر دیتی ہے تو آنے والے وقت میں عوام کے دلوں میں بداعتمادی کی خلیج مزید گہری ہو جائے گی۔ اس صورتحال میں قیادت کا کردار صرف احتجاجی نعروں تک محدود نہیں رہ سکتا۔ اصل ضرورت ہے کہ قیادت سیاسی بصیرت کا مظاہرہ کرے، قانونی ماہرین کے ساتھ رابطہ رکھے، اور میڈیا کے میدان میں بھی اپنی موجودگی کو مؤثر بنائے۔ عوام کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ ان کی رہنمائی کرنے والے صرف وقتی ردعمل نہیں دیتے بلکہ انہیں طویل المدت راستہ بھی دکھاتے ہیں۔ جب عوام یہ دیکھیں گے کہ قیادت ہر پہلو سے متحرک ہے تو ان کا اعتماد مضبوط ہوگا۔
یہ لمحہ ملت کے لیے ایک کڑا مگر سنہری موقع بھی ہے۔ اگر قیادت اپنے امتحان میں کامیاب ہو گئی تو یہ گرفتاری ایک نئی بیداری کا نقطہ آغاز بن سکتی ہے۔ لیکن اگر قیادت نے کمزوری دکھائی تو یہ واقعہ صرف ایک اور زخمی یادگار بن کر رہ جائے گا۔ تاریخ گواہ ہے کہ قومیں اسی وقت زندہ رہتی ہیں جب ان کی قیادت حالات کے طوفان کا مقابلہ حکمت اور جرات دونوں کے ساتھ کرے۔ یہی وقت ہے جب قیادت کو اپنی اصل صلاحیت ثابت کرنی ہے۔ مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری نے ایک بار پھر یہ سوال اٹھا دیا ہے کہ حکومت اور میڈیا کا رویہ اقلیتوں کے حوالے سے کتنا غیر جانبدار ہے۔ جب بھی کوئی حساس معاملہ سامنے آتا ہے تو حکومت کی پالیسی اور میڈیا کی ترجیحات دونوں کھل کر ظاہر ہو جاتی ہیں۔ اس کیس میں بھی یہی ہوا۔ حکومت نے گرفتاری کے فیصلے کو قانون کا تقاضا قرار دیا، مگر عوامی تاثر بالکل مختلف تھا۔ لوگوں کو لگا کہ یہ کارروائی انصاف سے زیادہ طاقت کے مظاہرے کا حصہ ہے۔
حکومت کا رویہ اس پورے واقعے میں قدرے سخت اور غیرمنصفانہ دکھائی دیا۔ ایسے معاملات میں جہاں مذہبی رہنما کی گرفتاری ہو، وہاں ایک ذمہ دارانہ اور شفاف انداز ضروری ہوتا ہے تاکہ کسی طبقے کو یہ محسوس نہ ہو کہ انہیں جان بوجھ کر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ لیکن یہاں حکومت کی زبان اور انداز میں وہ حساسیت دکھائی نہیں دی جو ایسے مواقع پر لازمی ہے۔ اس کے نتیجے میں عوامی بے چینی مزید بڑھ گئی۔ یہ رویہ اس تاثر کو تقویت دیتا ہے کہ طاقتور ہمیشہ اپنی مرضی کے مطابق انصاف کے اصول طے کرتے ہیں۔ میڈیا کا کردار اس سے بھی زیادہ تشویشناک رہا۔ بڑے چینلز نے اس معاملے کو سنسنی خیز انداز میں پیش کیا۔ چند پروگراموں میں مولانا کو متنازع شخصیت کے طور پر دکھایا گیا اور عوامی جذبات کو ”شدت پسندی” کا رنگ دیا گیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا میڈیا کا کام عوامی غصے کو سمجھنا نہیں تھا؟ کیا اسے یہ واضح نہیں کرنا چاہیے تھا کہ یہ ردعمل ایک کمیونٹی کی بے چینی کا نتیجہ ہے نہ کہ کوئی پرتشدد سازش؟ لیکن افسوس کہ ہمارے میڈیا کا بڑا حصہ آج کل خبر کو بیچنے کا ذریعہ سمجھتا ہے، قوم کی آواز بننے کے بجائے۔
یہاں یہ بات بھی اہم ہے کہ کچھ چھوٹے پلیٹ فارمز اور آزاد صحافیوں نے حقیقت کو اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے عوامی مظاہروں کو مثبت رخ دیا اور دکھایا کہ کس طرح لوگ اپنے جذبات کو پرامن انداز میں پیش کر رہے ہیں۔ اس سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ اگرچہ مرکزی میڈیا کا رویہ اکثر جانبدار ہوتا ہے، لیکن اب سوشل میڈیا اور متبادل ذرائع ایک مضبوط پلیٹ فارم بن کر ابھر رہے ہیں۔ مجموعی طور پر دیکھا جائے تو حکومت اور میڈیا دونوں نے وہ توازن نہیں دکھایا جس کی ضرورت تھی۔ حکومت نے سختی کے ذریعے پیغام دینے کی کوشش کی، اور میڈیا نے ریٹنگ کے چکر میں معاملے کو مزید بگاڑ دیا۔ یہ رویہ نہ صرف عوام کے اعتماد کو کمزور کرتا ہے بلکہ معاشرے میں تقسیم کو بھی گہرا کرتا ہے۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت انصاف کے تقاضے اور میڈیا ذمہ داری کا بوجھ اٹھائے، ورنہ ہر ایسے واقعے کے بعد خلیج اور بڑھے گی۔
مولانا توقیر رضا خان کی گرفتاری نہ صرف ایک واقعہ ہے بلکہ ملت کے لیے ایک سنگین مگر ضروری سبق بھی ہے۔ سب سے پہلا اور اہم سبق یہ ہے کہ مسلمانوں کو اپنی اندرونی تقسیم پر قابو پانا ہوگا۔ جب دشمن ملت کو الگ الگ گروہوں میں دیکھتا ہے، تو اسے نشانہ بنانا زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ یہی وقت ہے کہ تمام طبقات، گروہ اور کمیونٹیز اپنے اختلافات کو بھلا کر ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر متحد ہوں۔ دوسرا سبق یہ ہے کہ ملت کو اپنے اداروں کو مضبوط بنانا ہوگا۔ صرف احتجاج کافی نہیں۔ قانونی ٹیمیں، میڈیا چینلز اور تعلیمی ادارے ایسے ہتھیار ہیں جن سے ملت اپنی آواز کو مضبوطی سے بلند کر سکتی ہے۔ اگر آج ایک مربوط اور مضبوط ادارہ موجود ہوتا تو مولانا کی گرفتاری کے بعد عوامی ردعمل زیادہ منظم اور مؤثر ہوتا۔ اس بات سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ مستقبل میں ہر آزمائش کے لیے تیار رہنا انتہائی ضروری ہے۔
تیسرا اور نہایت اہم سبق یہ ہے کہ ملت کو اپنی تعلیم اور فکری قوت کو مستحکم کرنا ہوگا۔ ایک پڑھی لکھی اور معلوماتی قوم اپنی رائے کو دلیل اور تحقیق کی بنیاد پر پیش کرتی ہے اور دشمن کے پروپیگنڈے کو ناکام بنا سکتی ہے۔ آج کی نوجوان نسل کو بھی اس معاملے میں تربیت دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ اپنی کمیونٹی کی نمائندگی نہ صرف سڑکوں پر بلکہ علمی، قانونی اور میڈیا سطح پر بھی کر سکے۔چوتھا سبق یہ ہے کہ جذباتی ردعمل سے زیادہ حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ دشمن یہی چاہتا ہے کہ مسلمان جذبات میں آ کر ایسا کام کریں جس سے وہ بعد میں برائی کا لیبل لگا سکیں۔ اس لیے احتجاج کے ساتھ ساتھ منظم اور سنجیدہ حکمت عملی اپنانا لازمی ہے۔ قیادت اور عوام دونوں کو سمجھنا ہوگا کہ صبر اور حکمت کے بغیر طاقتور عناصر کا مقابلہ ممکن نہیں۔ پانچواں سبق یہ ہے کہ نئی قیادت کو ابھرنے دینا ہوگا۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ نئے چیلنجز بھی سامنے آئے ہیں، اور قیادت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا ہوگا۔ عالمی سطح پر رابطے، میڈیا ہنر، قانونی معلومات اور سیاسی بصیرت اب لازمی ضروریات ہیں۔ اسی کے ساتھ ملت کو اپنی اجتماعی خود اعتمادی کو بھی بحال کرنا ہوگا تاکہ ہر آزمائش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جا سکے۔
آخری اور سب سے اہم سبق یہ ہے کہ یہ گرفتاری ایک موقع بھی ہے۔ اگر ملت نے اس موقع سے صحیح سبق سیکھا، اپنی کمزوریوں کو دور کیا اور مستقبل کے لیے منصوبہ بندی کی تو یہ واقعہ ایک نئی تحریک اور بیداری کا آغاز بن سکتا ہے۔ لیکن اگر اس موقع کو ضائع کیا گیا تو یہ صرف ایک اور زخم اور یادگار بن کر رہ جائے گا۔لہٰذا ملت کے لیے اب وقت ہے کہ وہ اپنے ادارے مضبوط کرے، قیادت کو سنجیدگی سے اپنا کردار ادا کرنے دے، اور ایک منظم اور متحدہ حکمت عملی کے تحت مستقبل کی تیاریاں کرے۔ یہی راستہ ہے جو نہ صرف موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کر سکتا ہے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے بھی رہنمائی فراہم کرے گا۔