Slide
Slide
Slide

مسلم بچے شرک کی منظم دعوت کی زد میں ہیں

تحریر: مولانا احمد الیاس نعمانی 

چند ماہ قبل کی بات ہے، ایک صاحبہ ہمارے گھر تشریف لائیں، انہوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی کچھ عرصہ سے بیمار ہے، مختلف علاجوں کے بعد بھی شفایاب نہیں ہوپائی ہے، اب اُس کا اصرار ہے کہ اسے مندر لے جایا جائے، وہ وہاں جاکر شفا یاب ہوجائے گی، یہ بھی معلوم ہوا کہ اس نے ٹیلی ویزن پر ایسے چند مناظر دیکھے ہیں جن میں پریشان حالوں کے مسائل مندروں کے درشن کرنے اور وہاں پرارتھنا کرنے سے حل ہوتے دکھائے گئے تھے، یہیں سے اس کے دل میں یہ خیال پیدا ہوا کہ مجھے اس بیماری سے شفا مندر جاکر مل سکتی ہے۔

یہ ہے شرک وبت پرستی کی اس دعوت کا نتیجہ جو صبح وشام ٹیلی ویزن سے نشر ہورہی ہے، اس کے مختلف پروگراموں، سیریلوں، خبروں، یہاں تک کہ بچوں کے کارٹونس تک میں شرک وبت پرستی کی یہ تبلیغ مسلسل کی جارہی ہے، اور ہمارے مسلم بچے بھی اپنے والدین کے ذریعہ مہیا کیے گئے ٹیلی ویزنس اور اسمارٹ فونس کے ذریعہ شرک کی اس دعوت کے مخاطب اور اس کی زد پر ہیں۔

ٹیلی ویزن تک ہی محدود نہیں، اسکولوں کی نصابی کتابیں شرک کی دعوت سے بھری پڑی ہیں، بالخصوص ہندی زبان اور سماجی مطالعات کی کتابوں میں ہندو دیوتاوں، رشی منیوں اور دیومالائی قصوں کی ایسی کثرت ہے کہ اس کو پڑھ کر بچے کے متاثر ہونے اور اس کے دل میں دبے پاوں شرک کے داخل ہونے کا بہت خطرہ ہے۔ اور مسلم بچے ان کو بڑی محنت سے پڑھتے اور امتحانات میں اچھے نمبرات سے پاس ہونے کے لیے انہیں رٹتے اور یاد کرتے ہیں۔

اس کے علاوہ بہت سے اسکولوں میں ہندووں کے چند معبودوں (بالخصوص ان کے نظریہ کے مطابق تعلیم کی دیوی سرسوتی) کی عبادت کرائی جاتی ہے، مختلف شرکیہ اعمال طلبہ سے کروائے جاتے ہیں۔

دوسری طرف شرک کی اس ہمہ گیر دعوت کی زد پر جو مسلم بچے ہیں ان کی اکثریت کی کوئی دینی تربیت نہیں ہوتی، وہ توحید  اور شرک کے بارے میں بنیادی باتیں بھی نہیں جانتے، ان کم سن معصوم اور خالی ذہنوں میں چہار سو چھائی ہوئی بت پرستی اور شرک کی دعوت کا اثر ہوجانا کچھ بعید نہیں۔

ہندوستانی مسلمانوں کے لیے وقت کا سب سے بڑا تقاضا ان مسلم بچوں کے دین وایمان کی حفاظت ہے۔ جب ایوان اقتدار، ذرائع ابلاغٖ اور تعلیم گاہیں ہماری اگلی نسلوں کو شرک کی گھٹی پلارہی ہوں تو وقت کا سب سے بڑا دینی فریضہ اگلی نسل کے ایمان وعقیدہ کی حفاظت اور ان کی دینی تربیت ہے، دین وملت کے ہرخیرخواہ کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنے گردوپیش میں موجود مسلم بچوں کو شرک وبت پرست کی اس دعوت سے محفوظ رکھنے کے لیے جو کرسکے کرے، ورنہ ڈر اس بات کا ہے کہ اگلی نسل کی ایک بڑی تعداد کہیں اپنے دین وایمان کو خیرباد نہ کہدے۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: