ازقلم: محمد قمرالزَّماں ندوی
پہلے تو حسن عمل، حسن یقیں پیدا کر
پھر اسی خاک سے فردوس بریں پیدا کر
یہی دنیا کہ جو بت خانہ بنی جاتی ہے
اسی بت خانہ سے کعبہ کی زمیں پیدا کر
دوستو، بزرگو اور بھائیو!
قرآن و حدیث اور تاریخ اسلامی کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ ایمان والوں پر دنیا میں سب سے زیادہ مشکل،ناگفتہ بہ اور پریشان کن حالات ماضی میں آئے اور مستقبل میں بھی آئیں گے اور آج بھی مشکل حالات کا انہیں سامنا ہے، لیکن یہ حالات اور آزمائش ان کے نکھرنے، ان کے بننے اور عند الله ان کے مقبول ہونے کے لیے آتے ہیں، ان حالات سے ان کو پریشان، مایوس، خوف زدہ اور کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے، اللہ تعالیٰ آزمائش اور امتحان کی اس بھٹی میں تپا کر انہیں دنیا و آخرت میں سرخ رو کرنا چاہتے ہیں، اور انہیں اپنی قربت اور جنت جیسی بے مثال ٹھکانہ سے نوازنا چاہتے ہیں۔ آزمائش اور امتحانات تو ایمان والوں کے ہوں گے ہی، قرآن مجید میں اس کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے، الم احسب الناس ۔۔۔۔۔ کیا لوگ یعنی ایمان والے یہ سمجھتے ہیں کہ وہ آزمائے نہیں جائیں گے وہ یوں ہی چھوڑ دئیے جائیں گے۔
حدیث شریف میں آتا ہے کہ یہ دنیا مسلمانوں کے لیے قید خانہ اور کافروں کے لیے جنت یعنی جائے آرام ہے۔
جو اللہ کا جتنا قریبی ہوگا ان پر امتحانات اور آزمائش بھی زیادہ ہوں گے، لیکن یہ حالات اور آزمائش وقتی اور عارضی ہوتے ہیں، اس کے بعد سرخ روئی بلندی اور کامیابی و کامرانی ان کا نصیبہ ہوتی ہے۔
اس لیے حالات ،مشکلات اور مسائل سے مسلمانوں کو کبھی گھبرانا اور مایوس نہیں ہونا چاہیے اور خدا تعالیٰ کے اس وعدہ پر بھر پور یقین ہونا چاہیے کہ مایوس اور کبیدہ خاطر نہ ہو اور ڈر اور خوف نہ کرو، تمہیں سربلند رہوگے، شرط یہ ہے کہ مومنانہ کردار اور اوصاف کے حامل بن جاو۔
دوستو، بزرگو اور دینی بھائیو!
حالات اعمال سے بدلیں گے، دعوت سے بدلیں گے، حسن عمل اور حسن تدبیر،حسن کردار سے بدلیں گے،اور انبیائی مشن سے بدلیں، اس کے لیے حسن عمل، حسن کردار کی سخت ضرورت ہے، ہم اپنے رویئے اور طرز عمل میں کوئی تبدیلی نہ لائیں، عمل سے دور رہیں اپنی ذمہ داریاں ادا نہ کریں اپنے فرائض کو انجام نہ دیں، مومنانہ اوصاف و کردار کے حامل بننے کی کبھی کوشش نہ کریں اور صرف یہ امید رکھیں کہ حالات بدل جائیں گے یہ ممکن نہیں ہے، جب تک کہ خود ہم اپنے اندر تبدیلی پیدا نہ کریں۔
ان اللہ لا یغیر بقوم حتیٰ یغیروا بانفسھم، واذا اراد اللہ بقوم سوء فلا مرد لہ ومالہ من دونہ من وال ۔
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو خود جس کو فکر اپنے حالت کے بدلنے کی
دوستو بزرگو اور دینی بھائیو!!
ملک و ملت کی موجودہ صورتحال کسی سے پوشیدہ نہیں،جو غیر یقینی صورتحال اس وقت یہاں ہے ،اس سے سبھی خائف ہیں، ملک کے سارے باشندے فکر مند ہیں اور عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ چند فرقہ پسند عناصر اور پارٹیا ں ہیں ،جن کی وجہ سے ملک میں ایک بیچنی اور بحرانی کیفیت پیدا ہوگئی ہے ۔ حکومت وقت کے غیر انسانی اور غیر منصفانہ فیصلے نے ایک حشر برپا کر دیا ہے ۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ملک کی بے مثال جمہوری روایات و اقدار اور مذھبی رواداری ختم ہونے کے قریب ہے ۔ جب کہ اب بھی ملک کی اکثریت کا مزاج رواداری ،شانتی، اور امن و سلامتی ،پریم و ایکتا کی راہ پر چلنے کا ہے ۔ لیکن اس کے باوجود امن پسند اور جمہوریت نواز لوگوں کی آواز اس لئے دبی رہتی ہے، کہ ان کے پاس تشہیر اور پروپیگنڈہ کی صلاحیت کم ہے، یہ سچ اور صحیح بات کی اتنی تشہیر نہیں کرپاتے ،جتنا کہ دوسرے لوگ غلط بات کو بھی، اخبارات،ذرائع ابلاغ اور میڈیا کی مدد سے سچ ثابت کرلیتے ہیں ۔ ماضی میں تین طلاق مسئلہ ، جامعہ ملیہ اسلامیہ ۔ علی گڑھ یونیورسٹی اور جے این یو اور کسان آندولن کے معاملہ میں میڈیا اور پولیس کا جو رول اور کردار رہا وہ کسی سے مخفی نہیں ہے، آج ملک میں جو آگ لگی ہوئی ہے،نفرت اور منافرت کا ماحول پنپ رہا ہے اس میں اخبارات اور منافق گودی میڈیا کا سب سے برا کردار ہے،وہ زہر اگل رہا ہے اور اقلیت اور برادران وطن میں دوریاں پیدا کر رہا ہے۔
دوستو اور بزرگو اور بھائیو!
اس وقت خاص طور پر مسلمان بہت ڈرے ، سہمے ہوئے ہیں ۔ جبکہ ان کو ہر حال میں اللہ کے فیصلے پر راضی رہنا چاہیے، اس امتحان اور آزمائش میں بھی کھرا اترنا چاہیے، اس طرح کے حالات سے مایوس نہیں ہونا چاہیے، اگر آج ہم کو زخم لگے ہیں ۔اور ہمارے دل زخمی ہوئے ہیں تو کیا ہوا؟ کل ماضی میں دشمن کے دلوں پر بھی زخم لگے ہیں، ہم سے زیادہ ان کو وار لگے ہیں ۔ اس لئے حالات سے، ماحول سے ،مشکلات سے مایوس،شکستہ، بددل اور کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے ۔ حالات کا رونا رونا،شکوہ و شکایت کرنا، اپنی پریشانی اور بزدلی کا اظہار کرنا، یہ مومن کی شان نہیں ہے ۔ مومن حالات سے نہیں گھبراتا، بلکہ وہ ان حالات کو اپنے لئے سرخ روئی اور عند اللہ مقبولیت اور بلندی کا ذریعہ سمجھتا ہے ۔
دنیا کی محبت اور موت کی کراہیت و ناپسندیدگی، نے آج ہماری حیثیت ایسی کردی ہے، اور ہم کو ذلت و رسوائی اور پستی کے اس مقام پر پہنچا دیا ہے کہ،
آج دشمن ہر چہار جانب سے ہم پر اس طرح ٹوٹ پڑے ہیں جیسے کوئی بھوکا شخص دسترخوان پر کھانے کے لئے ٹوٹ پڑتا ہے، جیسا کہ حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ فرمایا تھا ۔ دشمن ہماری تعداد کی قلت کی بنا پر ہم پر حملہ آور نہیں ہوں گے ۔ ہماری تعداد تو بہت ہوگی، لیکن ہماری حیثیت سمندر کے جھاگ کی طرح ہوگی ۔ یہ پیشن گوئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تھی، اس امت کے لئے، صحابئہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا کہ یہ حالت ہماری کیوں ہوگی؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تمہارے اندر وہن پیدا ہو جائے گا ۔ صحابہ کرام نے پوچھا وہن کیا ہے؟ دنیا سے محبت اور دشمن سے پنجہ آزمائی سے گریز کا پیدا ہوجانا ۔
اس وقت یقینا پوری دنیا میں اور خاص طور پر ہندوستان میں مسلمان بالکل اسی صورت حال سے دوچار ہیں ۔
اس لئے ضرورت ہے کہ ہم اپنے اندر سے موت کے ڈر و خوف اور دنیا سے اندھی محبت کو ختم کریں ۔ صبر و استقامت سے کام لیں اور اپنے اندر ایمان و یقین کی طاقت کو مضبوط کریں خوف و ہراس کو نکال پھینکیں اور یہ یقین رکھیں کہ اگر پوری دنیا کے لوگ مل کر ہمیں نقصان پہنچانا چاہیں ،اور اللہ کی مرضی نہیں ہے تو ہمیں بال برابر نقصان نہیں پہنچا سکتے ۔ اور اگر پوری دنیا مل کر ہمیں نفع پہنچانا چاہے ، لیکن اللہ کی مرضی نہ ہو تو ،لوگ ہمیں نفع نہیں پہنچا سکتے ،اس پر ہمیں مکمل یقین اور ایمان ہونا چاہیے ۔ موت کے بارے میں ہمارا یہ یقین اور ایمان ہونا چاہیے کہ موت اللہ کے حکم سے آتی ہے ،اس میں انسان کے عمل اور مرضی کو دخل نہیں ہے ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ پوری زندگی اسلام سے پہلے اور اسلام لانے کے بعد جنگ میں گزری ۔ پورے جسم پر زخم کے نشانات تھے ۔ ان کی چاہت تھی کہ شہادت کی موت ملے لیکن اللہ کو منظور تھا کہ ان کو غازی اور فاتح کی حیثیت سے بستر پر موت ہو ۔ ان کی موت میدان شہادت میں نہیں ہوئی بلکہ بستر مرگ پر ہوئی ۔ اس لئے موت کے بارے میں ہمارا پختہ یقین ہونا چاہیے کہ یہ اللہ کے حکم اور اس کی مرضی سے آئے گی ۔
اس وقت مسلمانوں میں ایک طبقہ وہ ہے جو یا تو منافقانہ کردار ادا کر رہا ہے یا وہ لوگ اپنے کو خوف و ہراس میں مبتلا کئے ہوئے ہیں اور کفر وشرک کی ہمنوائی میں ایک دوسرے سے سبقت کر رہے ہیں ۔ مشرکانہ رسوم و رواج اور غیر شرعی اعمال کا حصہ بن رہے ہیں اور اس میں مالی تعاون کر رہے ہیں اور اس پروگرام کا حصہ بننے کے لیے بے چین ہیں اپنی مالیت کا ایک بڑا حصہ اس میں صرف کر رہے ہیں ، کوئی اپنے زعم اور گمان میں وہاں عقیدت سے پہنچ کر حکومت وقت کی خوشنودی حاصل کرنا چاہتا ہے اور مذہبی رواداری کا بھرم قائم کرنا چاہتا ہے۔ کوئی سبیل اور کھانے کے ہوٹل کھول کر اپنی ہمنوائی ثابت کر رہا ہے ، کوئی رام جی کی تصویر بنا کر بیچ رہا ہے اور روپیہ کمانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ یہ سب ایمان و عمل کی کمزوری کا نتیجہ ہے ، ایسے لوگوں کو خاص طور پر اپنے اعمال و افعال کا محاسبہ کرنا چاہیے ۔۔۔
اس وقت ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم اپنی ایمانی طاقت کو مضبوط بنائیں اور اللہ پر یقین و اعتماد کو مستحکم کریں ،قرآن حکیم میں مشکل حالات اور نازک مواقع پر جو تعلیمات دی گئی ہیں اور رہبری کی گئی ہے ہم اس کو اپنے لئے مشعل راہ بنائیں ،اس کی روشنی میں اپنی زندگی گزاریں اور خاص حالات میں جن چیزوں کو اپنانے کی تاکید کی گئی ہے ہم اس کو اپنائیں خاص طور پر سورہ آل عمران میں غزوئہ احد کی ظاہری شکست کے پس منظر میں جو آیتیں نازل ہوئیں ہیں ان کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالیں ۔ علماء نے ان آیات کے حوالے سے، جو کچھ لکھا ہے اس کا خلاصہ ہم بیان کرتے ہیں ۔
دوستو!
قرآن مجید ایک بے مثال رہ نما کتاب اور گائڈ بک ہے _ اس میں زندگی کے ہر مسئلے،اور ہر مشکل کا حل موجود ہے، اور اس میں ہر موقع کے لیے جامع اور مکمل رہ نمائی کی گئی ہے _ ہندوستانی مسلمان اس وقت جس مشکل صورت حال سے گزر رہے ہیں، اس سے نمٹنے کے لیے انھیں سورۂ آل عمران میں مذکور قرآنی ہدایات کو اپنے پیش نظر رکھنا چاہیے اور خاص طور پر اس کی درج ذیل آیت کو، _ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم
اَلَّذِيۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الۡقَرۡحُ ۛؕ لِلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡهُمۡ وَاتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِيۡمٌۚ ۞ ( آل عمران : 172 )
” جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہا اُن میں جو اشخاص نیکوکار اور پرہیز گار ہیں اُن کے لیے بڑا اجر ہے _ "
سورۂ آل عمران غزوۂ احد (3ھ) کے بعد نازل ہوئی تھی _ اس غزوہ میں مسلمانوں کی ایک غلطی کی وجہ سے انھیں خاصا جانی نقصان اٹھانا پڑا تھا _ تقریباً 70 جلیل القدر صحابہ شہید ہوگئے تھے _ اس سورت میں غزوۂ احد پر مفصّل تبصرہ کیا گیا ہے ، اس موقع پر مسلمانوں سے سرزد ہونے والی کوتاہیوں پر تنبیہ کی گئی ہے ، ساتھ ہی ان کی ڈھارس باندھی گئی ہے ، انھیں حوصلہ دیا گیا ہے اور آئندہ کے لیے راہِ عمل دکھائی گئی ہے _ ہمیں درج ذیل نکات پر غور کرنا چاہیے :
- (1) زخم لگنے کے بعد دل شکستہ نہ ہو
کہا گیا کہ یہ حقیقت ہے کہ تمھیں زخم لگا ہے ، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ تم حوصلہ ہار بیٹھو _ زندگی میں ایسے مواقع بار بار آتے ہیں کہ نتائج توقع کے مطابق نہیں آتے ، لیکن یہ صورت حال تمھارے ساتھ خاص نہیں ، تمھارے دشمن بھی اس سے دوچار ہوتے ہیں _ چنانچہ اسی سورت میں مسلمانوں کو مخاطب کرکے کہا گیا : ” اِس وقت اگر تمھیں زخم لگا ہے تو اس سے پہلے ایسا ہی زخم تمہارے مخالفِ فریق کو بھی لگ چکا ہے _” ساتھ ہی اس معاملے میں اللہ کی سنّت بھی بیان کردی گئی : ” یہ تو زمانہ کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہتے ہیں _ ” ( آل عمران :140 )
- (2) اللہ اور رسول کی پکار پر لبیک کہو
کہا گیا کہ ان حالات میں بھی ، جب تم زخم خوردہ اور غم سے نڈھال ہو اور تمھارے دل چور ہیں ، اللہ اور اس کے رسول کی ہدایات کو پیش نظر رکھو ، ان کی آواز کی طرف کان لگائے رہو ، دیکھو کہ ان کا کیا حکم ہے؟ فوراً اس کی طرف دوڑ پڑو ۔
- (3) احسان کی روش اختیار کرو
کہا گیا کہ ان ناگفتہ بہ حالات میں بھی ‘احسان’ کی روش اختیار کرو _ ‘احسان’ یہ ہے کہ ہر کام کو اعلیٰ معیار کے ساتھ انجام دینے کی کوشش کی جائے _ اللہ کے ساتھ تعلق بھی مثالی ہو اور اللہ کے بندوں کے ساتھ تعلق بھی امتیازی نوعیت کا ہو _ ‘جیسے کو تیسا’ پر عمل نہ کیا جائے ، بلکہ جن لوگوں نے عداوت کی ہو اور تکلیفیں پہنچائی ہوں ان کے ساتھ بھی اچھا برتاؤ کیا جائے _
- (4) تقویٰ اختیار کرو
کہا گیا کہ تقویٰ اختیار کرو _ ‘تقویٰ’ یہ ہے کہ اپنے ہر عمل میں دیکھا جائے کہ اس سے اللہ کی رضا حاصل ہوگی یا اس کی ناراضی کو مول لینا پڑے گا _ جس طرح خار دار جھاڑیوں کے درمیان چلتے ہوئے آدمی اپنے کپڑے سمیٹ لیتا ہے کہ وہ کانٹوں میں الجھ نہ جائے اسی طرح آدمی کو زندگی گزارتے ہوئے ہر دم چوکنّا رہنا چاہیے کہ اس سے کوئی ایسا عمل سرزد نہ ہوجائے جو اللہ کے غضب کو بھڑکانے والا ہو _ یہی تقویٰ ہے _
- (5) اجرِ عظیم کی بشارت قبول کرو
کہا گیا کہ جو لوگ مشکل ترین حالات میں ، زخم لگنے کے بعد بھی ، پامردی دکھائیں ، استقامت کا مظاہرہ کریں ، اللہ اور اس کے رسول کی پکار پر لبیک کہیں ، احسان کی روش پر چلیں اور تقویٰ اختیار کریں ان کے لیے اللہ نے بڑے اجر کا وعدہ کیا ہے اور جس چیز کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے کیا ہو اس کے پورا ہونے میں کیا شک ہوسکتا ہے _
سخت حالات میں اللہ تعالٰی کی طرف سے کتنی واضح رہ نمائی ہے؟!
کتنے دو ٹوک الفاظ میں راہِ عمل کی نشان دہی کی گئی ہے؟!
اس راہ پر چلنے والوں کے لیے کتنی بڑی خوش خبری دی گئی ہے؟ کیا ہم اس کو قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کے لیے تیار ہیں؟ کیا اس کی روشنی میں زندگی گزارنے اور اس کے مطابق لائحہ عمل طے کرنے کے لیے تیار ہیں؟!
دوستو اور دینی بھائیو!
اس کے ساتھ ہی ساتھ موجودہ حالات میں ہماری اور آپ کی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم بیدار رہیں، ہوشیار رہیں، تیار رہیں، غفلت اور بے خبری کی نیند سے بیدار ہوجائیں، اگر ہم بیدار ہوجائیں گے، ہم چوکس اور ہوشیار ہوجائیں گے، تو ہماری ہمت اور ہمارا حوصلہ باطل کے سازشوں کو ناکام کردے گا ، ملک کو صحیح سمت کی طرف ہم لے جا سکیں گے، ہماری یہ بھی ذمہ داری ہے کہ ہم یہاں کے باشندوں کو مانوتا اور انسانیت کی حقیقت اور اہمیت کو بتائیں، برادران وطن کو سمجھائیں اپنے وطنی بھائیوں اور پڑوسیوں کو بتائیں کہ اس ملک کو غلط سمت اور غلط رخ کی طرف لے جایا جارہا ہے، اس ملک میں خانہ جنگی کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، نفرت کا زہر گھولا جارہا ہے۔ ہم ایسا ماحول بنائیں کہ ہم سب کو ساتھ لے کر چلیں، ہم ایسا ماحول بنائیں کہ ہر کوئی اس ملک میں امن و سکون کے ساتھ خوش حالی کے ساتھ زندگی بسر کرے، وہ کسی مذہب کے ماننے والے ہوں اور کسی تہذیب پر عمل کرنے والے ہوں، اس ملک کو بچانا ہے تو اس کے لیے تمام انصاف پسند لوگوں کو سامنے آنا ہوگا، انسانیت کے درد کو سمجھنا ہوگا، پیار و محبت کی سوغات کو باٹنا ہوگا۔