کتابوں سے دوری اور مطالعہ کا رجحان ختم ہونا ایک المیہ

از:- محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ

آج جو قوم علم کے میدان میں سب سے آگے ہے، وہ اسرائیل ہے، یہ وہ قوم ہے، جس پر غضب نازل ہوئی اس کے پاس آج 80/ فیصد نوبل انعامات ہیں، جب کہ باقی پوری دنیا نے 20/ فیصد حاصل کئے۔
غور کیجئے کہ اسلام میں علم کا تصور دیگر مذاھب کے مقابلے بالکل مختلف ہے ،اسلام میں علم کا سر چشمہ ذات باری تعالٰی ہے،اور چونکہ اللہ کی ذات و صفات لا محدود ہیں ،لہذا علم کی وسعت بھی لا محدود ہے۔ اس اعتبار سے دنیا کا سب سے زیادہ نوبل کا استحقاق مسلمانوں کو بننا چاہیے ۔

لیکن افسوس کہ جس دین میں علم کا تصور مہد سے لحد تک دیا گیا اور جس کی ابتداء اور آغاز ہی اقراء سے ہے، وہ دین اور اس کے ماننے والے تعلیم کے میدان میں سب سے پیچھے ہیں اور ان کی شرح فیصد سب سے کم ہے ، ان کو کتابوں اور مطالعہ سے سب سے کم دلچسپی ہے ۔
ایک سروے کے مطابق یہودی ایک سال میں چالیس کتابیں پڑھتے ہیں ، عیسائی پینتیس کتابیں اور پوری مسلم قوم اوسطاً سال میں چھ گھنٹے پڑھتی ہے ۔
جب کہ ہم جانتے ہیں کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے داعی سے پہلے اپنی حیثیت معلم کی بتائی تھی، جن کا لقب ہی معلم انسانیت تھا۔اس قوم کا یہ حال ہے ۔
راقم کو اس سروے کا اندازہ یوں ہوا کہ ایک بڑے جلسے میں جہاں ہزاروں لوگ تھے، وہاں کتاب کی دکان بھی تھی ، اس دکان سے لوگ عطر مسواک اور ٹوپی خرید رہے تھے ، جس کی حیثیت اور درجہ سنت کا ہے ، اگر چہ اس نیت سے اس کا خریدنا بھی بہت زیادہ ثواب کا باعث ہے ، لیکن کتاب کی طرف کسی کی توجہ نہیں تھی کہ وہ اس کو خرید کر اور مطالعہ کرکے اپنی زندگی میں تبدیلی لائیں،( بہت قیمتی اور اہم کتابیں وہاں موجود تھیں) جبکہ حصول علم اور معرفت کی زیادتی کا درجہ فرض اور واجب کا ہے ۔
آج ہمہ شما مصنف و مؤلف کو تو جانے دیجئے بڑے بڑے اہل علم اور اصحاب قلم جن کی تحریریں اور جن کی کاوشیں اور جن کے اداریے لوگ شوق سے پڑھتے تھے، سر دھنتے تھے، اور ان کی تحریروں کے انتظار میں رہتے تھے ۔ آج ان کی کتابوں اور تصنیفات و تالیفات کے ساتھ جو بے اعتنائی ہے اور جس طرح وہ گودام میں پڑی ہوئی ہیں ۔ اس پر آنکھوں میں آنسو آجاتا ہے ۔
اگر اس درمیان کچھ لوگ کتابوں کی قدر کرنے والے اور مطالعہ کے شوقین اپنی تحریریں اور کاوشیں سوشل میڈیا پر پیش کرتے ہیں تو یہ علم و مطالعہ کے ناقدرے انہیں لکھاڑ اور نہ جانے کن کن غیر شائستہ آداب سے ملقب کرتے ہیں ۔
بہر حال مطالعہ سے غفلت اور کتابوں سے دوری یہ بہت بڑا المیہ ہے ، حال یہ ہے کہ لاکھوں کا گھر ہے اور لاکھوں کے فرنیچر ہیں،لیکن گھر میں کوئی ایک کتاب نہیں ، کتابوں کا گوشہ یا الماری اور کتب خانہ اس کا تو تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ۔
آج کی مجلس میں راقم الحروف مطالعہ سے غفلت اور کتابوں سے دوری کو عنوان بنا کر کچھ رقم کرنا چاہتا ہے ۔ م۔ ق ۔ن

دوستو!

کتاب انسان کی بہترین، ساتھی، دوست، رہنما اور محسن رہی ہے۔ یہ نہ صرف علم و دانش کا خزانہ ہے، بلکہ کردار سازی، فکر و شعور اور تہذیبی تربیت کا ذریعہ بھی ہے۔ ایک وقت تھا جب مطالعہ ہر ذی شعور انسان کی زندگی کا لازمی جزو سمجھا جاتا تھا۔ کتابیں صرف علم حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بلکہ دل و دماغ کی غذا سمجھی جاتی تھیں۔ مگر افسوس! آج کا دور جدید ٹیکنالوجی، سوشل میڈیا اور مصنوعی تفریح کا دور بن چکا ہے۔ اس برق رفتار زندگی میں انسان کتاب سے دن بدن دور ہوتا جا رہا ہے، اور یہ دوری دراصل ہماری فکری و اخلاقی زوال کی علامت ہے۔

کتابوں سے دوری کی وجوہات

کتاب سے دوری کے کئی اسباب و عوامل ہیں ،جن پر غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہ المیہ آہستہ آہستہ نہیں بلکہ تیزی سے ہمارے معاشرے میں جڑ پکڑ چکا ہے۔

  • 1. ٹیکنالوجی کا غلبہ:

موبائل فون، ٹی وی، انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے انسان کی دلچسپیاں بدل دی ہیں۔ جہاں پہلے لوگ فارغ وقت میں مطالعہ کیا کرتے تھے، اب وہی وقت سکرینوں کے سامنے ضائع ہو جاتا ہے، گھنٹوں اس میں پڑے رہتے ہیں۔

  • 2. نظامِ تعلیم کی کمزوری

ہمارے تعلیمی نظام میں کتاب بینی اور تحقیقی مطالعے کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ طلبہ کو رٹہ لگانے کی عادت ڈال دی گئی ہے، جس کے باعث مطالعے کا شوق ختم ہوتا جا رہا ہے۔

  • 3. گھریلو اور معاشرتی بے حسی:

گھروں میں بچوں کو کتاب کی طرف راغب کرنے کے بجائے تفریحی آلات فراہم کیے جاتے ہیں۔ والدین خود مطالعہ نہیں کرتے، لہٰذا بچوں میں بھی یہ عادت پیدا نہیں ہوتی۔

  • 4. معاشی دباؤ اور وقت کی قلت:

موجودہ دور میں لوگ روزگار کے مسائل میں اتنے الجھ چکے ہیں کہ مطالعہ کے لیے وقت نکالنا مشکل سمجھتے ہیں۔

کتاب سے دوری کے اثرات

کتاب سے دوری کا اثر صرف انفرادی نہیں بلکہ اجتماعی سطح پر بھی ظاہر ہو رہا ہے۔

  • 1. فکری جمود:

جب انسان مطالعہ چھوڑ دیتا ہے تو سوچنے، سمجھنے اور سوال کرنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔ نتیجتاً معاشرہ تقلید پر چلنے لگتا ہے، تخلیق اور تحقیق کا جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔

  • 2. اخلاقی زوال

اچھی کتابیں انسان کو کردار کی بلندی سکھاتی ہیں۔ جب مطالعہ کم ہو جائے تو انسان میں برداشت، احساس اور اخلاقی تربیت کا مادہ کم ہوتا جاتا ہے۔

  • 3. تہذیبی انحطاط

قومیں اپنی تہذیب اور تاریخ کو کتابوں کے ذریعے محفوظ رکھتی ہیں۔ جب مطالعے کا شوق ختم ہوتا ہے تو نئی نسل اپنے ماضی اور ثقافت سے کٹ جاتی ہے۔

  • 4. علمی پسماندگی

وہ قومیں جو مطالعے کی عادی نہیں ہوتیں، وہ دنیا کی ترقی یافتہ اقوام سے پیچھے رہ جاتی ہیں۔ علم کے بغیر ترقی ممکن نہیں۔

کتاب دوستی کو فروغ دینے کے لیے اقدامات

اس المیے سے نکلنے کے لیے ہمیں اجتماعی اور انفرادی سطح پر سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔

  • 1. تعلیمی اصلاحات

نصاب میں مطالعے کی اہمیت اجاگر کی جائے، لائبریری کلچر کو دوبارہ زندہ کیا جائے اور طلبہ کو کتاب دوستی پر انعامات و ترغیبات دی جائیں۔

  • 2. گھریلو تربیت

والدین خود مطالعہ کریں اور بچوں کے لیے کتاب پڑھنے کا ماحول فراہم کریں۔ کہانیوں، اسلامی تاریخ اور ادب کی کتابیں گھروں میں متعارف کرائی جائیں۔

  • 3. ڈیجیٹل ذرائع کا مثبت استعمال

اگر سوشل میڈیا نے کتاب کو پیچھے دھکیل دیا ہے ، اسی میڈیا کو کتاب کے فروغ کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے، آن لائن لائبریریاں، آڈیو بکس، اور مطالعہ مہمات اس کی مثال ہیں۔

  • 4. حکومتی اور ادبی اداروں کا کردار

حکومت اور ادبی تنظیموں کو چاہیے کہ کتاب میلے، ادبی نشستیں اور مطالعہ مہمات کو عام کریں تاکہ معاشرے میں پڑھنے کا ذوق بیدار ہو۔
کتابوں سے دوری صرف ایک عادت کی تبدیلی نہیں بلکہ ایک فکری و تہذیبی زوال کی علامت ہے۔ اگر ہم نے کتاب کو اپنی زندگی سے نکال دیا تو علم، عقل، اخلاق اور تہذیب سب کمزور ہو جائیں گے۔
کتاب وہ چراغ ہے، جو اندھیروں میں راستہ دکھاتا ہے۔ ہمیں اس چراغ کو بجھنے نہیں دینا چاہیے۔ مطالعہ کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنانا ہوگا، کیونکہ "قومیں وہی ترقی کرتی ہیں جو کتاب سے محبت کرتی ہیں”۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔