از:- محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام، کنڈہ، پرتاپ گڑھ
انسان کو سماجی حیوان بھی کہا جاتا ہے، وہ کتنی ہی قرابت مندیوں اور رشتہ داریوں کی ڈوری اور بندھن سے بندھا ہوا ہے، ان ہی رشتوں سے خاندان، برادری اور قبیلہ وجود میں آتا ہے، اور متعدد خاندان اور برادری مل کر جب ایک جگہ قیام کرتے ہیں، تو اس سے معاشرہ، سماج اور سوسائٹی کی تشکیل عمل میں آتی ہے۔ معاشرہ اور سماج میں اچھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور برے بھی، سلجھے لوگ بھی ہوتے ہیں اور شور شرابے والے بھی، پرسکون بھی، اور پرجوش اور پر شور بھی، برد بار، متحمل مزاج اور شگفتہ مزاج بھی اور عجلت پسند، جلد باز اور منفعل مزاج بھی، صابر و شاکر اور قانع بھی اور ناشکرا اور احسان فراموش بھی، جاد مستقیم پر قائم بھی اور وہ لوگ بھی جو صحیح راستے سے منحرف ہیں۔ اس لیے سماج میں اچھے اور برے ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں اور اچھے اور برے واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔
ان چیزوں اور ان واقعات سے انسانی زندگی کا گہرا ربط و تعلق ہے، انسان چاہے نہ چاہے وہ اپنے آپ کو اس سے جدا اور الگ نہیں رکھ سکتا۔ اس لیے ہر دور اور ہر زمانہ میں معاشرہ اور سماج کی اصلاح کی طرف جنہیں توفیق ملتی رہی، توجہ دیتے رہے اور آج بھی ہر طرف اصلاح معاشرہ اور سماج سدھار کی کوشیش بہت زوروں پر ہیں، اس کے لیے مقامی، ملکی اور بین الاقوامی جمعیتیں اور تنظیمیں کام کر رہی ہیں، فرد کی سطح پر بھی کام ہورہا ہے اور جماعت اور تنظیم کی سطح پر بھی۔ لیکن یہ بھی سچائی ہے کہ اس کا فائدہ جس انداز اور جس کیفیت اور کمیت میں ہونا چاہیے وہ بالکل نہیں ہورہا ہے، اس کی واحد وجہ ہے کہ خدا پر یقین، خدا کی بھیجی ہوئی شریعت کی پیروی اور آخرت میں جواب دہی کے احساس کے بغیر سماج کی حقیقی اصلاح نہیں ہوسکتی، اس کے بغیر جو محنتیں کوششیں اور کاوشیں کی جاتی ہیں، ان کی مثال درخت کی جڑ کے بجائے اس کے پتوں اور ٹہنیوں پر پانی ڈالنے کے مترادف ہے۔
اسی پس منطر میں خاکسار سوشل میڈیا پر روزانہ ایک کالم آج کا پیغام کے نام سے لکھتا ہے، جس میں سماجی مسائل، سیاسی اور معاشرتی موضوعات کو بھی خاص طور پر اہمیت دی جاتی ہے، خدا کا شکر ہے، کہ لوگ اس کو پسند کرتے ہیں اور اخبار و رسائل والے نقل بھی کرتے ہیں، اور میرے قارئین کی تعداد ہر مکتبئہ فکر کے ماننے والوں میں موجود ہے۔
آج کے پیغام میں ہم ایک عمومی بیماری، مسئلہ اور دشواری کی جانب اشارہ کریں گے اور اس کا نسخہ اور حل بھی بتائیں گے۔
آج نوے فیصد سے زیادہ لوگ بے سکونی اور بے اطمنانی کے شکار ہیں، آپ کو اکثر لوگ بے سکون اور غیر مطمئن نظر آئیں گے، ہر وقت ٹینشن اور الجھنیں لئے ہوئے، ان کی زبان پر ہمہ وقت شکوہ و شکایت ملی گی۔ ڈپریشن، ذہنی تناؤ بے سکونی آج اکثر لوگوں کا مسئلہ ہے۔ کوئی اپنی بیوی سے پریشان، کوئی اپنے شوہر سے پریشان، کسی کو اپنی اولاد اور پڑوسی سے شکایت، کوئی اپنے ماتحتوں سے پریشان، کوئی اپنے ذمہ داروں سے نالاں، کوئی اپنی آمدنی کے اضافہ کے لیے پریشان، کوئی دوسرے کی خوشحالی سے پریشان، کوئی بیماری سے پریشان، تو کوئی اپنی فیملی لائف سے تنگ عاجز اور پریشان،غرض ہر شخص کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ اور پریشانی، آپ کو گنتی کے چند لوگ ملیں گے جن کی زبان پر آپ قناعت،توکل، اورصبر و شکر کے کلمات پائیں گے اور جن کی زبان سے یہ جملہ نکل رہا ہو کہ الحمدللہ بہت پرسکون اور خوشگوار زندگی گزر رہی ہے۔ بے سکونی اور بے اطمینانی کا یہ مرض اتنا عام اور یہ بیماری اس قدر متعدی ہے کہ مہذب غیر مہذب خواندہ اور غیر خواندہ امیر اور غریب شہری اور غیر شہری عجمی اور عربی شرقی اور غربی سب اس میں مبتلا ہیں۔ اس ٹینشن اور بے سکونی نے خاندانی قدروں کو بھی پامال کردیا ہے ، اور رشتے داروں کی قدر کو کھو دیا ہے ، اللہ تعالیٰ ہی حفاظت فرمائے اور سکون کی دولت مرحمت فرمائے آمین
ان بیماریوں کا واحد علاج اور ان مسئلوں کا واحد حل ہے کہ انسان خدا کی یاد میں اور خدا کے ذکر میں مشغول ہوجائے اور شکر و احسان شناسی،صبر و قناعت کو اپنی زندگی کا لازمہ بنالے ، معاملات اور لین دین کو درست کرے ، رشتے داروں اور ماتحتوں کے حقوق ادا کرے ، اور سب سے بڑھ کر یاد خدا کی طرف توجہ دے ،کیونکہ ذکر اللہ ہی دلوں کے سکون کا واحد ذریعہ اور ڈپریشن اور بے سکونی کا علاج ہے۔ ارشاد خدا وندی ہے،، الا بذکر اللہ تطمئین القلوب،، سنو اللہ کی یاد ہی سے دلوں کو سکون ملتا ہے۔
سکون دل اور اطمنان قلب کا ایک نبوی ﷺ نسخہ جو بہت کارگر ہے اور بے سکونی کا علاج بھی کہ دینی اور مذھبی زندگی میں اپنے سے بلند انسان پر نظر کرو کہ کاش ہم بھی ان ہی کی طرح عبادت کرلیتے، تلاوت ذکر و تسبیح میں لگ جاتے اور دنیاوی زندگی میں اپنے سے نیچے والے کو دیکھو کہ ہمیں تو اتنا ملا ہے، ہمارے پاس تو اتنے وسائل ہیں، ہمیں تو اچھا خاندان اچھی فیملی اور اچھی صحت ملی ہے،اور سامنے والے کے پاس تو ہمارے مقابلہ میں کچھ نہیں ہے۔ جب انسان یہ اصول بنا لے گا تو وہ کبھی پریشان اور بے سکون نہیں ہوگا اور خوشحال اور خوشگوار زندگی گزارنا اس کے لیے آسان ہوجائے گا۔۔
لیکن افسوس کہ ہم ڈاکٹر کے بتائے ہوئے نسخے اور پرہیز پر تو مکمل عمل کرتے ہیں اور اس پر عمل ضروری اور لازمی سمجھتے ہیں۔ لیکن طبیب مطلق اور حکیم مطلق کے بتائے ہوئے نسخے پر عمل نہیں کرتے، ۔ یہی وجہ ہے کہ ہم سب بے سکونی کے شکار اور ڈپریشن میں مبتلا ہیں۔ آج کی اس تحریر کو ایک موثر واقعہ پر ختم کرتے ہیں۔ اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد احساس ہوگا کہ الحمدللہ ہم تو لاکھوں سے بہتر اور پرسکون و خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں، لوگ تو ہم زیادہ مسائل اور مشکلات کے شکار ہیں۔
ایک 55 سالہ شخص ڈِپریشن کا شکار تھا، اس کی بیوی نے ایک ماہر نفسیات سے ملاقات کی، بیوی نے کہا کہ میرا خاوِند شدید ڈِپریشن میں ہے, براہ کرم مدد کریں. ڈاکٹر نے اپنی مشاورت شروع کی، اس نے کچھ ذاتی باتیں پوچھی اور اُس کی بیوی کو باہر بیٹھنے کو کہا-
صاحب بولے میں بہت پریشان ہوں، دراصل میں پریشانیوں سے مغلُوب ہوں، ملازمت کا دباؤ، بچوں کی تعلیم اور ملازمت کا تناؤ، ہوم لون، کار لون، مجھے کچھ پسند نہیں دنیا مجھے پاگل سمجھتی ہے لیکن میرے پاس اتنا سامان نہیں جتنا کہ ایک کارتوس میں گولِیاں، میں بہت اُداس اور پریشان ہوں. یہ کہہ کر اس نے اپنی پوری زندگی کی کتاب ڈاکٹر کے سامنے کھول دی۔
پھر ڈاکٹر نے کچھ سوچا اور پوچھا کہ آپ نے دسویں جماعت کس اِسکول میں پڑھی؟
اُس شخص نے اسے اِسکول کا نام بتایا، ڈاکٹر نے کہا آپ کو اس اِسکول میں جانا ہے پھر اپنے اسکول سے آپ کو اپنی دسویں کلاس کا رجسٹر تلاش کرنا ہے اور اپنےساتھیوں کے نام تلاش کرنے ہیں اور ان کی موجودہ خیریت کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی کوشش کرنی ھے.۔
ایک ڈائری میں تمام معلومات لکھیں اور ایک مہینے کے بعد مجھ سے ملیں.
وہ شخص اپنے اسکول گیا، رجسٹر ڈھونڈنے میں کامیاب رہا، اور اسے کاپی کروایا،اس میں 120 نام تھے،اس نے ایک مہینے میں دن رات کوشش کی لیکن وہ بمشکل 75 ہم جماعتوں کے بارے میں معلومات جمع کرنے میں کامیاب رہا.
ان میں سے 20 مر چُکے تھے, 7 رنڈوے اور 13 طلاق یافتہ تھے, 10 ایسے نکلے جو کہ بات کرنے کے قابل بھی نہیں تھے, 5 اتنے غریب نکلے کہ کوئی ان کا جواب نہ دے سکا, 6 اتنے امیر نکلے کہ اُسے یقین ہی نہیں آیا, کچھ کینسر میں مُبتلا تھے، کچھ فالِج, ذِیابیطس، دمہ یا دل کے مریض تھے، کچھ لوگ بستر پر تھے جن کے ہاتھوں/ٹانگوں یا ریڑھ کی ہڈی میں چوٹیں آئی تھیں, کچھ کے بچے پاگل، آوارہ یا بیکار نکلے, ایک جیل میں تھا۔ ایک شخص دو طلاق کے بعد تیسری شادی کی تلاش میں تھا۔
ایک ماہ کے اندر دسویں جماعت کا رجسٹر اذِیّت بیان کر رہا تھا.۔
ڈاکٹر نے پوچھا اب بتاؤ تمہارا ڈِپریشن کیسا ہے؟.
وہ شخص سمجھ گیا کہ اسے کوئی مُوزِی بیماری نہیں، وہ بھوکا نہیں، اس کا دماغ دُرُست ھے، اسے عدالت، پولیس، وکلاء کا کوئی مسئلہ نہیں، اس کی بیوی اور بچّے بہت اچھے اور صحت مند ھیں، وہ خود بھی صحت مند ھے.
اس شخص کو احساس ہوا کہ واقعی دنیا میں بہت زیادہ دُکھ ہیں، اور وہ بہت سے اذِیّت ناک دُکھوں سے محفُوظ ہے.۔ کہنے والے نے سچ کہا ہے کہ۔۔
دوسروں کی پلیٹوں میں جھانکنے کی عادت چھوڑیں، اپنی پلیٹ کا کھانا پیار سے لیں۔۔۔