از قلم:آفتاب رشک مصباحی
شعبہ فارسی بہار یونی ورسٹی مظفرپور
تعلیم انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ تعلیم کے بغیر نہ کوئی سماج ترقی پذیر ہو سکتا ہے، نہ ترقی یافتہ ۔ اسی لیے پوری دنیا میں تعلیم پر خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ عوامی انفرادی اور اجتماعی کوششوں کے علاوہ حکومت و مملکت باضابطہ تعلیم کے لیے ہر سال اچھا خاصہ بجٹ پاس کرتی ہے۔ اسکولز اور کالجز میں تعلیم و تعلم پر موٹی رقمیں صرف ہوتی ہیں۔ سرکاری سطح پر اساتذہ کی بحالی ہوتی ہے، بعض ریاستوں اور ملکوں میں باضابطہ اسکولز اور کالجز کے قریب چند کیلو میٹر کے اندر ہی اساتذہ کالونیز بنائی جاتی ہیں تاکہ وہ دور دراز کی لمبی اور ٹائم ٹیکر مسافت سے بچ کر زیادہ سے زیادہ وقت بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے درس و تدریس کو دے سکیں۔ ہمارا ملک بھارت جو قدیم زمانے سے تعلیم و تعلم کے میدان میں اپنی نمایاں اور منفرد پہچان رکھتا ہے، مختلف زاویوں سے ملک کو تعلیم یافتہ بنانے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ جس کے نتیجے میں بعض صوبوں کی شرح تعلیم میں کافی کچھ اضافہ ہوا ہے، جب کہ بعض ابھی ترقی پذیر ہیں۔ بھارت کے صوبوں میں تعلیمی اعتبار سے نہایت پچھڑا ہوا صوبہ بہار بھی نتیش کمار کی حکومت میں اپنا تعلیمی گراف بلند کرنے میں لگا ہوا ہے۔ ادھر تقریباً دس بارہ سالوں میں اسکولز اور کالجز میں اساتذہ کی بحالیاں ہوئی ہیں اور ابھی بھی مسلسل ہو رہی ہیں۔ جس کے لیے نتیش سرکار بجا طور پر مبارک باد کی مستحق ہے۔
یوں تو ہماری آنکھوں نے ان بحالیوں کو بھی دیکھا ہے، جو مکھیا اور سرپنچ کے زیر اثر ہوا کرتی تھیں ۔ اف ! کس قدر کرپٹ بحالیاں تھیں۔ ہزاروں نہیں لاکھوں گھونس لیے جاتے تھے۔ جس میں بسا اوقات ہی نہیں، اکثر ایسے لوگ جو تعلیمی اعتبار سے ان عہدوں کے لائق ہوا کرتے تھے ، بحال نہیں ہو پاتے تھے۔ کیوں کہ ان کے پاس گھونس دینے کے لیے لاکھوں روپیے نہیں ہوا کرتے تھے۔ اور سفید پوش مکھیا، سرپنچ، ودھایک اور نیتا لوگوں کی جیب بھرنے والے "پیسہ پھینکو، تماشہ دیکھو” کے تحت کم خواندہ قسم کے لوگ بآسانی بحال ہو جایا کرتے تھے۔ یہ حال صرف اسکولز اور کالجز ہی میں نہیں تھا، بلکہ اسکولز اور کالجز کی طرح بہار سرکار کے تحت چلنے والے دو اور سرکاری بورڈز کا بھی تھا۔ ایک تعلیمی مرکز جس کے تحت اسکولز میں بحالی ہوتی ہے اور دوسرا مدارس جس کے تحت سرکاری مدرسوں میں اساتذہ بحال ہوتے ہیں۔ یہ حال ” تھا” نہیں، بلکہ یہ حال اب بھی ” ہے” ۔ تعلیمی مرکز اور مدارس میں بحال کرنے کے لیے مکھیا ،سرپنچ اور ودھایک لوگ نیز مدارس میں بحال کرنے کے لیے مدرسوں کے صدور و سکریٹیز اور انتظامیہ کمیٹی موٹی رقمیں گھونس میں مانگتے ہیں۔ اور بات ہزاروں میں نہیں ، لاکھوں میں کرتے ہیں۔ ایسے میں اعلی تعلیم یافتہ باصلاحیت اساتذہ ، جن کے پاس علم و ہنر تو ہے، لیکن گھونس دینے کے لیے پیسے نہیں ہیں، بحال نہیں ہو پاتے ہیں۔
بھلا ہو نتیش سرکار ، بہار کے وزیر تعلیم اور بہار اسکول تعلیمی بورڈ کے ممبران کا کہ انھوں نے اسکولز اور کالجز کی بحالی بی پی ایس سی کے تحت کر دی ہے، جہاں آن لائن امتحان پاس کیجیے اور مفت میں بحالی پاییے۔ بی پی ایس سی کے تحت امتحان پاس کرنے کے بعد بحالی کے طریقے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا ہے کہ اب جو اساتذہ بحال ہو رہے ہیں وہ اپنی قابلیت کی وجہ سے بحال ہو رہے ہیں۔ تعلیمی ڈگری کے ساتھ ٹیچر ٹریننگ ڈگری اور سی ٹیٹ پھر بی پی ایس سی پاس کرنے کی وجہ سے کم سے کم وہ پڑھتے لکھتے تو ہیں۔ ان کا علم کسی حد تک مستحضر تو ہے۔ کتابوں سے ایک گونہ تعلق تو ہے۔ مزید جس محنت سے انھوں نے تعلیم حاصل کی اور جس جاں فشانیوں سے بی پی ایس سی نکال کر وہ تدریس کے میدان میں اترے ہیں ان سے نہ صرف حکومت ، بلکہ سماجی سطح پر عوام میں بھی ایک جوش دیکھنے کو مل رہا ہے۔ انھیں بھی اب لگ رہا ہے کہ واقعی سرکاری اسکولز میں اب تعلیم اچھی ہو سکتی ہے۔ ان تمام پر مستزاد جناب کے کے پاٹھک صاحب کی کڑی نگرانی تعلیمی ماحول کو سازگار بنانے میں معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہے۔ انھوں نے جس جرات و ہمت کے ساتھ تعلیمی نظام کو مضبوط کرنے میں عملا اساتذہ کو لگایا ہے”دیر آید درست آید ” کے تحت قابل ستائش کوشش ہے۔ اور یہ نگرانی سرد نہیں پڑنی چاہیے۔کل تک جن اسکولز اور کالجز میں دو چند طلبہ اور دو چند اساتذہ وقت گزاری کر رہے تھے، آج انھیں اسکولز اور کالجز میں سارے اساتذہ اور زیادہ سے زیادہ طلبہ و طالبات تعلیم و تعلم میں مصروف نظر آتے ہیں۔ پورا اسکول بچوں اور اساتذہ سے بھرا رہتا ہے۔ کلاسز فل رہتی ہیں۔ وقت پر اساتذہ اور بچوں کا اسکول آنا اور وقت پر ہی جانا ایک خوش آئند تعلیمی مستقبل کا پیش خیمہ ہے۔
لیکن، بہار سرکار اگر ہر پہلو سے بہار کو تعلیم یافتہ صوبہ بنانا چاہتی ہے اور بہار کی شرح تعلیم میں خاطر خواہ اضافہ کرنا چاہتی ہے تو اسے اسلوکز کی طرح مدارس کی بحالی میں بھی تیزی اور شفافیت لانی ہوگی۔ بی پی ایس سی کے طرز پر مدارس میں بھی مختلف امتحانات سے ہو کر ہی بحالی کا نظام بنانا ہوگا تاکہ مدارس کے صدرو و سکریٹریز کی من مانی رشوت خوری کا بازار سرد ہو اور قابل ، باصلاحیت اساتذہ بحال ہوں تاکہ وہاں کی تعلیمی و تدریسی صورت حال بھی بہتر ہو سکے۔ کتنے ایسے سرکاری مدارس ہیں ، جہاں سالوں کوئی کلاس نہیں ہوتی، صرف وسطانیہ ، فوقانیہ اور مولوی کے فارم بھرے جاتے ہیں۔ بعض سرکاری مدرسے تو ایسےہیں کہ ان کے پاس صحیح ڈھنگ کی کوئی بلڈنگ بھی نہیں ہے جہاں اگر طلبہ پہنچ جائیں تو ان کی کلاس بھی ہو سکے۔ نہ مدرسین کے رہنے کے قابل رہائشی کمرے ہیں ، نہ کلاس روم، نہ کوئی لائبریری ۔ بس ایک ڈھانچہ بنا دیا گیا ہے ۔ سرکاری مدرسے کا بورڈ لگا دیا گیا ہے۔ اساتذہ ہیں ،نہیں ہیں۔ بچے آتے ہیں ،نہیں آتے ہیں۔ پڑھائی ہو رہی ہے، نہیں ہو رہی ہے۔ اس سے کسی کو کوئی مطلب نہیں۔ نہ وہاں بحال مدرسین کو، نہ مدارس چلانے والے صدرو وسکریٹریز اور انتظامیہ کو اور نہ ہی بہار سرکار کو۔ بس ہر سال کوٹے کے حساب سے وسطانیہ ، فوقانیہ اور مولوی کے فارم بھرے جانے چاہیے ۔ ہو گیا کام ختم۔ یہ صورت حال کس قدر افسوس ناک ہے یہ کسی بھی ہوش مند ، باشعور انسان سے پوشیدہ نہیں۔ لیکن” کون سنتا ہے فغان درویش”۔ کس کو پڑی ہے مدارس کے حالات کو بہتر کرنے کی۔ جب خود مسلم سماج ، سرکاری مدارس کے ذمہ داران اور وہاں بحال اساتذہ کو اس کی فکر نہیں ہے تو بھلا کسی کو کیا پڑی ہے سر دردی مول لینے کی۔ مگر، اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ اگر کسی سماج کا ایک حصہ ترقی یافتہ ہونے سے، تعلیم یافتہ ہونے سے پیچھے رہ گیا تو لاکھ کوششوں کے باوجود وہ سماج ترقی یافتہ اور تعلیم یافتہ نہیں ہو سکتا۔ اگر صوبہ بہار کو تعلیم یافتہ اور ترقی یافتہ بنانا ہے تو اس کے تمام تر تعلیمی ڈھانچے اور نظام کو بہتر کرنا ہوگا۔
زمینی سچائی تو یہ بھی ہے کہ کتبے ایسے سرکاری مدارس آپ کو ملیں گے جہاں کئی کئی سالوں سے رٹائڑڈ ہونے والے استذہ کی جگہیں خالی پڑی ہیں۔ لیکن ، کئی سال گزر جانے کے باوجود اب تک وہاں کسی کو بحال نہیں کیا گیا ہے۔ بعض دکھ درد کے مارے ایسے حضرات بھی آپ کو مل جائیں گے جنھوں نے سرکاری نوکری کے لیے مدارس کے صدرو و سکریٹریز حضرات کو لاکھوں روپیے گھونس دیے ہیں ، مگر وہ بھی اب مایوس سے ہو رہے ہیں۔بہار سرکار کو اس حوالے سے نئی پالیسی بنانی چاہیے اور بی پی ایس سی کے تحت یا کم از کم اسی سطح سے اور اسی طرز پر بہار سرکاری مدارس میں بحالیاں لانی چاہیے۔ تاکہ بہار سرکار کے تحت چل رہے اس تعلیمی نظام میں بھی شفافیت آئے اور یہاں کا بھی تعلیمی و تدریسی ماحول بہتر سے بہتر ہو سکے۔ کس قدر مضحکہ خیز بات ہے کہ جن مدارس میں قرآن و حدیث کی روشنی میں رشوت کے حرام ہونے کا سبق پڑھایا جا رہا ہے،وہاں رشوت کے حرام ہونے کا نظریہ رکھنے والے مسلمان عوام کم، علما اور مشائخ (چوں کہ مدارس اکثر یہی کھولتے اور چلاتے ہیں) بحالی کے نام پر لاکھوں لاکھ رشوت کا ماحول بنائے ہوئے ہیں۔ کچھ لوگوں نے تو ایسے ایسے طریقے اپنا رکھے ہیں جسے محاورے میں "چور چور موسیرا بھائی” کہا جانا چاہیے۔ بحالی اپنے ہی خاص رشتہ داروں کی کرتے ہیں اگرچہ دور کا رشتہ دار ہو تاکہ رشوت یا گھوٹالے کا کوئی معاملہ ہو تو آپس ہی میں رہے اور رشتہ داری کی لاج رکھی جائے۔ بعض لوگ رشوت لے کر پہلے ہی فائنل کیے ہوتے ہیں کہ کسے بحال کرنا ہے۔ جھوٹ موٹ کا ایک اشتہار اخبار میں دیں گے اور چند لوگوں کو بلائیں گے ۔ ان کا زبانی انٹرویو لیں گے ، واپس جانے کے چند دنوں بعد میل کر دیں گے کہ جناب ! آپ کا نہیں ہو سکا۔ اور جسے کرنا ہوتا ہے چوں کہ وہ تو پہلے سے طے ہوتا ہے بلاکر رکھ لیا جاتا ہے۔ "سانپ بھی مر گیا اور لاٹھی بھی نہیں ٹؤٹی”۔ بحالی بھی ہو گئی، رشوت بھی مل گئی۔ واہ! بہت خوب ۔ مگر ، تعلیم و تعلم اور صلاحیت و قابلیت کا تو جنازہ نکل گیا۔ لیکن، اس کی کون پروا کرتا ہے۔صلاحیت و قابلیت دیکھیں گے ، پڑھنے لکھنے والے اساتذہ بحال کریں گے تو رشوت کہاں سے ملےگی۔ ہے نا۔ اس لیے بہار سرکار کو اسکولز اور کالجز کی طرح سرکاری مدارس میں بھی بی پی ایس سی کے طرز پر جلد اور صاف و شفاف بحالی لانی چاہیے تاکہ یہاں بھی باصلاحیت اساتذہ بحال ہوں، کلاسز کا نظام بہتر ہو اور بہار ایجوکیشن مدرسہ بورڈ کے ذریعہ صحیح معنوں میں وہاں داخلہ لینے والے طلبہ و طالبات کو بہتر تعلیم مل سکے۔بہار مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ میں اس وقت نئے چیرمین، نئے سکریٹری بحال ہوئے ہیں۔ اس وقت بہار سرکار خصوصی طور پر تعلیمی بحالی اور تعلیمی سطح کو بلند کرنے پر زور دے رہی ہے۔ کاش! ایک کوشش سرکاری مدارس کے حق میں بھی ہو جائے۔ کے کے پاٹھک کی طرح یہاں بھی کوئی دنبگ اور اصول کا پکاشخص آگے آئے اور مدراس کے نظام کو بہتر بنائے۔ بہار سرکار سے امید تو ہے کہ وہ ادھر بھی پہل کرےگی۔ مگر، دیکھیے! رشوت خوری کا کوہرا کب چھٹتا ہے اور بی پی ایس سی کے طرز پر صاف شفاف بحالی کا آسمان کب صاف ہوتا ہے۔ مزید ہمارے مسلم سماج کے لوگ، علما اور مشائخ حضرات کب اپنی پرانی روش ، سستی ، کاہلی، جیسا چل رہا ہے ویسا ہی چلنے دو ، کی لپٹی ہوئی چادر سے کب باہر آتے ہیں۔عوام اور نئی نسل کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے اور صرف بیدار نہیں اس مطالبے کو ایک تحریک کے طور پر آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
ہمیں ہے حکم اذاں لا الہ الا اللہ