اپنی عزتِ نفس قائم رکھیں

از:۔ محمد ناصر ندوی پرتاپگڑھی

اسلام نے انسان کو خالقِ کائنات کی سب سے معزز مخلوق قرار دیا ہے۔ انسان کو عقل وشعور، ضمیر اور اختیار عطا کرکے اللہ تعالیٰ نے اسے زمین پر خلافت کے منصب پر فائز کیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام انسان کی ظاہری و باطنی دونوں حیثیتوں میں عزت و وقار چاہتا ہے۔ انسان کی عظمت صرف جسم یا نسب کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایمان، عملِ صالح اور اخلاقِ حسنہ سے وابستہ ہے۔ قرآن مجید نے اس حقیقت کو صریح الفاظ میں بیان فرمایا:
> "وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ”
ترجمہ: اور ہم نے بنی آدم کو عزت والا بنایا۔ (سورۃ الإسراء: 70)
یہ آیت انسان کے شرف و کرامت کا اعلان ہے۔ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اسے عزت عطا کی بلکہ اس کےلئے ایسی شریعت نازل فرمائی جو اس عزت کی حفاظت کرتی ہے۔ اسلام کا تصورِ عزت، بندگیِ خدا اور خدمتِ خلق سے جڑا ہوا ہے، نہ کہ دنیاوی جاہ و مال سے۔ قرآنِ کریم نے انسان کی عزت کو ایمان اور تقویٰ سے مربوط کیا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
> "إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِندَ اللّٰهِ أَتْقَاكُمْ”
ترجمہ: بیشک تم میں سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ (سورۃ الحجرات: 13)
اسلام نے واضح کیا کہ حقیقی عزت تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے، نہ کہ مال، حسب و نسب یا قوم سے۔ اسلام کے نزدیک وہ شخص سب سے باعزت ہے جو گناہ سے بچے، سچائی پر قائم رہے، اور ناحق کے سامنے سر نہ جھکائے۔ نبی کریم ﷺ نے فضیلت وبرتری کا معیار قائم کیا اور فرمایا:
> "لَا فَضْلَ لِعَرَبِيٍّ عَلَى عَجَمِيٍّ وَلَا لِعَجَمِيٍّ عَلَى عَرَبِيٍّ وَلَا لأَبْيَضَ عَلَى أَسْوَدَ وَلَا لِأَسْوَدَ عَلَى أَبْيَضَ إِلَّا بِالتَّقْوَى، النَّاسُ مِنْ آدَمَ وَآدَمُ مِنْ تُرَابٍ”
ترجمہ: کسی عربی کو عجمی پر، نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کسی گورے کو کالے پر، اور نہ کسی کالے کو گورے پر کوئی فضیلت ہے، مگر تقویٰ کے ساتھ۔ سب انسانوں کا تعلق آدم سے ہے، اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔
(مسند احمد: 23489)
یہ حدیث نسلی اور طبقاتی امتیاز کی نفی کرتی ہے اور بتاتی ہے کہ حقیقی فضیلت اور عزت صرف تقویٰ اور پرہیزگاری سے حاصل ہوتی ہے۔

اسلام نے غلاموں، عورتوں، محتاجوں اور غیر قوموں کو بھی عزت و کرامت کے دائرے میں شامل کرکے ایک ہمہ گیر انسانی مساوات کی بنیاد رکھی ہے۔ ایمان انسان کو خودداری سکھاتا ہے۔ جس کے دل میں ایمان ہوتا ہے، وہ جھوٹ، دھوکہ، چاپلوسی اور ذلت کو قبول نہیں کرتا۔ اللہ تعالیٰ نے مؤمنین کی صفات میں فرمایا:
> "وَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَلِرَسُولِهِ وَلِلْمُؤْمِنِينَ”
ترجمہ: اور عزت اللہ کےلئے، اور اس کے رسول کےلئے اور مؤمنوں کےلئے ہے۔ (سورۃ المنافقون: 8)
مؤمن اللہ کی عزت سے وابستہ ہوتا ہے، اس لئے وہ اپنی حرمت کو گناہ اور ذلت سے بچاتا ہے۔ اسی مفہوم کو نبی ﷺ نے فرمایا:
> "المؤمن لا یذل نفسه”
ترجمہ: مؤمن خود کو ذلیل نہیں کرتا۔ (ترمذی: 2450)

نبی ﷺ کی سیرت کا ہر پہلو عزت و خودداری سے آشکارا ہے۔ جب اہلِ مکہ نے آپ ﷺ کو دنیاوی عہدوں کی پیشکش کی کہ آپ دعوتِ توحید چھوڑ دیں، تو آپ ﷺ نے فرمایا:
> "واللّٰه لو وضعوا الشمس فی یمینی والقمر فی یساری علی أن أترك هذا الأمر ما تركته”
ترجمہ: اللہ کی قسم! اگر وہ سورج کو میرے دائیں ہاتھ میں اور چاند کو بائیں ہاتھ میں رکھ دیں کہ میں اس کام (دعوتِ توحید) کو چھوڑ دوں، تو بھی میں اسے نہ چھوڑوں گا۔ (سیرۃ ابن ہشام، ج 1، ص 265)
یہ عزتِ نفس کی بلند ترین مثال ہے۔ نبی ﷺ نے دنیا کی تمام لالچوں کو ٹھکرا دیا مگر حق سے دستبردار نہ ہوئے۔ حضرت عمرؓ کا قول آج بھی تاریخ میں جگمگا رہا ہے:
> "ہم وہ قوم ہیں جنہیں اللہ نے اسلام کے ذریعہ عزت دی، اگر ہم عزت کسی اور چیز میں تلاش کریں گے تو اللہ ہمیں ذلیل کر دے گا۔” (تاریخ الطبری، 3/373)
حضرت بلال حبشیؓ نے کفر کے شکنجوں میں بھی "أحد، أحد” پکار کر بتا دیا کہ عزتِ نفس ایمان سے ہے، غلامی یا آزادی سے نہیں۔ اسلام نے غلام کو سردار، کمزور کو مضبوط، اور محتاج کو محترم بنایا، کیونکہ عزت کا پیمانہ اللہ کے نزدیک دل کی کیفیت ہے، نہ کہ ظاہری حیثیت۔
اسلام نے معاشی خودکفالت کو عزتِ نفس کا حصار قرار دیا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

> "لأن یحتطب أحدکم حزمة علی ظھره خیر له من أن یسأل أحداً فیعطیہ أو یمنعہ”
ترجمہ: تم میں سے کسی کا اپنی پیٹھ پر لکڑیوں کا گٹھا اٹھانا بہتر ہے اس سے کہ وہ کسی سے سوال کرے، چاہے وہ دے یا نہ دے۔ (صحیح بخاری: 1471)
یہ تعلیم نبوی ہمیں خودداری ،حلال کمائی اور محنت کی عظمت سکھاتی ہے۔ اسلام میں مانگنے کو عار سمجھا گیا ہے، کیونکہ سوال عزتِ نفس کو مجروح کرتا ہے۔ عزتِ نفس کا مطلب غرور تکبر نہیں، بلکہ اپنے وقار کی حفاظت ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
> "لا یدخل الجنۃ من کان فی قلبه مثقال ذرۃ من کبر”
ترجمہ: جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا، وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ (صحیح مسلم: 91)
صحابیؓ نے عرض کیا کہ "یارسول اللہ! اگر کوئی اچھا لباس یا جوتا پسند کرے تو کیا یہ تکبر ہے؟” تو آپ ﷺ نے فرمایا:
> "إن الله جمیل یحب الجمال، الکبر بطر الحق وغَمْط الناس”
ترجمہ: اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے، تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ (صحیح مسلم: 91)
پس عزتِ نفس، غرور نہیں بلکہ خود احترام اور ایمان کی حرارت ہے۔ اسلام کا فلسفہ یہ ہے کہ بندگی ہی میں آزادی ہے۔ جو انسان صرف اللہ کے سامنے جھکتا ہے، وہ دنیا کی ہر طاقت سے آزاد ہوجاتا ہے۔ قرآن کریم نے بتادیا ہے کہ:
> "تُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ”
ترجمہ: تو جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے ذلت دیتا ہے۔ (آل عمران: 26)
مؤمن اپنی عزت اللہ کی رضا سے مانگتا ہے، نہ کہ مخلوق کے سہارے سے۔ حضرات خلفاء راشدین، تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم أجمعین، ائمہ عظام اور اولیاء اللہ کی زندگیوں میں عزتِ نفس کے عملی مظاہرے ملتے ہیں۔ انہوں نے دنیاوی لالچ، حکومتی دبائو اور دنیوی مشاکل و تکالیف کے باوجود حق و ضمیر کو مقدم رکھا۔
آج انسان مادہ پرستی اور خودغرضی کے دور میں اپنی عزت بھول چکا ہے۔ نوکری کے لالچ، شہرت کے نشے، اور مفاد کی سیاست نے انسان کو اپنے وقار سے محروم کر دیا ہے، حتی کہ آج سوشل میڈیا کی دنیا میں لوگ اپنی عزت لائکس اور فالوورز سے ناپتے ہیں، حالانکہ اسلام ہمیں یاد دلاتا ہے:
> "مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلّٰهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا”
ترجمہ: جو شخص عزت چاہتا ہے، تو تمام عزت اللہ ہی کےلئے ہے۔ (فاطر: 10)
عزتِ نفس وہ روشنی ہے جو دل کو غلامی سے آزاد اور کردار کو مضبوط بناتی ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ مسلمان کسی کے سامنے اپنی خودی نہ بیچے، بلکہ اپنے ایمان کے وقار سے جیتا رہے۔ اسلام میں عزتِ نفس محض اخلاقی صفت نہیں بلکہ ایمان کی بنیاد ہے۔ جو شخص اللہ کے سامنے جھکتا ہے، وہ کسی کے سامنے نہیں جھکتا۔ نبی ﷺ نے فرمایا:
> "من التمس رضا الله بسخط الناس رضي الله عنه وأرضى عنه الناس”
ترجمہ: جو شخص لوگوں کی ناراضی کے باوجود اللہ کی رضا چاہتا ہے، اللہ اس سے راضی ہوتا ہے اور لوگوں کو بھی اس سے راضی کر دیتا ہے۔ (ابن حبان: 276)
یہی وہ عزتِ نفس ہے جو انسان کو غلامی سے آزادی، کمزوری سے قوت، اور خوف سے یقین عطا کرتی ہے۔ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ مسلمان اپنی خودی کو پہچانے، اپنے ایمان پر فخر کرے، اور کسی طاقت کے سامنے جھکنے کے بجائے صرف اپنے رب کے سامنے جھکنے کو ترجیح دے۔ زندگی کی سب سے بڑی کامیابی یہ نہیں کہ لوگ آپ کو پہچانیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ خود کو پہچانیں۔ اپنی عظمت کا شعور انسان کو زمین سے آسمان تک لے جاتا ہے۔ اپنی خودی کو ایمان، علم، اور عملِ صالح سے مزین کریں، دنیا میں کوئی چیز ایسی نہیں جو آپ کے ارادے کے آگے ٹھہر سکے۔
یہ عزت محض ظاہری نہیں بلکہ معنوی، فکری اور اخلاقی عزت ہے۔ مگر افسوس، وہی انسان جس کے لئے فرشتے جھکائے گئے، آج اپنے آپ کو دوسروں کے سامنے چھوٹا سمجھتا ہے۔ وہ اپنی قدر بھول گیا، خود اپنی قیمت کم کردی، اور اپنے وجود کو معمولی سمجھ بیٹھا۔
انسان جب اپنی قدر کھو دیتا ہے تو اس کے تمام اعمال کی روح مٹ جاتی ہے۔ خود پر اعتماد نہ رکھنے والا شخص نہ صحیح سوچ سکتا ہے نہ ٹھیک فیصلہ کرسکتا ہے۔ وہ دوسروں کی تعریف کا محتاج بن جاتا ہے۔ اگر لوگ اس کی تعریف کریں تو خوش، اور اگر تنقید کریں تو مایوس۔ گویا وہ اپنی قیمت دوسروں کے ترازو میں تولتا ہے۔ یہ ایک طرح کی غلامی اور خطرناک بیماری ہے۔

خالقِ کائنات نے اپنی روح کی نسبت انسان سے جوڑی، یہ سب سے بڑی تکریم ہے، اپنی قدر نہ جاننے والا انسان دوسروں کی نظروں میں بھی حقیر ہوجاتا ہے۔ ایک معروف مفکر نے کہا: “اگر تم خود کو کمزور سمجھو گے تو دنیا تمہیں پاؤں تلے روند دے گی۔” یہ کائنات انہی کےلئے مسخر ہوتی ہے جو اپنے وجود کی حقیقت پہچانتے ہیں۔
انسان کے اندر چھپی قوتیں تبھی بیدار ہوتی ہیں جب وہ خود کو پہچانتا ہے۔ سقراط نے کہا: “خود کو پہچان لو، یہی علم کی ابتدا ہے۔” حضرت علی رضی اللہ علیہ نے اسی شعور کو ایمان کا سرچشمہ قرار دیا:
> "وَمَن عَرَفَ نَفْسَهُ فَقَدْ عَرَفَ رَبَّهُ”
ترجمہ: جس نے اپنے نفس کو پہچانا، اس نے اپنے رب کو پہچانا،، ۔
خود شناسی دراصل رب شناسی کا دروازہ ہے۔ جب انسان جان لیتا ہے کہ اسے کس مقصد کےلئے پیدا کیا گیا ہے تو وہ اپنی قیمت خود متعین کرتا ہے۔ پھر وہ دنیا والوں کے معیار سے نہیں، بلکہ اللہ کے پیمانے سے اپنی قدر پہچانتا ہے۔
بدقسمتی سے آج کے انسان نے اپنی پہچان دولت، عہدے، لباس، شہرت یا تعلیمی اسناد سے جوڑ لی ہے۔ اگر یہ چیزیں نہ ہوں تو وہ خود کو کمتر محسوس کرتا ہے۔ حالانکہ یہ سب عارضی ہیں، ختم ہوجانے والی ہیں۔ جو چیز انسان کو اصل قدر عطا کرتی ہے وہ اس کا کردار، اس کی نیت ، اس کا اخلاص ، اس کا علم اور رب العالمین کے بارگاہ میں اس کا مقام ہے۔
احساسِ کمتری ایک ایسا زہر ہے جو شخصیت کو اندر سے کھوکھلا کردیتا ہے۔ احساسِ کمتری میں مبتلا انسان دوسروں کی نقالی کرتا ہے، ان کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتا ہے، پھر دھیرے دھیرے اپنی انفرادیت اور اپنا امتیاز کھو دیتا ہے۔ قرآن نے ایسے لوگوں کو منافقین کے رویے سے تشبیہ دی جو دوسروں کو خوش کرنے کےلئے اپنا ایمان بیچ دیتے ہیں۔ جو اپنے اقدار پر قائم رہتا ہے، وہ تنہا بھی ہو تو پوری دنیا کے برابر ہوتا ہے۔

دنیا کی تاریخ اس حقیقت کی گواہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی خودی کا سودا نہیں کیا اور اپنی عزت نفس کو محفوظ رکھا، وہ قوموں کی تقدیر بدل گئے۔
انسان اگر اپنے اندر کے خزانے کو پہچان لے تو دنیا اس کے سامنے جھک جاتی ہے۔ انسانی تاریخ کے بڑے مفکر، شاعر، سائنس داں، اور مصلح سب وہی تھے جنہوں نے اپنے آپ پر یقین رکھا۔
یہی وہ خودی ہے جسے قرآن “عزتِ ایمان” کہتا ہے۔ مگر یہ خودی تکبر نہیں، بلکہ ایمان سے پیدا ہونے والا وقار ہے۔ غرور انسان کو برباد کرتا ہے، لیکن خودی انسان کو بلند کرتی ہے۔
آج کے دور میں انسان نے اپنی قدر بھلادی ہے۔ وہ دوسروں کی تعریف، پسند اور شہرت کے جال میں قید ہوچکا ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ تم اپنی قیمت اللہ کے نزدیک دیکھو، نہ کہ لوگوں کے تبصروں کی تلاش میں اپنے عزت کو مجروح کردو‌۔
اپنی قدر پہچاننے والا انسان کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ وہ ناکامی کو سبق بناتا ہے، تنقید کو آئینہ سمجھتا ہے، اور آزمائش کو ترقی کا زینہ بناتا ہے۔
زندگی کی سب سے بڑی کامیابی یہ نہیں کہ لوگ آپ کو پہچانیں، بلکہ یہ ہے کہ آپ خود کو پہچانیں۔ اپنی عظمت کا شعور انسان کو زمین سے آسمان تک لے جاتا ہے۔ اپنی خودی کو ایمان، علم، اور عملِ صالح سے روشن کریں ۔
اپنی قدر کیجئے، کیونکہ آپ کی قدر کا راز آپ کے رب کے ساتھ تعلق میں ہے۔ جو رب سے جڑ گیا، وہ کائنات سے کٹ نہیں سکتا۔ اپنی خود اعتمادی کو جگائیں، اپنے خوابوں اور اہداف کےلئے محنت کریں، اور ہر میدان میں اپنے ایمان و صلاحیت پر بھروسہ رکھیں۔ اسی خود اعتمادی اور عزتِ نفس میں حقیقی کامیابی کا راز مضمر ہے۔

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔