سر سید احمد خاں ایک شخصیت ساز مصلح

از:- محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ

ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا

سر سید احمد خان برصغیر کے ان عظیم مفکرین میں سے تھے، جنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کے زوال کا گہرا ادراک کیا،بلکہ عملی طور پر اصلاحِ احوال کی بھرپور کوشش بھی کی۔
سر سید احمد خان کی تعلیمی خدمات اور امت مسلمہ پر ان کے تعلیمی و ثقافتی کاموں میں احسانات ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے ۔
انیسویں صدی برصغیر کی مسلمان قوم کے لیے زوال، شکست اور محرومی کا دور تھا۔ 1857ء کی جنگِ آزادی کے بعد مسلمان سیاسی، سماجی اور تعلیمی میدانوں میں بری طرح پیچھے رہ گئے۔ ایسے میں ایک مردِ دردمند، صاحبِ فہم و ادراک اور مصلحِ قوم سر سید احمد خان نے امتِ مسلمہ کی زبوں حالی کو محسوس کیا اور انہیں جدید تعلیم و شعور سے آراستہ کرنے کا بیڑا اٹھایا۔
سر سید نے مسلمانوں کو انگریزوں کی علمی و سیاسی برتری کا ادراک دلوایا اور یہ پیغام دیا کہ ابھی فی الحال تلوار نہیں، اس پہلے قلم و قرطاس کی قوت سے ہی بقا ممکن ہے۔ انہوں نے علی گڑھ تحریک کے ذریعے مسلمانوں میں جدید علوم کی اہمیت اجاگر کی، جس کا عملی مظہر 1875ء میں علی گڑھ کالج (بعد ازاں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی) کا قیام تھا۔ یہ ادارہ صرف تعلیمی ادارہ نہیں ،بلکہ فکری انقلاب کی بنیاد تھا، جہاں سے ایسی نسل تیار ہوئی جو دین و دنیا دونوں سے آگاہ تھی۔
سر سید کی خدمات صرف تعلیم تک محدود نہ تھیں، وہ ایک صاحبِ نظر، مفکر اور ماہرِ سماجیات بھی تھے۔ انہوں نے قرآن کو عقل کی روشنی میں سمجھنے کی دعوت دی (اگر چہ وہ اہل یورپ سے ذہنی مرعوبیت اور جمہور علماء سے ہٹ کر خود اپنی فہم و فراست سے قرآن فہمی میں اسلام کی صحیح ترجمانی اور قرآن کی درست تفسیر کرنے میں صحیح نہج ، سلف کے موقف، اور درست راہ سے بے راہ ہوگئے تھے )فرقہ واریت، جمود اور تنگ نظری کے خلاف بھرپور آواز اٹھائی۔ ان کا مقصد ایک ایسا باشعور، مہذب اور تعلیم یافتہ مسلمان تیار کرنا تھا جو دورِ جدید کے تقاضوں کو سمجھ سکے اور اسلامی اقدار کا پرچم بلند رکھ سکے۔
میرا ہی نہیں بلکہ ہر باشعور مسلمان اور تعلیم یافتہ شخص کا یہ احساس ہے کہ ہندوستان میں مسلمانوں کی عصری تعلیم میں حصہ داری کی جو بھی تاریخ لکھی جائے گی اور اس سلسلے میں ملت اسلامیہ کے جس محسن کا نام سب سے جلی اور روشن حروف میں لکھا جائے گا ، وہ یقینا سر سید احمد خاں کا ہوگا ، کیونکہ جب مسلمان عصری علوم سے کٹے ہوئے تھے اور علم و دانش سے یہ محرومی زندگی کے مختلف شعبوں میں انہیں پسماندہ تر بناتی جا رہی تھی ، اس وقت سرسید نے علی گڑھ جیسے شہر میں علم کا صور پھونکا، علم کی روشنی کے لیے شمع جلائی ، یقینا یہ ان کے خلوص کا نتیجہ تھا کہ یہ نوائے درد بر صغیر کے چپہ چپہ تک پہنچ گئی ، بلکہ اس سے آگے دنیا کے بیشتر حصوں تک ان کی یہ گونج پہنچ گئی اور علی گڑھ کا علمی فیض ہر طرح سے عام ہوا, اور آج بھی جاری ہے ، یہ سر سید کا ایسا احسان ہے ،جس سے بر صغیر کے مسلمان کبھی سبکبار نہیں ہوسکتے ۔(مستفاد از کتاب وہ جو بیچتے تھے دوائے دل)
سر سید احمد خان کی بہت سے افکار و نظریات سے قطع نظر اور بہت سی فکری و نظریاتی کمزوریوں کے باوجود ان کی تالیف خطبات احمدیہ اسلام اور پیغمبر اسلام سے ان کے تعلق کا مظہر ہے ، اس کتاب کی علمی حیثیت سے قطع نظر ان کے وہ نیک دینی جذبہ قابل قدر اور لائق احترام ہے، جس نے ان کے دل کو امنگ بخشا اور دل نے قلم کو راہ دکھائی ۔ یہ کتاب سر ولیم میور کی مشہور کتاب ،،لائف آف محمد ،، کے جواب میں ہے ،سرسید نے اس کتاب کے لیے بنفس نفیس برطانیہ کا سفر کیا ،پورے انہماک سے کتب خانہ میں وقت گزارے ، یورپی مصنفین کی کتابوں سے اقتباسات اخذ کیں ، پھر اتنی یکسوئی سے کتاب لکھی کہ اس زمانے میں لوگوں سے ملاقات تک ترک کردی ، گھر کے سامان بیچ کر روپیہ منگاتے رہے اور اپنے کام میں مصروف رہے ،وہ اسے اتنا بڑا مذہبی فریضہ تصور کرتے تھے کہ کہا کرتے تھے،، اگر میری یہ کتاب تیار ہوگئی، تو میں اس سفر لندن کو سفر حج کے برابر سمجھوں گا ۔ بقول علماء و مشائخ ،سر سید مرحوم نے اگر چہ اس کتاب کے جواب دینے میں کہیں کہیں غلطی کی ہے ، اور کہیں ٹھوس مدلل جوابات بھی دئیے ہیں ، خدا کرے یہی کتاب ان کے لیے حیلئہ مغفرت بن جائے کہ ،،رحمت حق بہانہ می جوید ،،
ان کی دیگر اہم تصانیف میں آثار الصنادید جام جم، آئین اکبری اور تاریخ فیروز شاہی پر تحقیق و ایڈیٹ ، تفسیر القرآن، تاریخ ضلع بجنور ، اور معیار العقول کا ترجمہ ہے ۔ ان تصانیف میں آثار الصنادید یقینا تحقیق و جستجو کا شاہکار اور جیتا جاگتا نمونہ ہے ۔
بقول مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی
،،سر سید احمد خان کا اصل موضوع تاریخ ہی تھا ، اور شاید قدرت نے ان کو اسی کام کے لیے پیدا کیا تھا ، اگر وہ صرف اس موضوع پر کام کرتے تو وہ اردو کے بلند پایہ مورخ ہوتے اور وہ علامہ شبلی کا مقام و مرتبہ حاصل کرلیتے ، مگر ان کے فلسفیانہ مزاج اور ذہنی الجھنوں نے ان کا رخ دوسرے موضوعات کی طرف پھیر دیا اور علم کلام اور اسلامیات کو اپنی جولانگاہ فکر و نظر بنا بیھیٹے، سر سید کی زندگی کا یہ بڑا سانحہ ہوا جس نے اردو زبان کو قابل قدر علمی تحقیق سے محروم کردیا،،
بہر حال سر سید احمد خاں جہاں ایک اچھے ادیب مورخ محقق اور ایک عظیم علمی و ثقافتی تحریک کے بانی و مؤسس تھے،وہیں وہ ایک شریف بلند اخلاق اور کریم النفس مسلمان تھے ، ان کا قلم تحقیق و تفتیش کے میدان کہیں تیز ہو جاتا تھا ، لیکن اپنی ذاتی زندگی میں بہت ہی حلیم و بردبار شخص تھے ، ملت کا درد ہی نہیں رکھتے تھے بلکہ ملت اسلامیہ کی سربلندی کی لئے پریشان رہتے تھے ۔ ایک بار جب سر سید نے ملت کی تعلیم کے لیے لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلایا تو ایک قدر ناشناس نے ان کے ہاتھوں پر تھوک دیا ، لیکن سرسید کی پیشانی پر کوئی شکن نہیں آئی اور انہوں نے اپنے ہاتھ کو اپنے چہرے پر لگا لیا کہ بہر حال یہ بھی میری قوم کی طرف سے آیا ہے ۔
جہاں تک دینی فکر کی بات ہے تو میرا ماننا ہے کہ سر سید احمد خاں مرحوم کے دینی افکار و نظریات عام طور پر قابل قبول نہیں ہیں ، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اپنی دینی جذبے سے عاری تھے ،انہوں نے کالج میں شروع سے شعبئہ دینات قائم کیا اور اس کے لیے دار العلوم دیوبند کے بانی حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رح کے داماد حضرت مولانا عبد اللہ انصاری کا انتخاب کیا وہ کالج میں طلبہ سے نماز و جماعت کا اہتمام کراتے تھے اور کہا کرتے تھے کہ میں چاہتا ہوں کہ میرے داہنے ہاتھ میں قرآن ہو بائیں ہاتھ میں سائنس اور سر پر لا الہ الا اللہ کا تاج ۔ (مستفاد از کتاب/ وہ جو بیچتے تھے دوائے دل)
سر سید کی خدمات کا خراجِ عقیدت یہی ہے کہ آج بھی ہم ان کی تعلیمی فکر کو زندہ رکھیں۔ اگر ہم تعلیمی میدان میں ترقی، سائنسی شعور اور فکری وسعت کو اپنائیں تو کوئی وجہ نہیں کہ امت مسلمہ دوبارہ اپنے وقار کو حاصل نہ کر سکے۔ انہوں نے ہمیں سکھایا کہ:
> "تعلیم ہی وہ چراغ ہے جو اندھیروں کو روشنی میں بدلتا ہے۔”
آج امت مسلمہ کو فرقہ واریت، جہالت اور تنگ نظری سے نکل کر علم، اتحاد اور مثبت فکر کی راہ پر چلنے کی ضرورت ہے۔ سر سید کا خواب تبھی مکمل ہوگا جب ہم ان کے تعلیمی مشن کو اپنی زندگی کا مشن بنا لیں۔

نوٹ/ مختلف مراجع و مصادر کی روشنی میں یہ مضمون تیار کیا گیا ہے ۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔