از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى،آكسفورڈ
بهوپال كى ایک معلمہ و داعیہ محترمه فضا بنت اشفاق صاحبه كى طرف سے استفسار آيا ہے كه وه لوگ لڑكيوں كے لئے ايك اداره بنانا چاہتے ہيں جس مين عالميت كى تعليم ہوگى، نصاب ونظام تعليم كے متعلق آپ كى رائے مطلوب ہے۔ يه مضمون اسى استفسار كا جواب ہے۔
اسلامى نصاب تعليم كے دو بنيادى اجزاء ہيں:
پہلا جزء وه ہے جو اسلامى اور سيكولر دونوں نظامہائے تعليم كے درميان مشترك ہے، يه وه حصه ہے جس كى تحصيل سے انسان اس دنيا ميں كامياب زندگى گزار سكتا ہے، اس كا مقصد انسان كو مہذب ذريعۂ رزق فراہم كرنا ہے، يعنى انسان معاشى لحاظ سے مستحكم ہو، اور اسے دنياوى زندگى برتنے كا قرينه آتا ہو۔
دوسرا جزء ہے وه تعليم وتربيت جس سے انسان آخرت ميں كامياب ہو سكے، يعنى وه اس دنيا ميں خدا كا پسنديده غلام بنكر زندگى گزارے، اس كى كتاب پر عمل كرے اور اس كے پيغمبر كى سنتوں كى پيروى كرے۔
مثالى بات تو یہ ہے كه دونوں اجزاء ايك ہى نظام ميں متحد (integrated) كرديئے جائيں، اس وقت ہندوستان بلكه پورى دنيا ميں مسلمانوں كے جو حالات ہيں ان كى موجودگى ميں اس متحده نظام كا وجود ايك خواب (dream) سے زياده نہيں۔
عملا جو چيز ممكن ہے وه يه ہے كه ان دونوں اجزاء كے حصول كے لئے دو متوازى نظام (parallel systems) چلائے جائيں، آپ بهى اسى عملى شكل كى تحصيل كى كوشش كريں، اس كے دو طريقے ہو سكتے ہيں:
ايك تو يه كه آپ ايك ايسا كالج بنائيں جس ميں عصرى نصاب ہو، ساته ہى عربى زبان اور اسلاميات كى تعليم اس تدريج وترتيب سے ہو كه بى اے سے فراغت كے ساته لڑكياں عالمه كا نصاب بهى مكمل كرليں۔
دوسرا طريقه يه ہے كه لڑكياں مين اسٹريم سكولوں اور كالجوں ميں داخله ليں، اور شام كو ايك دو گهنٹے كے لئے عربى اور اسلاميات كى تعليم حاصل كريں، اس مقصد كے لئے ہفته كى چهٹى كا دن بهى استعمال ہو سكتا ہے۔
پہلا طريقه نسبتًا دشوار ہے، كيونكه آپ كو اچهى خاصى كوشش كرنى پڑے گى كه آپ كا كالج حكومت سے منظورى حاصل كرے، آپ كو عصرى تعليم كے لئے معيارى اساتذه مہيا كرنے ہوں گے، نيز آپ كو وه سارى سہوليات فراہم كرنى ہوں گى جو ايك اچهے كالج كے لئى لازمى ہيں، اس دشوارى كے بعد آپ عالميت كى تعليم پر اچهى توجه نہيں كرسكتيں۔
ميں آپ كو يہى مشوره دوں گا كه آپ جزء وقتى (part time) عالميت كى تعليم ديں، اور نصاب كو دو حصوں ميں تقسيم كريں، ايك تو ان لڑكيوں كا نصاب جو با قاعده عالمه بںنا چاہتى ہيں، دوسرے ان لڑكيوں كا نصاب جو عالمه نہيں بںنا چاہتى ہين، البته نيك مسلم خواتين ضرور بںنا چاہتى ہيں، ايسى لڑكيوں كے لئے قرآن كريم سمجهكر پڑهنا اور ضرورى اسلاميات (عبادات، اسلام كا عائلى نظام، سيرت نبوى، اسلامى تاريخ وغيره) كا نصاب كافى ہوگا۔
شايد كچه لوگ آپ كو خالص دينى مدرسه كے قيام كا مشوره ديں، ميں دو بنيادى وجہوں سے اس رائے كے خلاف ہوں:
پہلى وجه يه ہے كه آج كل تعليم سے معاش كا گہرا تعلق ہے، عورتوں كے لئے يه ضرورى ہے كه معاشى طور پر خود كفيل ہونے كى صلاحيت ركهيں، اس كے بے شمار فوائد ہيں جنہيں اس مختصر مضمون ميں بيان كرنا ممكن نہيں۔
دوسرى وجه يه ہے كه ہر انسان كے لئے ضرورى ہے كه وه اس زمان ومكان سے بخوبى واقف ہو جس ميں وه زندگى گزار رہا ہے ورنه قدم قدم پر ركاوٹيں آئيں گى، اگر آپ نے عصرى تعليم حاصل نہيں كى اور آپ عالمه ہوگئيں تو آپ كے درميان اور ان مسلم خواتين كے درميان بہت بڑا خلا ہوگا جنہوں نے عصرى تعليم حاصل كى ہے، آپ ان كے اشكالات ومسائل نہيں سمجهيں گى، ان كى باتوں كا صحيح جواب دينے كى اہل نہيں ہوگى، نتيجه يه ہوگا كه آپ ايك قسم كے احساس كمترى كا شكار ہوں گى، اور بسا اوقات آپ كى دينى تعليم آپ كے لئے اور پورے معاشره كے لئے نقصان ده ثابت ہوگى۔
اس لئے ميرا مخلصانه مشوره ہے كه آپ جزء وقتى (part time) عالمه اور اسلاميات كى تعليم كا اداره كهوليں، جس ميں عصرى تعليم پانے والى لڑكيوں اور عصرى تعليم سے فارغ شده خواتين دونوں كى تعليم وتربيت كا مناسب نظم ہو، اس طرح كا اداره چلانا نسبتا آسان ہوگا، اور اس سے عورتوں كو دينى اور دنيوى لحاظ سے مضبوط بنانے كا كام ہوگا۔
ميرا يه مشوره صرف لڑكيوں كے لئے نہيں بلكه لڑكوں كے لئے بهى ہے، ہندوستاں كے بڑے بڑے مدارس (ديوبند، ندوه، اصلاح، فلاح، جامعه سلفيه، جامعه عمر آباد وغيره) بہت اہم ضرورت پورى كر رہے ہيں، ان كو چهيڑنا مناسب نہيں، البته چهوٹے چهوٹے مدرسوں كے لئے يہى مناسب ہے كه وه جزء وقتى اداروں ميں تبديل ہو جائيں، اس سے ہمارے بہت سے مسائل حل ہو جائيں گے، اورچند دہائيوں ميں قوم ہر حيثيت سے غير معمولى ترقى كرے گى ان شاء الله۔