Site icon

ڈاکٹر جسیم الدین کی کتابیں

از قلم:ڈاکٹر نورالسلام ندوی

 

فاضل مصنف ڈاکٹر مولانا جسیم الدین قاسمی علم و تحقیق اور قلم و قرطاس کے شہسوار ہیں، ان کا مطالعہ گہرا اور قلم پختہ ہے، دینی وعصری علوم کے حسین امتزاج نے فکر و نظر کو جلا بخشا ہے، ان کی تحریریں گہرے مطالعے اور تحقیق و جستجو پر غیر معمولی قدرت کی عکاسی کرتی ہیں، اسلوب میں عصری شگفتگی اور دلکشی پائی جاتی ہے، خوب لکھتے ہیں اور ڈوب کر لکھتے ہیں، عربی واردو کے علاوہ انگریزی اور ہندی زبانوں پر بھی قدرت حاصل ہے، مشہور دینی درسگاہ دارالعلوم دیوبند کے فیض یافتہ ہیں،اس کے ساتھ ہی جامعہ ملیہ اسلامیہ نئی دہلی اور دہلی یونیورسٹی، دہلی سے بھی انہوں نے کسب فیض کیا ہے، جس کے سبب ان کی شخصیت میں جامعیت پیدا ہو گئی ہے، ان کا علمی، ادبی اور قلمی اشتغال و انہماک بھی قابل ستائش ہے، ان کے گہر بار قلم سے متعدد کتابیں نکل کر مقبول ہو چکی ہیں، مثلاً مغازی رسول،اسوہ رسول،اسلام اور امانت داری، اسلام اور ناپ تول، اسلام اور سچائی، اسلام اور عدل و انصاف، اسلام اور پڑوسی، روایات عبدالرحمن الشرقاوی وبریم تشند:دراسۃ و مقارنۃ (عربی) تجلیات الادب العربی(عربی)المفردات والانشاء(عربی) کتابیں بولتی ہیں، شعاع کتب، افکار تازہ،  علاوہ ازیں علمی،ادبی،سیاسی و سماجی موضوعات پر قومی و بین الاقوامی رسائل و جرائد میں ڈھائی سو سے زائد مقالات و مضامین شائع ہو چکے ہیں، عربی واردو خدمات کے اعتراف میں ایوارڈ سے بھی نوازے جا چکے ہیں، دہلی یونیورسٹی کے شعبہ عربی میں بطور گیسٹ لیکچرر تقریبا چھ سالوں تک تدریس کا فریضہ انجام دے چکے ہیں، روزنامہ انقلاب سے بھی ان کی وابستگی رہی ہے،روز نامہ انقلاب کے ادارتی صفحے پر دینی کالم کے تحت "غزوات رسول” کے عنوان سے کئی سالوں تک مسلسل کالم لکھنے کا فریضہ انجام دے چکے ہیں، اسی طرح انقلاب کے ہفتہ وار سنڈے میگزین میں "تعارف کتاب” کے کالم میں نئی کتابوں پر تعارف و تبصرہ لکھنے کا سلسلہ بھی کئی برسوں تک جاری رہا ہے، اس وقت بحیثیت اردو مترجم دربھنگہ کلکٹریٹ میں اپنی خدمت انجام دے رہے ہیں، صلاحیت اور قابلیت کے ساتھ اگر صالحیت نہ ہو تو صلاحیتیں اور قابلیتیں زیادہ موثر اور نفع بخش نہیں ہوتیں، ڈاکٹر جسم الدین صاحب کو خدائے بزرگ و برتر نے صالحیت کے وصف سے بھی متصف فرمایا ہے۔

مغازی رسول 

روزنامہ انقلاب کے ادارتی صفحہ پر دینی کالم کے تحت "غزوات رسول” کے عنوان سے لکھے گئے مضامین کا مجموعہ ہے،محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کا ہر ہر پہلو ہمارے لیے بہترین نمونہ اور آئیڈیل ہے، سیرت مصطفوی چراغ ہدایت ہے، راہ نجات ہے،رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کا ایک ایک گوشہ از اول تا آخر احادیث اور کتب سیرت میں موجود ہے، لا تعداد کتابیں اس موضوع پر ظہور پذیر ہوئیں، دنیا کی متعدد زبانوں میں بے شمار تصنیفات وجود میں آئیں، دفتر کے دفتر بنتے چلے گئے اور ہنوز یہ سلسلہ جاری و ساری ہے،اہل علم و قلم اس موضوع پر خامہ فرسائی کرنا اپنے لیے سعادت اور باعث نجات سمجھتے رہے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا اہم حصہ غزوات اورمغازی پر مشتمل ہے، اس موضوع پر بھی باقاعدہ کتابیں تصنیف کی گئی ہیں، زیر تبصرہ کتاب”مغازی رسول” اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غزوات، سرایا، جنگوں اور ضمناً دوسرے واقعات بیان کئے گئے ہیں، فاضل مصنف نے بڑی خوبصورتی کے ساتھ ایک ایک جزئیات پر روشنی ڈالی ہے اوریہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ ان غزوات کا مقصد صرف قتل و غارت گری نہیں بلکہ اس کا مقصد ظلم و فساد کا خاتمہ،امن کا قیام اور خدائے وحدہ لا شریک کی توحید کا فروغ تھا، ان غزوات میں اسلامی احکام و تعلیمات کی سختی سے پابندی کی جاتی،ضعیفوں، عورتوں اور بچوں سے تعرض نہیں کیا جاتا، مویشیوں، درختوں اور کھیتوں کو تباہ و برباد نہیں کیا جاتا، موجودہ عالمی جنگوں کے پس منظر میں جب ہم غزوات نبوی صل اللہ علیہ وسلم کا جائزہ لیتے ہیں تو اس کی عصری اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے،موجودہ جنگوں میں جس طرح اخلاقی و انسانی احترام کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں، معصوم بچوں، عورتوں اور بے قصوروں کو لقمہ اجل بنایا جاتا ہے،تعلیمی اداروں اور اسپتالوں کو نشانہ بنایا جاتا ہےغزوات نبوی سے رہنمائی حاصل کرنی چاہیے۔

غزوات و سرایا کے ضمن میں مصنف نے جہاد فی سبیل اللہ کے فضائل، جنگ سے متعلق اسلامی اصول و ہدایات، اموال غنیمت کی تقسیم، خمس کا مصرف، اموال فے کا حکم، جزیہ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مختلف سلاطین کی طرف وفود بھیجنا، مختلف ممالک کے سربراہان کے نام خطوط ارسال کرنا، حجۃ الوداع اور خطبہ حجۃ الوداع پر جامع انداز سےروشنی ڈالی گئی ہے، فاضل مصنف نے غزوات کو منطقی ترتیب اور مستند حوالوں کے ساتھ بیان کیا ہے، غزوات اور اس سے متعلق جزئیات پر اتنا مواد فراہم کر دیا ہے کہ قاری کو تشنگی کا احساس نہیں ہوتا۔

ڈاکٹر جسیم الدین کی کتاب مغازی رسول کتب سیرت میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے،اسلوب بیان پر کشش اور شگفتہ ہے، کتاب کی طباعت معیاری اور سرورق جاذب نظر ہے،304صفحات کی قیمت تین سو روپیہ ہے، ناشر مرکزی پبلی کیشنز، نئ دہلی ہے۔

کتابیں بولتی ہیں 

ڈاکٹر جسیم الدین کے تبصروں کا مجموعہ ہے، یہ تبصرے گرچہ مختصر ہیں مگر جامع ہیں، کیونکہ بیشتر تبصرے روزنامہ انقلاب کے ہفتہ وار سنڈے میگزین کے لیے لکھے گئے تھے، طویل تبصرے انقلاب کے کالم” تعارف کتب "کے دائرے سے خارج تھے، البتہ تبصرےمیں کتاب کی اہمیت و معنویت سے بھرپور آگاہی ہوتی ہے اور کتاب کا حسن وقبح اجاگر ہوجاتا ہے، ان تبصروں کے مطالعے سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ مبصر نے کتاب کا بالا ستیعاب مطالعہ کیا ہے، تبصروں کے موضوعات کا دائرہ بہت وسیع ہے، اسلامیات، ادبیات، سیاسیات سماجیات، درسیات، ثقافت، تاریخ، تنقید، تخلیق، تراجم، نثر،نظم، رسائل، جرائد غرض متنوع موضوعات کے کتب پر تبصرے شامل کتاب ہیں، یعنی تنوع کا خاص خیال رکھا گیا ہے، اس لحاظ سے غور کیا جائے تو ہر ذوق ومزاج کےپسندو دلچسپی کا سامان فراہم کر دیا گیا ہے، وہیں یہ اشارہ بھی ملتا ہے کہ مبصر کے مطالعے کا کینوس وسیع اور موضوعات کا دائرہ بسیط ہے، 

انہوں   نے عربی زبان کی کتابوں پر بھی تبصرہ کیا ہے، جس سے دوسری زبانوں کے کتابوں سے بھی آشنائی ہوتی ہے، ان تبصروں کا امتیاز یہ بھی ہے کہ انہوں نے تعریض و تنقیص سے گریز کیا ہے، اور تحسین آمیز انداز اختیار کیا ہے، البتہ موضوع اور مواد سے متعلق اتنے معلومات فراہم کر دیے ہیں جن سے کتاب کی وقعت کا پتہ چل جاتا ہے۔

یہ تبصرے بڑے قیمتی ہیں، یہ ہمیں کتابوں کی اس جہاں میں لے جاتے ہیں جہاں نئی نئی، نو ع بنوع کتابوں سے آشنائی ہوتی ہے، اور معلومات کا بیش بہا خزانہ ہاتھ آتا ہے، مشہور ادیب حقانی القاسمی نے "حرف محبت” کے عنوان سے نہایت جامع اور بیش قیمت تحریر لکھی ہے، جس کے مطالعہ سے ان تبصرے کی اہمیت اور مصنف کی قلم کی صلاحیت کا پتہ چلتا ہے، یہ اقتباس دیکھیے:

"ڈاکٹر جسم الدین نے تبصرے میں اختصار، استناد اور جامعیت کا التزام رکھا ہے اور معروضیت و مقصدیت کا بطور خاص خیال رکھا ہے، کتاب کے مافیہ اور اجزاء و عناصر پر اختصار میں گفتگو کی ہے مگر اس میں اتنے اشارات موجود ہیں کہ قاری کتاب کے جملہ مضمرات و محاسن سے واقف ہو سکتا ہے،انہوں نےتبصروں کے ذریعے موضوع اور مواد سے متعلق معلومات فراہم کرنے کے ساتھ کتاب کی مشمولات کی اہمیت و معنویت سے بھی متعارف کرایا ہے اور تبصرےمیں تعریض و تنقیص سے گریز کرتے ہوئے تشجیعی انداز اختیار کیا ہے‘‘۔

شعاع کتب

 ڈاکٹر جسیم الدین کے تبصروں کا دوسرا مجموعہ ہے،جس کی اشاعت 2022 میں مرکزی پبلی کیشنز، نئ دہلی سے ہوئی ہے،یہ دراصل کتابیں بولتی ہیں کی دوسری جلد ہے، 320 صفحات پر مشتمل اس کتاب میں مختلف علوم وفنون کی 148 کتابوں پر تبصرے موجود ہیں،تبصرے مختصر بھی ہیں اور قدر طویل بھی،البتہ مختصر تبصرہ میں بھی اس بات کی رعایت برتی گئ ہے کہ متذکرہ کتاب کی روح سامنے آجائے، مصنف مقدمہ میں تحریر کرتے ہیں:

"شعاع کتب میں کتابوں کی ایک کائنات آباد ہے، اس میں شاعری ہو یا نثر، تحقیق ہو یا تاریخ، افسانہ ہو یا ناول، صحافت ہو یا ثقافت، رسائل ہو یا جرائد ہر ایک موضوع پر مختلف ادباء کی نگارشات اور شعراء کے مجموعہ کلام پر لکھے گئے تعارف و تبصرے شامل ہیں، یہ تبصرے ہر ذوق وذہن کے لیے متاع قلب ونظر ہے،،۔

ان تبصروں کے مطالعہ سے مصنف اور کتاب کی اہمیت اجاگر ہوتی ہے،قاری کی سہولت اوران کی یسند و ترجیح کے اعتبار سےکتابوں سے استفادہ کے لیے تبصروں کو موضوعات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے،ڈاکٹر جسیم الدین کے تبصروں کا یہ مجموعہ کتب شناسی کی عمدہ مثال ہے،امید ہے کہ اہل علم وذوق شوق کے ہاتھوں سے لیں گے اور پسندیدگی کی نظر سے دیکھیں گے۔

عبد الرحمن شرقاوی اور منشی پریم چند کے منتخب ناولوں کا تقابلی و تنقیدی مطالعہ

 یہ کتاب عربی زبان میں لکھی گئی ہے، یہ دراصل ڈاکٹر جسیم الدین کا تحقیقی مقالہ ہے، جس پر انہیں دہلی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری تفویض ہوئی ہے، اس کتاب میں انہوں نے مشہور مصری ناول نگار عبدالرحمن شرقاوی اور منشی پریم چندر کے منتخب ناولوں کا تقابلی و تنقیدی جائزہ لیا ہے اور دونوں میں مماثلت ومناسبت کی وجہیں تلاش کی ہیں، عبدالرحمن شرقاوی مصر کے مشہور ناول نگار ہیں،انہوں نے اپنے ناولوں میں مصری لوگوں کے مسائل و مشکلات اور وہاں کی سیاسی وسماجی زندگی کے احوال و کوائف کو بیان کیا ہے، منشی پریم چند نے بھی اپنے ناولوں میں ہندوستان کے دیہی علاقوں کی زندگی کی بڑی خوبصورت عکاسی کی ہے اور سماجی نا برابری، ذات پات کے امتیازات، نسلی تفریق، معاشی نابرابری کو موضوع بنایا ہے، کتاب پانچ ابواب پر مشتمل ہے، پہلے باب میں مصر میں ناول کا ارتقا اور اس کا سیاسی وسماجی پس منظر پر روشنی ڈالی گئی ہے، دوسرے باب میں اردو ناول کا آغازوارتقاء اور تیسرے باب میں عبدالرحمن شرقاوی کی زندگی اورخدمات کا احاطہ کیا گیا ہے، چوتھے باب میں پریم چند کی حیات اور ان کی ادبی خدمات پر روشنی ڈالی گئی ہے، پانچواں باب جو دراصل کتاب کا موضوع ہے، اس میں عبدالرحمن شرقاوی اور پریم چندر کے ناولوں کے موضوع، مواد، اسلوب اور کہانی پن کاموازنہ وتقابل کیا گیا ہے، شرقاوی کے عربی ناول الفلاح، الارض، الشوارع الخلفیہ اور پریم چند کے ناول گئودان، میدان عمل اور بازار حسن کا بطور خاص تقابلی مطالعہ پیش کیا ہے، اور یہ بتایا ہے کہ دونوں ناول نگاروں نے خود کو سماجی اور انسانی مسائل سے وابستہ رکھا،دونوں فنکاروں میں یکسانیت کے واضح عناصر انسانی مسائل سے دلچسپی ہے، دونوں نے اپنے اپنے یہاں کے سیاسی وسماجی مسائل واقعات کو اپنے اپنے طور پر بیان کیا ہے۔

 انسانی معاشرے کی تصویر، سماجی مسائل کی عکاسی، سیاسی احوال کی منظر کشی اور حب الوطنی کا جذبہ دنوں کے یہاں قدر مشترک ہے، دونوں میں مماثلت اور فرق کو بھی واضح کیاگیا ہے، اس کتاب کا امتیازی وصف یہ ہے کہ اس میں ایک ساتھ دو الگ زبانوں کے تخلیق کار اور ان کےفن پر روشنی ڈالی گئی ہے اور دونوں میں یکسانیت، مماثلت اور مناسبت تلاش کی گئی ہے، اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اردو تخلیق کار پریم چندکے کارناموں سے عربی دنیا کے لوگ بھی واقف ہو سکیں گے،مصنف کا طرز استدلال اور انداز نگارش دلچسپ ہے، 312صفحے کی کتاب کی قیمت چار سو روپیہ ہے، اسے مر کزی پبلی کیشنز، نئ دہلی نے نفیس کاغذ اور عمدہ طباعت کے ساتھ شائع کیا ہے،امید ہے کہ علمی وادبی حلقوں میں قدر شناسی کے جذبہ سے دیکھی اور پڑھی جائے گی۔

Exit mobile version