Slide
Slide
Slide

کتابیں تہذیبوں کی نگہبان ہوتی ہیں

از قلم: محمد عمر فراہی

 

ویسے مجھے بہت سجاوٹ والی شادیوں سے گھٹن ہوتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اب مصروفیت کے اس دور میں لوگوں سے ملاقات بھی صرف کسی  شادی اور میت میں ہی ہوتی ہے ورنہ اب نہ تو مہمانوں کے آنے پر منڈیروں پر کوے بولتے ہیں اور نہ ہی یوں ہی بے مقصد مہمانوں کے آنے کی روایت ہی باقی رہی ۔کچھ فیصد لوگ جو قوم و ملت کے تعلق سے فکر مند ہیں ان سے اکثر کسی ادبی تقریب یا اجتماعات وغیرہ میں ملاقات ہو جاتی ہے ۔تین دن پہلے جب کتاب میلے میں جانے کا ارادہ ہوا تو میں نے پروفیسر عرفان شاہد اور نہال صغیر صاحب سےکہا اگر آنا ہو تو آ جائیں اسی بہانے وہاں ملاقات ہو جائے گی ۔وہاں گیا تو کچھ ساتھیوں سے اور کافی عرصے کے بعد ملاقات ہوئی ۔فیس بک کے ایک ساتھی شہود صاحب سے ملاقات ہوئی اور ان سے کچھ کتابیں بھی خریدیں ۔قمر صدیقی اور عبید اعظم صاحب سے میری ملاقات میگزین زاد سفر سے ہوئی تھی جس میں ہم تینوں کے مضامین شایع ہوتے تھے ۔قمر سے تو کبھی کبھی ملاقات ہو جاتی تھی لیکن عبید صاحب سے تقریبا دس بارہ سال بعد ملا تھا ۔انہوں نے کہا بہت کمزور ہو گئے ہیں ۔میں نے کہا اصل میں ہم عرصے کی بعد ملے ہیں اس لئے نظر کے فرق اور ظالم عمر کے بڑھتے ہوے سیلاب کی وجہ سے بھی ایسا لگ رہا ہو گا ۔ویسے نظر کا فرق ہونا اتنی معیوب بات نہیں ہے جتنا کہ ہمارے درمیان نظریے کے فرق کی وجہ سے فکری بحران اور انتشار ہے ۔

عبید نے ایک مصنف سے کتاب میلے میں وہی ادبی سوال کیا جو کیا جانا چاہئے تھا یعنی عمر صاحب آپ کی کوئی کتاب وغیرہ ابھی تک شائع ہوئی یا نہیں ۔میں نے کہا کہ ہم جس ترقی پسند ماحول سے گزر رہے ہیں اس میں قاری اور مصنف دونوں ہی مادہ پرست ہو چکے ہیں ۔یعنی دونوں اپنے مفاد اپنی پسند اور خواہشات کو پہلے ترجیح دیتے ہیں ۔

عبید صاحب کے اس کتابی سوال پر مجھے ایک یوروپی ناول نگار کا کردار ذہن میں آیا ۔

البرٹ ایک غریب خاندان کا نوجوان تھا اور علینہ  ایک امیر بات کی بیٹی ۔دونوں کالج کے دور سے ہی ایک دوسرے کو پسند کرنے لگے اور انہوں نے طئے کیا کہ کیوں نہ وہ شادی کے بندھن میں بھی بندہ جائیں ۔علینہ نے اپنے باپ سے بات کی باپ نے کہا لڑکا کیا کرتا ہے ۔اس نے جواب دیا افسانہ نگار ہے ۔باپ نے کہا لیکن کماتا کیا ہے اور کیا وہ ٹھیک سے تمہارا خیال بھی رکھ سکتا ہے ۔علینہ نے اپنے عاشق سے بات کی اس نے کہا اگر تم میرا انتظار کر سکتی ہو تو کرلو ۔میں جب کمانے لگوں گا تو تمہارے باپ سے تمہارا رشتہ مانگ لوں گا ۔علینہ نے کہا میں تو انتظار کر لوں گی لیکن تم کیسے اتنا پیسہ کماؤ گے ۔البرٹ نے کہا میں کتابیں لکھوں گا اور اس کی جو رائیلٹی ملے گی ہم اس سے اپنا خرچ نکال لیں گے ۔البرٹ نے ایسا ہی کیا اور ایک دن وہ ایک مشہور ناول نگار کے نام سے مشہور بھی ہوا اور خوب پیسہ کمایا اور پھر البرٹ اور علینہ شادی کے ازدواجی بندھن میں بندھ گئے ۔

ہندوستان کے اردو افسانہ نگار کو کسی دوشیزہ سے پیار ہو جاۓ اور وہ لڑکی کے باپ کے سامنے مشہور ناول نگار بن کر پیسے کمانے کی شرط پر کسی کی بیٹی کا نکاح موخر کرنے کو کہے گا تو باپ اسی وقت ایسے عاشق کو دھکے مار کر باہر کردے گا کیوں کہ اردو کا مصنف اپنی کتاب کی فروخت سے اپنا خود کا گھر خریدنا تو دور کی بات ٹھیک سے گھر کا خرچ بھی نہیں چلا سکتا ۔مغلوں کے دور تک اردو اور فارسی کے غالب اور خسرو جیسے شاعروں اور ادیبوں کو وضیفے ملتے تھے ۔اب ہم جس سرمایہ دارانہ سیاسی دور میں داخل ہو چکے ہیں اس کا مطالبہ کچھ اور ہے جس کا تذکرہ ہم نے پچھلے مضمون جدید معاشرتی انقلاب میں کیا ہے کس طرح بیسویں صدی میں اردو کے شاعروں اور مصنفوں کی اولادیں اپنے والدین کی خستہ حالی کو دیکھ کر اپنی ترجیحات کا رخ انگلش کلچر اور زبان کی طرف موڑ لیا ہے ۔

وہ مجاہد ہیں جو آج کے دور میں بھی اردو کو زندہ رکھنے کے لئے ادبی نشستیں یا ادبی رسالوں کو جاری رکھے ہوۓ ہیں یا اپنے بچوں کو اردو بھی پڑھاتے ہیں ورنہ اردو مصنفین اور اردو اخبارات کی یہ آخری صدی ہے ۔ہو سکتا ہے مستقبل میں بھی کچھ اردو پڑھنے والے بچ رہیں لیکن ان کے ساتھ اردو مصنف  بھی بچا رہے ہوگا یہ کہنا بہت مشکل ہے ! اور ابھی تو ہمارے درمیان افراد کے ارتداد کا رونا ہے اس وقت کیا ہوگا جب بھارت ایک تہذیب کے ارتداد دکھڑا گایا جاۓ گا !۔

خیر میں نے عبید سے کہا کہ بھائی اتنا ہی کیا کم ہے کہ لکھنے کا سلسلہ جاری ہے ۔جہاں تک کتاب کا تعلق ہے تو ابھی تک ہزار سے اوپر مضامین لکھ بھی چکا ہوں اور اخبارات میں شائع بھی ہوۓ لیکن کتابی شکل دینے کا‌ مطلب ہے اسے لوگوں کو تحفے میں دی جاۓ یا پی ڈی ایف فارورڈ کی جاۓ  ۔چلئے تحفے میں دے بھی دیں تو بھی تحفے میں حاصل کی گئی کتابوں کو پڑھتا بھی کون ہے ؟ شاید یہی وجہ ھے کہ میں نے لکھنے پڑھنے کے ساتھ ساتھ کاروبار کو بھی ترجیح دی تاکہ گھر بیوی بچے اور رشتہ داروں کے طعنے نہ سننے پڑیں ۔لیکن ایک بات میں کہوں گا کہ چاہے اپنے بچوں کو کسی بھی میڈیم سے پڑھائیں جن کی زبان اردو ہے وہ اپنے بچوں کو اردو ضرور سکھائیں کیوں کہ اردو میں آپ کے اسلاف کی تاریخ ہے ۔ایک تہذیب ہے خواہ وہ ناول کی شکل میں ہی کیوں نہ ہو اور ان کا مطالعہ آپ کے ذہن کو سکون فراہم کرتا ہے ۔کل کتاب میلے کا آخری دن ہے اور چھٹی بھی ہے ۔شاید کل ایک بار پھر جانا ہو ۔ہو سکتا ہے کچھ اور کتابوں پر نظر پڑ جاۓ اور کچھ گمشدہ شخصیات سے رابطہ بھی ۔

Leave a Comment

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Scroll to Top
%d bloggers like this: