محکمات سے اتحاد کی راہیں طے ہوں گی
بقلم: آفتاب رشکِ مصباحی القدس لائبریری داراپٹی مظفرپور
جدید اسلوبِ دعوت میں دین کے محکمات کی تبلیغ و ترسیل ہی ہماری اولین ترجیحات ہونی چاہیے۔ اللہ کے رسول ﷺ جو کچھ بھی اللہ کی طرف سے لے کر آئے وہ دین ہے، جس کی اساس قرآن و سنت ہے۔ ایک مومن پر سب سے پہلی ذمہ داری اساس دین پر ایمان لانا ہے، پھر اس پر عمل کرنا اور پھر اس کی تبلیغ کرنا ہے۔ امام ابو عبد اللہ محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ ( ۲۵۶ھ) عبد اللہ بن عمرو سے روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: میری طرف سے پہنچا دو اگرچہ ایک ہی بات ہو، اور میری طرف سے اسرائیلی روایت بیان کرنے میں بھی کوئی حرج نہیں ۔ ہاں! جو شخص میرے اوپر کوئی جھوٹ باندھے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ جہنم بنا لے۔
علما نے دینی باتوں کو بنیادی طور پر تین حصوں میں تقسیم کیا ہے:
- ۱: ضروریات دین
- ۲: ضروریات اہل سنت اور
- ۳: مختلفات اہل سنت
ضروریات دین: وہ عقائد و اعمال جو بنام مسلم تمام فرق و مسالک کے یہاں محکم ، غیر اختلافی اور ضروری ہیں،جن کا ثبوت نہایت واضح انداز میں قطعی الثبوت اور قطعی الدلالت کے ساتھ کتاب و سنت میں موجود ہو ، جن کا انکار سب کے یہاں بالاتفاق کفر ہے۔
ضروریات اہل سنت :وہ عقائد و اعمال جن کا ثبوت بھی قطعی ہو ، لیکن اس میں ایک گنا شبہ ہو جس کی وجہ سے تفہیم نصوص میں علما کا اختلاف ہو گیا۔ لیکن جمہور کا اتفاق معنی حسن پر ہو اور چند افراد و اشخاص کسی ایسے معنی کی طرف گئے ہوں جن میں نقص و عیب کا معنی نکل رہا ہو تو ایسا معنی لینا اور اسے اپنی مراد ٹھہرانا گمرہی ہے، اس وجہ سے نہیں کہ انھوں نے جمہور امت سے اختلاف کیا، بل کہ اس وجہ سے کہ انھوں نے معنی قبح و نقص کو اپنی مراد ٹھہرایا۔
مختلفات اہل سنت: ایسے نظریات و اعمال جن کے احسن، اکمل اور راجح ہونے میں جمہور علما جنھیں اہل سنت سے تعبیر کیا جاتا ہے ، کا اختلاف ہو جائے کہ کچھ کسی اور معنی کو راجح بتا رہے ہوں اور کچھ کسی اور معنی کو، تو ایسے مسائل کے اقرار و انکار یا ترک و عمل سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اور ایسے ہی نظریات و مسائل کے کسی ایک پہلو پر شدت برتنا اور ساری دنیا کو اپنی مراد پر لانے کی ضد کرنا ہی افتراق و انتشار کا سبب بنتا ہے۔ چوں کہ دین کا معاملہ لا اکراہ پر ہے، کہ یہاں کسی پر کسی قسم کا زور و جبر نہیں، حالاں کہ دین کا تعلق وحی سے ہے تو جہاں دین بالوحی اجباری نہیں، بلکہ بندوں کو حریت فکر کی آزادی دی گئی وہاں بدون الوحی کسی کو کوئی قیاسی یا تحقیقی بات کیوں کر اجباری ہو سکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب امت کو حریت فکری سے دور رکھتے ہوئے اکراہ و اجبار سے دو چار کیا گیا تو آپسی افتراق و انتشار وجود میں آیا جس کی خلیج بیتتے دنوں کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے، کیوں کہ مطالبہ اجبار و اکراہ بڑھتا جا رہا ہے۔
خیــــــــــــــر، ان تین طرح کے عقائد و اعمال اور معمولات کے درمیان ہماری ترجیح ضروریات دین ہونی چاہیے اور اگر زیادہ جوش ِ بیانی رنگ لائے یا قلم کی سیاہی جوش مارے تو ضروریات اہل سنت تک ہی عمومی گفتگو و تحریر کو محدود رکھنی چاہیے۔ جس کا بڑا فائدہ امت مسلمہ تک مثبت اور کار آمد باتوں کی ترسیل کے ساتھ اتفاق و اتحاد کی راہیں ہموار ہونا ہے۔ دعوتِ دین کا انداز کیا ہو؟ اس حوالے سے قرآن مقدس کا واضح ارشاد ہے کہ اپنے رب کی طرف حکمت اور موعظت حسنہ کے ساتھ بلاؤ اور ان سے جدال احسن کرو ۔ بے شک تمھارا رب خوب جانتا ہے کہ کون اس کی راہ سے بھٹکا ہوا ہے اور کون ہدایت یافتہ ہے۔
قرآن مقدس کا یہ ارشاد نہایت واضح طور پر اس بات کی وضاحت کر رہا ہے کہ داعی کو مدعو کی ہدایت و گمراہی سے اوپر اٹھ کر صرف اپنی بات عمدہ اور اچھے انداز میں رکھنی چاہیے اور اگر اس کے باوجود کوئی بحث و مباحثہ کرنے کی کوشش کرے تو نہایت مہذب انداز میں اس سے گفتگو کرے ۔ بے جا مناظرہ بازی نہ کرے ، کیوں کہ در حقیقت گمراہ اور ہدایت یافتہ کون ہے یہ صرف اللہ ہی جانتا ہے۔ لہذا، اپنی طرف سے کسی پر کوئی حکم لگانے یا الزام لگانے سے الگ ہو کر سب تک محکمات دین کی ترسیل کریں۔
ایسا اس لیے بھی ضروری ہے کہ جو لوگ محکمات کی بجاے متشابہات جن کی تفہیم و تعبیر میں علما کا اختلاف ہوتا ہے، میں پڑتے ہیں اور اسی کو موضوع گفتگو بناتے ہیں قرآن ایسے لوگوں کو سقیم القلب ( بیمار دل) قرار دیتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: وہی ہے جس نے تم پر ایسی کتاب نازل فرمائی جس میں بعض محکم آیتیں ہیں، جو ام الکتاب ( کتاب کی اصل) ہیں۔ اور کچھ دوسرے متشابہات ہیں ۔ تو جن کے دلوں میں کجی ہوتی ہے وہ من موافق تاویل اور فتنے کی چاہ میں متشابہات کے پیچھے پڑے رہتے ہیں، حالاں کہ ان ( متشابہات) کی تاویل اللہ ہی جانتا ہے۔ اور راسخین فی العلم کہتے ہیں کہ ان پر ہمارا ایمان ہے کہ یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں۔ اور نصیحت تو عقل مند ہی پکڑتے ہیں۔ محکمات دین میں سب سے اعلیٰ ضروریات دین ہیں ، اس کے بعد ضروریات اہل سنت اور مختلفات اہل سنت کا تعلق متشابہات سے ہے جن میں راجح اللہ کے حضور مقبول ہے یا مرجوح ، اس کا علم صرف اللہ ہی کو حاصل ہے۔ انصاف پسند لوگ اقرار و انکار اور ترک و عمل کی بنیاد پر کسی پر کوئی حکم نہیں لگاتے، نہ کسی کے تعلق سے اپنا دل میلا کرتے ہیں۔ بل کہ بنام اسلام سب سے خیر خواہی اور حسن سلوک کو روا رکھتے ہیں۔