✍ محمد صابر حسین ندوی
زمانہ منتظر ہے کہ پیغام الہی کے مدعی، حق کے علمبردار اور قرآن و سنت کے پیرو میدان عمل میں آئیں، سچائی، دیانت داری اور بھلائی کی دعوت دینے والے، نیک سیرت و نیک طینت اور امت محمدی (صلی اللہ علیہ وسلم) کے شیدائی زمانے کی تاریکی میں اپنی شمع وحی سے روشنی لیکر حاضر ہوں، بہت ہوا کہ وہ بہانا بنائیں، اور ظالم کے ظلم کو برداشت کریں، انسانیت کو ہلاک ہوتے ہوئے اور زندگی کو رسوا ہوتے ہوئے دیکھیں، حق تو یہ ہے کہ دنیا ان ظالموں سے تنگ آچکی ہے، ناجائز کاموں کے ذریعے زمین کو برباد کیا جارہا ہے، سیاست، حکومت اور اقتدار کے سامنے سب ہیچ ہے، اگر کوئی قیمت ہے تو وہ دولت ہے، قوت ہے، طاقت ہے، انسانیت اور انسان تو کہیں گم ہو کر رہ گئے ہیں، ان کے اندر سماجی و معاشرتی دھڑکن رک کر رہ گئی ہے، قلب کی حرارت بس برائے نام ہے، رگوں کی ہلچل سرد ہوچکی ہے، روحانیت کا جنازہ نکل چکا ہے اور وہ اقدار جو زندگی کو باقی رکھے، وہ محبت جو سینے کو گرمائے رکھے ان کا احساس تک تک جمود کا شکار ہوچکا ہے، آج اصلاح و خیر کا پیغام عام ہونے کے باوجود اور نبی آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کی امت وسط کی موجودگی کے باوجود سب تباہ کیا جارہا ہے، جس دنیا کو ایک طویل مدت کے بعد اصل نقطہ اور مرکز پر لایا گیا تھا، قیصر و کسری اور جاہلیت کے تاریک ترین ہوا کا رخ موڑ کر اور اجالے میں کھینچ کر صراط مستقیم پر لگایا گیا تھا، آج پھر اسے بھٹکتے ہوئے چھوڑا جارہا ہے، باطل نے چہار جانب سے یلغار کردی ہے، ٹکڑوں میں بانٹ کر سب کچھ بکھیرنے کی کوشش جاری و ساری ہے، اگر کوئی اسے صحیح سمت دے سکتا ہے، گرتوں کا ہاتھ تھام کر کنارے پر لاسکتا ہے، نجات و فلاح کے راستے پر ڈال سکتا ہے تو وہ صرف اور صرف اسلام کے متوالے اور انسانیت کے ہمدرد ہیں، اے لوگو!! اٹھو اور میدان میں اپنی کارگردگی کا مظاہرہ کرو، زمانہ آپ کیلئے تیار ہے، وہ آپ کو ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا ہے، امید و رجا لگائے تم سے پہلو لگا رہا ہے، یہی وقت ہے اور یہی زمانہ ہے، حضرت مولانا سیدی أبوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ نے صد فیصد درست لکھا ہے۔ آپ رقمطراز ہیں:
” اس وقت مسلمانوں کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ کھڑے ہوں اور ملک کو تباہ ہونے سے بچائیں، یہ تنہا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہے، اس کے ساتھ بیسیوں الجھنیں اور سیاسی مصلحتیں لگی ہوئی ہیں، قرآن کی روشنی میں یہ آپ کا فرض ہے کہ آپ دین کے سچے داعیوں، انسانیت کے بہی خواہوں اور ملک و معاشرہ کے مخلص معماروں کی محنتوں پر پانی نہ پھیرنے دیجئے _ ولا تفسدوا فی الارض بعد اصلاحھا_ کا پیغام دیتے رہئے، خدا کے یہاں آپ سے سوال ہوگا کہ تمہارے ہوتے ہوئے یہ ملک کیسے تباہ ہوا، تمہیں ایسا کردار اور نمونہ پیش جربا چاہیے تھا کہ لوگ سمجھتے کہ پیسہ ہی سب کچھ نہیں ہوتا، عزت ہی سب کچھ نہیں ہوتی، خدا کا خوف اصل چیز ہے، پھر محبت اور ہمدردی خلائق، میں یقین رکھتا ہوں کہ آپ یہ نمونہ دکھا کر محبوبیت کا مقام حاصل کرلیں گے اور آپ کو اس ملک کی قیادت کا مقام تفویض ہوگا، ہم نے افراد کے محبوب بننے کے واقعات تو کتابوں میں بہت پڑھے ہیں اور ہمیں یاد ہیں؛ لیکن ملتوں کے محبوب بننے کے واقعات سے ہم غافل ہیں، خدا نے اس ملت کو (جب اس نے انسانیت کو بچانے اور چمکانے کیلئے اپنے ذاتی مفادات کی قربانی پیش کی اور حق و صداقت کا دامن مضبوط پکڑا) محبوب جہاں بنا دیا تھا، چین سے عرب کو پیغام گیا، وہ چین جو عرب سے اتنی دور ہے کہ اپنی دوری کیلئے عربی زبان میں ضرب المثل ہے "اطلبوا العلم ولو بالصین” سلطنت عباسیہ کے پاس انہوں نے مہم بھیجی کہ یہاں کوئی ایسا آدمی نہیں جس پر ہم. پورے طور پر اطمینان کرسکیں، اور وہ مقدمات کا بے لاگ فیصلہ کرسکتے، خدا کیلئے آپ وہاں سے کچھ آدمی بھیجئے جو فصل خصومات کا کام کریں، یہ ملت کے محبوب ہونے کا مقام ہے، یہ اس وقت کا حال ہے جب یہ ملت "کنتم خیر أمۃ أخرجت للناس” پر ایمان رکھتی تھی، اس کا عقیدہ تھا کہ ہم اپنی کاربراری، خاندانی آسودگی اور قومی خوش حالی اور برتری کیلئے نہیں پیدا کئے گئے، انسانیت کی فلاح اور خدمت کیلئے پیدا کئے گئے ہیں _” (تحفہ دکن:٣٢_٣٣)