پھر درد جانے، دوا جانے اور خدا جانے

از:- سید جمشید احمد ندوی

استاذ جامعہ امام شاہ ولی اللہ اسلامیہ ،پھلت

انسان کی زندگی کی داستان ایک عجیب امتزاج ہے:خوشی اورغم، راحت اورمشقت،صحت اوربیماری، کامیابی اور ناکامی،کوئی لمحہ ایسا نہیں آتاجب انسان اپنے اندرسےبالکل آزادہو،کبھی دل بوجھل ہوتاہے، کبھی آنکھوں میں نمی اتر آتی ہے، کبھی فکرکی دھند میں سب کچھ اوجھل ہو جاتا ہے،ایسے میں انسان اپنے درد کوبیان کرنے کے لیے کسی کو ڈھونڈتا ہے، کوئی دوست،کوئی ساتھی،کوئی ہمدم،کوئی ہمنشین،کوئی غمخوار، کوئی غم گسار ،کوئی رشتہ دار، تاکہ دل کا بوجھ ہلکا ہو سکے،مگر سوال یہ ہے کہ کیاواقعی انسان کا درد انسان سمجھ سکتاہے؟کیاایک محدود اور کمزور دل دوسرے کے دل کے زخموں کا مرہم بن سکتا ہے؟ شاید نہیں۔

یہی وہ مقام ہے جہاں سے بندگی کا سفر شروع ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ نے خود فرمایا:”أَلَيْسَ اللَّهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ”(کیا اللہ اپنے بندے کے لیے کافی نہیں؟) حقیقت یہ ہے کہ بندہ کا اصل سہارا، اس کا اصل مونس و غمگسار،صرف اس کا رب ہے،جب دل زخمی ہو،جب آنکھیں بوجھل ہوں،جب دنیاکے سارے دربندہوجائیں،تب بھی ایک در ہمیشہ کھلا رہتا ہے:اللہ کے حضور دعااور مناجات کادر،اللہ کے حضورآہ و زاری کادر،اظہاربندگی کا در۔

اپنا درد انسان دنیا کے سامنے بیان کرے تویاتولوگ تماشہ بناتے ہیں،یا ہمدردی جتاتے ہیں،مگردل کابوجھ بڑھادیتے ہیں، یاپھرتھوڑی دیر کی دلجوئی کے بعد خود اپنی راہ لے لیتے ہیں،لیکن جب یہی درد اللہ کےسامنے
بیان کیا جائے تو معاملہ بالکل مختلف ہوتا ہے،وہاں کوئی دکھاوا نہیں،کوئی منافقت نہیں،کوئی تماشائی نہیں،وہاں ایک بندہ ہے اور اس کا رب ہے، جو دل کے ہر کونے سے واقف ہے،جسے زبان کی حاجت بھی نہیں،جو آنسوؤں کی خاموش زبان بھی سمجھ لیتا ہے۔

بندے کی سب سے بڑی خطا یہی ہے کہ وہ اپنے دکھوں کو لوگوں کے سامنے لے جاتا ہے،اور اپنے رب کو بھلادیتا ہے، حالانکہ حقیقی علاج تو وہی رب رکھتا ہے جس نے بیماری دی ہے،جس نے آزمائش اتاری ہے،جب بندہ اپنے رب سے کہتا ہے: "اے اللہ! یہ میرا دکھ ہے، یہ میرا غم ہے، میں اسے تیرے حوالے کرتا ہوں”، تب اللہ تعالیٰ اس کے دل پر سکینت نازل کر دیتا ہے،پھر وہ دکھ ختم ہو یا نہ ہو، مگر اس کا بوجھ دل سے اتر جاتا ہے،اور دل میں ایک عجیب اطمینان اتر آتا ہے۔

یہ دنیا فانی ہے،اس کے سارے دکھ،اس کے سارے زخم عارضی ہیں،مگر ان دکھوں کی اصل قیمت یہی ہے کہ یہ بندے کو اللہ کے قریب کر دیتے ہیں،اگر دکھ نے دل کو رب کی دہلیز تک پہنچا دیاتو سمجھو کہ دکھ سب سے بڑی نعمت تھا،وہی آنسو جورات کی تنہائی میں مصلی پر گر جاتے ہیں، وہی سب سے قیمتی تحفہ ہوتے ہیں،وہی سسکیاں جو اللہ کے حضور نکلتی ہیں، وہی بخشش کا ذریعہ بنتی ہیں۔

انسان کی زندگی کی سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کا درد اللہ کو معلوم ہو،جب اللہ کو معلوم ہوگیا تو پھر بندہ کو کسی سے کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں،پھرتو اللہ ہی سب سنبھال لیتا ہے:”پھردرد جانے،دوا جانے اور خداجانے "یہ جملہ دراصل یقین اور توکل کی علامت ہے،یعنی بندہ بس اپنے دل کی گرہ اپنے رب کے سامنے کھول دے،باقی درد مٹانا بھی اسی کا کام ہے، دوا پیدا کرنا بھی اسی کا کام ہے، اور انجام تک پہنچانا بھی اسی کا کام ہے۔

یہ حقیقت ہے کہ دنیا کا ہر سہارا ٹوٹ سکتا ہے، مگر اللہ کا سہاراکبھی نہیں ٹوٹتا،انسان کی امیدیں بار بار ٹوٹ سکتی ہیں،مگر اللہ پر امید رکھنے والا کبھی نامراد نہیں ہوتا، کتنے ہی ایسے بندے ہیں جن کی دعائیں سالوں بعد قبول ہوئیں مگر جب قبول ہوئیں تو اندازایسا تھا کہ بندہ حیران رہ گیا،اللہ کی حکمت انسان کی عقل سے کہیں بلند ہے، کبھی وہ بندے کی دعا کوفوراً قبول کرتا ہے،کبھی ملتوی کرتا ہے، کبھی اس کے بدلے بہتر چیز عطا کرتا ہے، بندہ سمجھے یا نہ سمجھے، مگر اللہ کبھی اپنے بندہ کے ساتھ بے وفائی نہیں کرتا۔

ہم سب کی زندگیاں دکھوں سے بھری ہوئی ہیں،کسی کو بیماری کا غم ہے،کسی کو غربت کا،کسی کو ناکامی کا،کسی کو بے قدری کا،مگر اصل سوال یہ ہے کہ ان دکھوں کو ہم کہاں لے جاتے ہیں؟اگر ہم انہیں دنیا کے سامنے بیان کرتے ہیں تو یہ غم بڑھ جاتے ہیں،اگر ہم انہیں اللہ کے سامنے رکھ دیتے ہیں تو یہ غم جنت کے راستے کھول دیتے ہیں۔

زندگی کے سفر میں انسان کا بار بار ایسے مواقع سے سامنا ہوتا ہے جب وہ اپنے آپ کو بالکل تنہا محسوس کرتا ہے،اس تنہائی میں اگر دل اللہ سے جڑ جائے تو وہی سب سے بڑی کامیابی ہے،اللہ کے حضور گرنے والے آنسو،دنیا کے سب سے قیمتی موتی ہیں،جو بندہ سجدے میں روتا ہے، دنیا کی کوئی طاقت اسے توڑ نہیں سکتی۔

*اے غمگین دل! اے زخمی روح! اپنے دکھ کو اللہ کے سپرد کر دے، اپنے زخموں کو اللہ کے حوالے کر دے،اس کے آگے سجدے میں گرجا اورکہہ دے: "اے اللہ! میں کمزور ہوں، میں ٹوٹاہوا ہوں،میں شکستہ دل ہوں، مگرتیرا در کبھی بند نہیں ہوتا۔” یقین جانو، اسی لمحہ تمہارا رب تمہیں تھام لے گا۔*

*پھرنہ تمہیں اپنے زخموں کا بوجھ ستائے گا،نہ اپنے دکھ کا غم کھائے گا،تم بس دعا مانگو، باقی سب کچھ خدا جانے،درد بھی اسی کا، دوا بھی اسی کی، اور انجام بھی اسی کے ہاتھ میں ہے،یہی بندگی کا سب سے حسین راز ہے، یہی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔*

*یہ کتنا بڑا شرف اور کیسی بے پایاں نعمت ہے کہ ہم جیسے بے بس اور ناتواں انسان اُس خدا کے در کے سوالی ہیں،جس کے مقابلہ میں ہماری حیثیت نالی کے ایک حقیر کیڑے سے بھی کم تر ہے،وہی بادشاہِ حقیقی ہے اور ہم اس کے در کے خاکسار غلام ہیں؛ وہی حاکمِ مطلق ہے اور ہم اس کی بندگی کے زنجیروں میں جکڑے محکوم،وہی قوت و طاقت کا سرچشمہ ہے اور ہم محض کمزور و عاجز مخلوق، وہی غنی مطلق ہے جو کسی کا محتاج نہیں، اور ہم ایسے سراپا محتاج کہ ایک سانس تک پر اپنا اختیار نہیں رکھتے۔*

*وہی ہے جو عظمت اور کبریائی کے تخت پر جلوہ فرماہے، اور ہم وہ ہیں جن کی حیثیت ریت کے ایک ذرے سے زیادہ کچھ نہیں،مگر حیرت ہے کہ اسی ربِ جلیل نے ہمیں اپنی بارگاہ میں سر جھکانے اوراٹھانے کی اجازت دی،اپنی رحمتوں کا دروازہ کھلا رکھا، اور اپنے ذکر کے شرف سے نوازا،یہ کرم بھی کیسا کرم ہے کہ بے حیثیتوں کو اپنی قربت کا جام پلایا جا رہا ہے، اور خاک نشینوں کو اپنی دوستی کے راز سکھائے جا رہے ہیں۔*

*میرے دل کی لگی وہ کیا جانے*
*اسے میں جانوں یا خدا جانے*

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔