اسلام کا نظامِ خیرات اور اس کے عملی اثرات

تحریر: سید شعیب حسینی ندوی

اسلام نے انسانی معاشرے کی تعمیر اور سماجی مساوات کے قیام کے لیے جو جامع اور ہمہ گیر نظام پیش کیا، اس میں نظامِ خیرات بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ نظام محض بے قید دریادلی یا جذباتی سخاوت کا نام نہیں بلکہ ایک منظم، با مقصد اور نتائج خیز معاشی فلسفہ ہے جو افراد اور ریاست دونوں کی ذمہ داریوں کو واضح کرتا ہے۔ قرآنِ مجید نے جہاں انفاق اور صدقات کی فضیلت بیان کی ہے اور غیر معمولی اخروی وعدے ذکر کیے ہیں، وہیں اس کے مقاصد اور مصارف کو بھی وضاحت کے ساتھ پیش کیا ہے، تاکہ مال کا خرچ معاشرے کی حقیقی ضرورتوں کو پورا کرے اور انسانیت کی فلاح و ترقی کا ذریعہ بن سکے۔

سورۃ البقرہ میں ارشادِ ربانی ہے:
يَسْأَلُونَكَ مَاذَا يُنفِقُونَۖ قُلْ مَا أَنفَقْتُم مِّنْ خَيْرٍ فَلِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينِ وَابْنِ السَّبِيلِ
(لوگ آپ سے پوچھتے ہیں کہ ہم کیا خرچ کریں؟ کہہ دیجیے جو کچھ بھی خرچ کرو وہ والدین، رشتہ داروں، یتیموں، مسکینوں اور مسافر کے لیے ہونا چاہیے)

یہ آیت اپنے اندر ایک عظیم حکمت سموئے ہوئے ہے۔ سوال تھا کیا خرچ کیا جائے؟ لیکن جواب میں اللہ تعالیٰ نے کہاں خرچ کیا جائے اس کو بیان فرمایا، گویا اصل اہمیت مال کی نوعیت سے زیادہ مصارف کی تعیین اور صحیح مقامات پر خرچ کرنے کو حاصل ہے۔ زکوۃ جو اسلام کا عظیم رکن ہے اس کے احکامات قرآن میں جس طرح بیان کیے گئے ہیں ان میں زیادہ صراحت اور تفصیل مصارف کی ہی آئی ہے، سورہ توبہ میں مصارف ثمانیہ مستقل بیان ہوئے ہیں جبکہ زکوۃ کے نصاب وغیرہ کی تفصیلات قرآن میں مذکور نہیں ہیں۔ اسلام کا نظامِ خیرات انسان کو غیر منظم اور بے محل عطیات کے بجائے سوچے سمجھے اور بامقصد انفاق کی طرف متوجہ کرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن نے بارہا مال کے خالص ہونے، نیت کی پاکیزگی اور بندگانِ خدا کے لیے حقیقی نفع کی تاکید فرمائی ہے تاکہ خیرات کا نظام فردی جذبے کی سطح سے اوپر اٹھ کر اجتماعی فلاحی نظام کی شکل اختیار کرے۔

اسلام کے ابتدائی دور میں اس نظام کی عملی مثال ریاستِ مدینہ کے قیام کے ساتھ سامنے آئی۔ ہجرت کے بعد مہاجرین اپنے گھر بار اور وسائل چھوڑ کر مدینہ آئے تو انصار نے جس ایثار، مواخات اور مالی تعاون کا مظاہرہ کیا، اس نے تاریخِ انسانی میں بے مثال معاشرتی یکجہتی کی بنیاد رکھی۔ نبی کریم ﷺ نے بیت المال کی بنیاد رکھی، زکوٰۃ اور صدقات کے مستحقین کی فہرست مرتب ہوئی، اور اجتماعی سطح پر معاشی توازن قائم کرنے کا آغاز ہوا۔ مدینہ کے معاشرے میں طبقاتی فرق گھٹتا گیا، فقراء کی کفالت ریاست کی ذمہ داری بنی، غلاموں کی آزادی اور قرض داروں کے بوجھ کو کم کرنے کے منظم اقدامات کئے گئے، اور رفتہ رفتہ ایسا معاشرتی ماحول تشکیل پایا جہاں کسی فرد کو ذلت کے ساتھ ہاتھ پھیلانے کی ضرورت باقی نہ رہی۔

اسلامی نظامِ خیرات کا ایک روشن ترین تاریخی نمونہ خلافتِ عمر بن عبدالعزیز (99–101ھ) کے دور میں نظر آتا ہے۔ اگرچہ ان کی حکومت کا زمانہ مختصر تھا، لیکن انہوں نے زکوٰۃ اور بیت المال کے نظم کو اس قدر شفاف اور عادلانہ شکل دی کہ اس کے اثرات پوری مسلم دنیا میں محسوس کیے گئے۔ انہوں نے حکمران طبقے کی غیر ضروری مراعات ختم کیں، ناجائز املاک بیت المال میں واپس کرائیں، احتساب کو عام کیا، رشوت اور استحصال کا خاتمہ کیا، اور اہم پہلو یہ ہے کہ ریاستی خزانے کو حقیقی مستحقین اور عوامی فلاح و بہبود کے منصوبوں کے لیے وقف کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ تاریخ کی معتبر کتابوں میں مذکور روایت کے مطابق زکوٰۃ کی رقم لے کر لوگ مستحقین کو تلاش کرتے تھے مگر ضرورت مند نہیں ملتا تھا۔ غربت تقریباً ختم ہوگئی، تعلیم، صحت، زراعت اور صنعت کے شعبوں میں ترقی ہوئی، اور معاشرہ حقیقی اسلامی فلاحی نظام کی عملی تصویر بن کر دنیا کے سامنے آیا۔

اسلامی تاریخ کی بعد کی صدیوں میں بھی اوقاف کے نظام نے معاشرتی فلاح میں کلیدی کردار ادا کیا۔ جامعہ الازہر، دمشق و بغداد کے ہسپتال، قرطبہ اور غرناطہ کی یونیورسٹیاں، مسافروں کے لیے سرائے، یتیم خانے، اجتماعی باورچی خانے اور عوامی فلاحی ادارے—یہ سب اسی خیراتی اور اوقاف کے نظام کے ذریعے قائم ہوئے۔ یورپ کی یونیورسٹیوں اور فلاحی ریاستوں نے بعد میں انہی اداروں کے نمونے پر اپنے سماجی فلاحی ڈھانچے تعمیر کیے۔

اس تحقیقی مطالعے سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ اسلام کا نظامِ خیرات محض مالی سخاوت نہیں بلکہ معاشرتی انصاف، انسانی وقار، اور منظم فلاحی ریاست کی بنیاد ہے۔ جب یہ نظام خالص نیت کے ساتھ صحیح ہاتھوں میں چلتا ہے تو ریاستیں غربت کے خاتمے، معاشی توازن اور سماجی ترقی کا مثالی نمونہ بن جاتی ہیں، اور جب یہ روح کمزور پڑ جاتی ہے تو معاشرہ دوبارہ محرومی، طبقاتی تفریق اور انتشار کا شکار ہو جاتا ہے۔

آج اگر امت مسلمہ قرآن کے دیے ہوئے اس فلاحی ماڈل کو سمجھ کر منظم انداز میں زکوٰۃ، صدقات اور اوقاف کے اداروں کو زندہ کرے تو غربت، جہالت اور معاشی ناانصافی کا خاتمہ ناممکن نہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب بھی اسلامی معاشرے نے اس نظام کو پوری قوت سے اپنایا ہے، ترقی و خوشحالی نے اس کے قدم چومے ہیں اور یہی وہ راستہ ہے جو ہمیں روشن مستقبل کی طرف لے جا سکتا ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔