Site icon

شارح بخاری شیخ الحدیث علامہ عثمان غنیؒ: شخصیت و خدمات کا ایک جائزہ

از :مفتی محمد خالد حسین نیموی قاسمی 

ایک انسان بفضل الہی اپنی لگاتار محنت  اور مسلسل کوشش و کاوش سے رفعت و بلندی کے کس اعلیٰ مقام پر فائز ہوسکتا ہے؛ اس کی ایک مثال حضرت علا مہ عثمان غنی قاسمی( 2011، 1922) شیخ الحدیث جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور یوپی کی شخصیت ہے۔ 

حضرت علامہ عثمان نے نقطۂ صفر سے آغاز کر کے اس مسند حدیث تک پہنچنے کا شرف حاصل کیا، جس پر اپنے زمانے میں عالمی شہرت یافتہ محدث شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور محدث جلیل مولانا خلیل احمد محدث سہارنپوری، محدث یگانہ حضرت مولانا محمد یحییٰ کاندھلوی فائز ہوا کرتے تھے ۔

 جنھوں نے محض اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے سرور کا ئنات حضرت محمد ﷺ کی احادیث کے لازوال مجموعہ؛ قرآن کریم کے بعد تمام کتابوں میں زیادہ صحیح کتاب امام بخاری کی کتاب  الجامع الصحیح  کی تیرہ جلدوں پر مشتمل اردو زبان میں ایسی مکمل اور شاہ کار شرح لکھنے کارنامہ انجام دیا کہ اردو زبان میں کسی اور نے آپ سے قبل مکمل طور پر یہ کارنامہ انجام نہیں دیا تھا۔ علامہ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، لیکن ان کے تحریری کارنامے اور ان کے تیار کردہ تلامذہ اور شاگردوں کی جماعت انھیں زندہ جاوید رکھنے کے لیے کافی ہے۔

 علامہ عثمان غنی علم حدیث، علم تفسیر، علم فقہ اور میدان خطابت کے یکساں شہسوار تھے ؛ شب و روز ان کی مشام جان ” قال اللہ وقال الرسول” کے صدائے جاں افزا سے معطر رہتی تھی ۔وفات کے بعد بھی ان کی علمی میراث دوسروں کے قلوب کو عشقِ الہی اور محبت رسول سے منور کرنے کی زبردست صلاحیت رکھتی ہے. 

موصوف کا نام عثمان غنی تھا آپ کے والد جناب مولوی عبداللہ گاؤں کے ایک درمیانہ درجہ کے کسان اور دینی مزاج کے حامل تھے، علامہ کی پیدائش ، ضلع بیگوسرائے کے شمال میں تقریباً پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع بستی "چلمل”  میں ۱۹۲۲ ، ( پاسپورٹ میں درج تاریخ کے مطابق ) ہوئی۔

تعلیم تربیت :

آپ کی ابتدائی تعلیم بیگوسرائے قلب شہر میں واقع قدیم ترین دینی درسگاہ مدرسہ بدر الاسلام بیگوسرائے میں ہوئی ،بلکہ متعدد قدیم علماء کا کہنا ہے کہ آپ مدرسہ بدر الاسلام کے بالکل شروعاتی دور کے طلبہ میں سے رہے ہیں، آپ کے اس وقت کے رفقاء میں جناب حافظ محمد ابراہیم میر گنج (مدفون جنت المعلی مکہ مکرمہ) شامل ہیں۔

ابتدائی تعلیم سے فراغت کے بعد متوسطات کی تعلیم مدرسہ محمدیہ عربیہ گوگری، ضلع مونگیر حال ضلع کھگڑیا (قائم کردہ قطب عالم مولانا محمدعلی مونگیری ) میں حاصل کی ۔ آپ کے متوسطات کے اساتذہ میں مفسرقرآن  بیگوسرائے میں علم کے سب سے بڑے معمار استاذ الاساتذہ حضرت مولا نا محمد ادریس نیموی شامل ہیں۔ اسی طرح کچھ ایام بنگلہ دیش میں بھی تعلیم پائی جہاں پر آپ کے والدِ گرامی کا تجارتی مشغلہ تھا ـ 

اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لیے دار العلوم دیو بند کا سفر کیا ۱۹۴۶ء  دارالعلوم دیوبند میں داخلہ لیا اور سن ۱۹۵۰ء میں سند فضیلت حاصل کی ۔ آپ کے اساتذہ میں شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی حضرت علامہ شبیر احمدعثمانی، شیخ الادب مولانا اعزازعلی امروہوی ، علامہ ابراہیم بلیاوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

 آپ نے   دارالعلوم دیوبند میں ایام طالب علمی کے پانچ سال گذارے ، اس دوران آپ نے متعدد اساتذہ کرام کے سامنے  زانوئے تلمذ طے کیا، شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنیؒ سے بخاری شریف، ترمذی شریف اول، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی امروہویؒ سے ترمذی شریف جلد ثانی، ابوداؤد شریف ، شمائل ترمذی او ر ہدایہ نیز حضرت علامہ محمد ابراہیم بلیاویؒ سے مسلم شریف کا درس لیا۔

حضرت علامہ عثمان غنی سابق شیخ الحديث جامعہ مظاہر العلوم سہارنپور کی ایک مجلس میں ایک سلسلہ گفتگو میں دارالعلوم دیوبند کے ماہرِ ادب اساتذہ کا تذکرہ ہونے لگا. اس عاجز نے کہا کہ دارالعلوم دیوبند میں عربی زبان وادب میں سب سے ممتاز حضرت امینی اور دارالعلوم وقف میں سب سے ماہر مولانا اسلام قاسمی ہیں؛ تو علامہ کہنے لگے وقف کے بارے میں تو نہیں پتہ؛ البتہ دارالعلوم دیوبند میں مولانا کیرانوی کے بعد سب سے بڑے ادیب حضرت مولانا ارشد مدنی ہیں، اس کی دلیل یہ ہے کہ جس وقت دارالعلوم میں شیخ منعم نمر جامع ازھر کی طرف سے مبعوث تھے اور یہاں عربی زبان وادب کی تعلیم دیتے تھے، اس وقت حضرت ہمارے شیخ حضرت مولانا حسین احمد مدنی نے انھیں خصوصی طور پر اپنے صاحب زادے مولانا ارشد مدنی کی عربی تعلیم کے لیے مقرر کیا تھا اور انھیں اپنی تنخواہ سے زیادہ اکرامیہ دیا کرتے تھے. ظاہر ہے اس اہتمام کے ساتھ ان کی عربی تعلیم ہوئی ہے تو مہارت تو ہوگی. اس گفتگو کا تذکرہ جب میں نے حضرت مولانا اسلام قاسمی سے کیا؛ تو کہنے لگے کہ حضرت علامہ کی بات اپنے شیخ زادہ کے بارے میں اپنی جگہ. البتہ میرا تو مشاہدہ یہ ہے کہ برجستہ عربی انشاء پردازی اور عربی صحافت میں فی الحال دیوبند میں مولانا امینی  کا کوئی ہمسر نہیں بلکہ وہ طاق ہیں. میں نے کہا حضرت آپ کی بات سے اتفاق البتہ عربوں کے لہجے میں عربی میں برجستہ گفتگو کے معاملہ میں حضرت مدنی امتیاز رکھتے ہیں۔

علامہ عثمان غنی اپنے شیخ ومرشد شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنی پر سو جان سے قربان تھے، ان کا اعتماد بھی آپ پر تھا اور آپ بھی اپنے استاذ گرامی کا اشارہ پاکر اپنے ہم درس استاذ زادہ فدائے ملت حضرت مولانا سید اسعد  مدنی کو مختلف کتب حدیث کے اسباق کا تکرار و مذاکرہ کروایا کرتے تھے. حضرت مدنی کے تمام صاحب زدگان سے آپ کو بڑی محبت وعقیدت تھی۔

 خدمات و سرگرمیاں : اپنی سرگرمیوں کا آغاز امارت شرعیہ کے شعبہ تبلیغ سے کیا۔ بعدہ حضرت مولانا سید عبد الاحد مونگیری قاسمی بیگو سرائیوی ( مصنف "العلالۃ الناجحة تعریب العجالة النافعۃ) کی ایماء پر بنگلہ دیش تشریف لے گئے۔ وہاں ٹکسال ضلع میں ایک مدرسہ میں استاذ حدیث کے طور پر خدمات انجام دینے لگے۔ اس درمیاں انھوں نے متعدد کتا بیں تصنیف کیں، جن میں شرح العقائد النسفیہ کی اردو شرح، جلالین کی اردو شرح، فیض الامامین اور مرآة شرح اردو مشکوۃ قابل ذکر ہیں۔ 

راقم السطور سے حضرت بڑی شفقت کا معاملہ فرماتے تھے. یہ عاجز بھی حضرت کا خوشہ چین تھا. دارالعلوم دیوبند میں رہتے ہوئے عام طور پر حضرت سے استفادہ کے لیے سہارنپور حاضر ہوتا تھا۔

1998 /1999 میں بندہ  از ہر ہند دارالعلوم دیو بند میں معاون مدرس تھا ، وطنی قرابت کی وجہ سے اور خاص تعلق کی وجہ سے استفادہ کی غرض سے علامہ کی خدمت میں سہارنپور آنا جانا ہوتا تھا حضرت نے ایک مجلس میں اپنی بعض کتابوں کے حوالہ سے راقم الحروف سے فرمایا کہ میری بعض کتا بیں وہ بھی ہیں ، جن کے سرورق سے میرا نام غائب ہے ، کچھ ناشروں نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر میرا نام حذف کردیا ہے، چوں کہ یہ کتابیں بنگال، آسام یا بنگلہ دیش میں زیادہ چھپتی ہیں، اس لیے کوئی گرفت کرنے والا نہیں ہے لیکن اندرونِ کتاب بعض مباحث کے اختتام پر یا حاشیہ پر اشاراتی انداز میں، میں نے ع، غ، بہاری. یاع، غ، قاسمی. لکھ رکھا ہے۔ جس سے مصنف کی شناخت ہو جاتی ہے۔ تم چاہو تو اس کا مشاہدہ کرسکتے ہو. دیوبند میں بھی بعض مکتبوں میں میرے نام کے بغیر میری کتابیں مل جائیں گی۔

بنگلہ دیش رہتے ہوئے آپ نے بڑی بیش قیمت تحریری خدمات انجام دیں. بعد ازاں مولانا سید فخر الدین گیاوی  کے ایما پر بنگلہ دیش سے واپس بہار تشریف لائے اور اپنے وطن چلمل ، بیگو سرائے میں اپنے شیخ کی نسبت سے مدرسہ حسینیہ چلمل قائم کیا. مدرسہ حسینہ مدرسہ بدر الاسلام کے بعد قائم ہونے والا اس علاقہ کا دوسرا بڑا مرکز علم ہے۔

بعد ازاں نلنی پاڑہ ضلع ہگلی میں استاذ حدیث اور کر بلا مسجد کلکتہ کے خطیب کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے۔ دگھی ضلع گڈا  جھارکھنڈ میں بہی آپ نے ایک ادارہ قائم کیا اور کچھ دنوں تک اس کی سربراہی کرتے رہے۔

1955ء میں مدرسہ رشید العلوم چترا (جھارکھنڈ) تشریف لے آئے؛ جہاں آپ نے ترمذی شریف و مسلم شریف کا درس دیا۔

مختلف جگہوں پر درس و تدریس اور دعوت وتبلیغ کی خدمات انجام دینے کے بعد دور دراز علاقوں میں بھی آپ کی شہرت پھیل گئی۔ جب ان کے رسوخ فی العلم بالخصوص علم حدیث اور اسماء رجال میں مہارت کا شہرہ گجرات کے علاقہ میں پہنچاَ تو اس علاقہ کے بعض ذمہ داران بالخصوص حضرت مولانا عبد الاحد تارا پوری کے اصرار پر تارا پور گجرات تشریف لے گئے اور  دار العلوم تارا پور میں شیخ الحدیث کے طور پر خدمات انجام دیتے رہے ، انھیں ایام میں انھوں نے بخاری شریف کی مکمل اردو شرح لکھنے کا ارادہ کیا. چوں کہ اب تک بخاری کی کوئی مکمل اردو شرح نہیں لکھی گئی تھی ۔ اکابر کی جو بھی شروحات اردو زبان میں شائع ہوچکی تھیں ان میں سے کوئی بھی  پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکیں تھیں، بلکہ چند جلدوں کے آنے کے بعد یا تو شارح کی وفات ہوجاتی یا کسی اور عذر کی وجہ سے سلسلہ ناقص رہ جاتا۔

اس لیے عام روش ہے ہٹ کر انھوں نے اپنی شرح نصر الباری کی شروعات بخاری جلد دوم کتاب المغازی سے کی ۔ ایک جلد کی تکمیل تاراپور گجرات ہی میں ہوئی۔ جب یہ شرح چھپ کر منظر عام پر آئی ، تو اسے بڑی مقبولیت ملی عام، اردو ترجمہ کے اہتمام اور ترجمۃ الباب کی مختصر وضاحت کی وجہ سے عام حلقوں خاص کر طلبہ کے ما ہیں اسے بڑی مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس سے حوصلہ پاکر انہوں نے اس سلسہ کی تکمیل کا ارادہ کر لیا، اللہ نے ان کے اس عزم کو قبول فرمایا اور تاریخ میں پہلی بار مکمل بخاری شریف کی کوئی مکمل اردو شرح زیور طبع سے آراستہ ہوئی۔اس شرح کی پہلی اشاعت دار التالیف چلمل سے عمل میں آئی، بعد ازاں آپ نے دیوبند کے مشہور اشاعتی ادارہ زکریا بکڈپو سے معاہدہ کیا اور اس کی تمام بارہ جلدوں کی اشاعت انڈیا میں اسی اشاعتی ادارے سے عمل میں آئی. جب کہ پڑوسی ملک پاکستان اور بنگلہ دیش کے مختلف اشاعتی اداروں نے بھی اسے بڑے اہتمام سے شائع کیا۔

گذشتہ دنوں شوشل میڈیا کے ذریعے بخاری شریف کی ایک ایسی شرح سے واقفیت حاصل ہوئی، جس کے بارے میں دعویٰ کیا جارہا ہے کہ  یہ اب تک کی سب سے جامع، تحقیقی اور مفصل ومحقق اردو شرح ہے. شرح کا نام ہے :”کشف الباری عما فی صحیح البخاری” بخاری شریف کی یہ شرح بیس جلدوں پر مشتمل ہے۔ مشہور صاحب قلم عالم دین، ماہنامہ آئینہ مظاہر کے ایڈیٹر جناب مفتی ناصر الدین مظاہری نے اپنے فیس بک جداریہ پر اس شرح کا تعارف یوں درج فرمایا: "بخاری شریف کی سب سے مفصل اور علمی و تحقیقی شرح کا اب تک کا سب سے عمدہ نسخہ۔

افادات:حضرت مولانا سلیم اللہ خان 

ترجمہ بخاری: حضرت علامہ محمد عثمان غنی(شیخ الحدیث مظاہر علوم وقف سہارنپور)

 معیاری طباعت، عمدہ کاغذ اور خوب صورت و مضبوط جلدوں کے ساتھ مکتبۃ النور دیوبند میں دستیاب ہے۔ 

اس جامع شرح میں علامہ عثمان غنی قاسمی سابق شیخ الحدیث مظاہر علوم سہارنپور کا ترجمہ دیکھ کر اس عاجز کو بڑی مسرت ہوئی اور اندازہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص فضل سے علامہ عثمان غنی کے ترجمۂ بخاری کو وہ مقام ومرتبہ عطا کیا ہے وہ مقبولیت عطاء کی جو مقام و مقبولیت مسند ہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کے صاحب زادگان حضرت شاہ رفیع الدین  دہلوی اور شاہ عبد القادر دہلوی کے ترجمہ وتفسیر  کو اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا.. انڈیا کے ساتھ پڑوسی ملکوں میں اس ترجمہ کی بڑے پیمانے  پر پذیرائی آپ کے اخلاص وللہیت کی دلیل ہے..

کشف الباری میں متن کے ترجمہ کے طور پر علامہ عثمان غنی کے ترجمہ کی اشاعت اس امر کی بھرپور عکاسی کرتی ہے. ورنہ ایک اسلامی جمہوریہ کے وفاق المدارس کے صدر اور ایک ممتاز ادارہ کے سربراہ شیخ الحدیث، فخر المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خاں کے درسی افادات و تشریحات کے ساتھ حضرت علامہ عثمان غنی کے ترجمہ کی شمولیت کا اور کیا مطلب ہوسکتا ہے؟کسی اور بزرگ کا ترجمہ بھی درج کیا جاسکتا تھا۔

انتقال پر ایک عشرہ سے زائد عرصہ گذرنے کے باوجود ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت کی ذات طالبان علوم نبوت کے مابین جلوہ افروز ہوکر ان کی علمی رہنمائی کررہی ہے. موجودہ وقت میں شیخ الحدیث مولانا سلیم اللہ خاں کے افادات کے ساتھ حضرت علامہ کے ترجمہ کی اشاعت اس کی واضح دلیل ہے. 

تارا پور گجرات رہتے ہوئے فقیہ الامت حضرت مفتی مظفر حسین ناظم و متولی جامعہ مظاہر علوم (قدیم) کی مردم شناش نظر علامہ عثمان غنی پر پڑی اور انھوں نے موصوف کو مظاہر کے استاذ حدیث کے طور پر مدعو کیا۔

دارالعلوم تاراپور میں ایک عرصہ خدمات انجام دینے کے بعد آپ مفتی مظفر حسین کی دعوت پر   ۹؍شوال المکرم ۱۴۰۹ھ  مطابق سن ۱۹۸۸ء میں جامعہ مظاہرعلوم سہارنپور  تشریف لائے۔

 مفتی مظفر صاحب کی حیات میں بخاری جلد دوم مسلم شریف اول و دوم کی تدریس آپ سے وابستہ رہی۔ بلکہ مفتی صاحب کے اخیر عہد میں بخاری اول کے زیادہ تر حصے بھی آپ ہی مکمل کراتے تھے ۔ آپ کے سینکڑوں تلامذہ کی شہادت سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا درس طلبہ کے درمیان بے انتہا مقبول تھا۔

 مفتی مظفر حسین اجڑاروی صاحب کی وفات کے بعد باضابطہ طور پر شیخ الحدیث کی ذمہ داری بھی آپ کے سپرد کر دی گئی۔ تقریبا ۲۲ سال تک مسلسل جامعہ مظاہر علوم میں استاذ حدیث اور اخیر میں شیخ الحدیث کے طور پر علوم قرآن و سنت کی ترویج واشاعت میں منہمک رہے ۔

آپ  اپنے قد وکاخت کے لحاظ سے بہت مضبوط تھے. گٹھا ہوا بدن، درمیانہ قد، کشادہ پیشانی، کندھے تک لٹکتے بال اور ذہین آنکھیں آپ کی ذہانت کی عکاسی کرتی تھیں. آپ ہمیشہ دو پلی ٹوپی، سادہ لباس اور حسبِ موسم شانے پہ اونی رومال رکھا کرتے تھے ۔

 2002ء میں مدرسہ رحمانیہ سپول، دربھنگہ کے پروگرام میں جاتے ہوئے ایکسیڈنٹ کا شکار ہوجانے کی وجہ سے اخیر عمر میں بیساکھی کے سہارے چلا کرتے تھے، انتہائی سادہ دل، سادہ مزاج اور سادگی پسند تھے۔

تصانیف : حضرت علامہ مجلسی ٹائپ کے آدمی نہ تھے، جن کا بڑا وقت ملاقاتیوں کے ساتھ گپ شپ میں ضائع ہوجاتا ہے؛ بلکہ وہ قلم کے دھنی تھے ، وقت کی ان کے نزدیک بڑی قیمت تھی۔ ضروری امور کے علاوہ سارا وقت مطالعہ اور تصنیف کے لیے نکال کر رکھتے تھے۔ اس لیے اللہ نے جس طرح آپ کی تدریس میں برکت رکھی ، اسی طرح تصنیف و تالیف میں بھی برکت عطا کی۔ آپ کی متعدد چھوٹی بڑی تصانیف میں:

  •  (۱) نصر الباری شرح بخاری مکمل ۱٣جلدیں
  •  (۲) نصر المنعم شرح صحیح مسلم ۔ 
  • (۳) نصر المعبود شرح سنن ابی داؤد 
  • (۴) شرح جلالین اردو 
  • (۵) شرح اردو شرح عقائد نسفی 
  • (٦) شرح ہدایہ۔ 
  • (۷) مرآة شرح مشکوۃ ۔ وغیرہ خاص طور پر مقبول خاص و عام ہوئیں۔

 اسفار : ملک کے تقریبا تمام حصوں کا آپ نے مختلف عنوان سے سفر کیا۔ بیرونی اسفار میں بنگلہ دیش کا ہر سال سفر فر ما یا کرتے تھے، اس کے علاوہ حج بیت اللہ کے لیے سعودی عرب کا سفر بھی کیا۔

 اجازت و خلافت : آپ ابتداء اپنے شیخ حضرت مولانا حسین احمد مدنی سے بیعت ہوئے۔ بعدہ حضرت مفتی مظفر حسین نے آپ کو اجازت دی اور خرقہ خلافت عطا کیا۔

وفات : مورخه ۱۳ صفر ۱۴۳۲ھ مطابق ۱۳ جنوری ۲۰۱۱ء بوقت ۴ بجے صبح روح قفص عصری سے پرواز کرگئی اور اپنے پیش رو فقیہ ملت حضرت مفتی مظفر حسین کے جوار میں مدفون ہوئے نماز جنازہ صاحبزادہ محترم حافظ وقاری محمد عمران مظاہری نے پڑھائی۔ رحمه الله رحمة واسعة۔

بالیقین علامہ عثمان غنی دارالعلوم دیوبند کے ان فخر روزگار قدیم ترین فضلاء میں سے تھے جنہوں نے نہ صرف علمی حلقوں میں اپنی منفرد شناخت بنائی. بلکہ مادر علمی کی پاکیزہ روایتوں کو آگے بڑھایا، افسوس کہ گلشن علم وادب کی آبیاری کرنے والی ایسی عبقری شخصیات کی خاطر خواہ قدر دانی نہ ہو سکی. اللہ تعالیٰ آپ کے چھوڑے ہوئے سرمایہ علم سے ہمیں مستفید ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔

Exit mobile version