Site icon

مولانا آزاد تعليمى مركز

از: ڈاكٹر محمد اكرم ندوى

آكسفورڈ

أهيم بليلى ما حييت وإن أمت

أوكل بليلى من يهيم بها بعدي

"ذرا عمر رفته كو آواز دينا”، سنه 1394/1974 كے تعليمى سال كے آخر ميں ضياء العلوم كے طلبه واساتذه رياض العلوم گورينى منتقل ہونے لگے، گورينى ميرے گهر سے كچه دورى پر تها، اور وہاں جانا دشوار تها، ابا نے ميرا داخله مولانا آزاد تعليمى مركز اسرہٹه ميں كرواديا، مدرسه كے بغل ميں مولانا آزاد انٹر كالج بهى تها، ميرے پهوپهى زاد بهائى اس ميں پڑهتے تهے، مدرسه اور كالج دونوں كى انتظاميه ايكـ ہى تهى، اور دونوں كى نسبت مولانا ابو الكلام آزاد عليه الرحمة كى طرف تهى، كالج كے نوے فيصد طلبه مسلمان تهے، كالج اور مدرسه كى بلڈنگ بہت خوبصورت تهى، آراستگى، صفائى اور حسن ورعنائى كا نمونه، شارع عام پر واقع يه عمارتيں ره رووں اور مسافروں كو اپنى طرف متوجه كرتيں، مدرسه ميں كلاس شروع ہونے سے پہلے اقبال كا ترانه اجتماعى طور پر پڑها جاتا:

چين وعرب ہمارا ہندوستاں ہمارا

مسلم ہيں ہم وطن ہے سارا جہاں ہمارا

 ميں نے ضياء العلوم كے درجۂ عربى اول ميں ميزان، منشعب، نحو مير، پنج گنج اور شرح مائة عامل پڑهى تهى، مولانا آزاد ميں عربى اول كا نصاب كچهـ اور تها، يہاں مولانا حميد الدين فراہى كى كتابيں اسباق النحو اول (نحو)، اسباق النحو دوم (صرف) اور تحفة الاعراب پڑهائى جا رہى تهيں، يه كتابيں تقسيم مسائل اور ترتيب ميں درس نظامى كى كتابوں سے بہت مختلف ہيں، بعض عرب علماء كى خواہش پر ان كتابوں كا تعارف ميں عربى ميں لكهـ رہا ہوں، اس سے ان كى خصوصيات سمجهنے ميں مڈ ملے گى۔

 عربى اول كے نصاب ميں انگلش بهى داخل تهى، امتحان ميں صرف دو مہينے باقى تهے، ميں نے اس قليل عرصه ميں پورے سال كا نصاب مكمل كرنے كے لئے بڑى محنت كى، نحو اور صرف ميں دوسرے طلبه سے ممتاز تها، اور امتحان ميں مجهے سب سے زياده نمبر ملے، البته انگلش ميں ميرى كار كردگى اتنى اچهى نه رہى۔

 اس مدرسه كے اكثر اساتذه اصلاحى، كچه قاسمى، اور دو تين جديد تعليميافته تهے، يہاں كے جن اساتذه نے مجه پر غير معمولى اثر ڈالا، ان پر عليحده مضامين لكهنے كا اراده ہے، ميرى كتاب (الجامع المعين) ميں تمام اساتذه كا تذكره ہے، ان اساتذه كى شفقت وبے لوثى كى داستانيں اب تكـ ناخن بدل ہيں۔

صحبتيں اگلى مصور ہميں ياد آئيں گى

كوئى دلچسپ مرقع نه دكهانا ہرگز

نظام تعليم ونصاب پر مدرسة الاصلاح كى گہرى چهاپ تهى، درس نظامى كى بهى دو ايكـ كتابيں پڑهائى جاتى تهيں، مگر ان كى حيثيت مخمل ميں ٹاٹ كے پيوند كى تهى، وه كتابيں اس قدر پهيكى تهيں كه درس نظامى سے تنفر بڑهتا گيا، اس مدرسه كى ايكـ اہم خوبى يه تهى كه يہاں ديہاتى زبان بولنے كى اجازت نہيں تهى، تعليم فصيح اردو ميں ہوتى، اور طلبه بهى اردو ميں بات كرتے، جبكه ضياء العلوم ميں ديہاتى زبان كا رواج تها، يہاں كى ٹوپى بهى ضياء العلوم سے مختلف تهى، ٹوپى اجمل كيپ كے نام سے جانى جاتى تهى، يعنى وه مسيح الملكـ حكيم اجمل خاں كى ٹوپى كے طرز پر ہوتى تهى، نيز يہاں كا لباس كرتا اور پائجامه تها اور لنگى پہںنے پر پابندى تهى۔

 ميں اس مدرسه كى ہر چيز كا موازنه ضياء العلوم سے كرتا تها، شروع ميں ضياء العلوم كى ياد آتى رہى، كئى بار رياض العلوم جانے كا اراده كيا، مگر ابا راضى نہيں ہوئے، كشمكش كا يه مرحله جلد ہى گزر گيا، اور مجهے يه مدرسه اچها لگنے لگا، يه وه وقت تها جب ميرے اندر انقلابات رو نما ہو رہے تهے، احساسات وجذبات بيدار ہو رہے تهے، اور فكر پخته ہو رہى تهى، بقول اكبر اله آبادى: كيا چيز جى رہى تهى، كيا چيز مر رہى تهى۔

 مجهے جن اساتذه سے يہاں پڑهنے كا شرف حاصل ہوا بلا مبالغه وه نابغۂ روزگار تهے، ان ميں سے كئى اساتذه اپنے اپنے فن ميں جس مقام كمال كے مسند نشيں تهے اس رتبه كے لوگ اس دنيا ميں نادر الوجود ہيں، ان كى خوبياں بيان كرنے كے لئے ايكـ دفتر دركار ہے، اختصار كے پيش نظر چار اوصاف پر اكتفا كرتا ہوں:

1- علمى لياقت: يه اساتذه اردو اورعربى زبان وادب كے ماہر تهے، ان كى نحو دانى ٹهوس تهى، اردو اور عربى شاعرى ميں ان كا ذوق معيارى تها، قرآن كريم سے ان كو والہانه تعلق تها، كتاب الہى ان كے نزديكـ سر چشمۂ ہدايت اور نور بصيرت تهى، قرآن كريم كا متن براه راست پڑهاتے، اور كسى انسانى تشريح كو بيان ربانى پر غالب ہونے سے ابا كرتے، اس اعتراف ميں كوئى تامل نہيں كه قرآن كريم كى جو عظمت اصلاحى اساتذه كے يہاں تهى وه كہيں اور نظر نہيں آئى، يه اساتذه ان علمى وتاريخى موضوعات پر آزادى سے گفتگو كرتے جو دوسرى جگہوں پر شجر ممنوعه سمجهے جاتے ہيں، ان كى بلند پروازى كا وه پست ہمت تصور نہيں كر سكتے جو ہر وقت يه صدا لگاتے رہتے ہيں: قدم سنبهال كے ركهيو يه تيرا باغ نہيں۔

2- زہد وقناعت: ان اساتذه كى تنخواہيں بہت كم تهيں، معمولى كپڑا پہنتے، اور ساده كهانا كهاتے، "درويش صفت باش وكلاه تترى دار” كا نمونه تهے، انہيں آمدنى بڑهانے كى كوئى خواہش نہيں تهى، نه وعظ وخطابت ان كا مشغله تها، نه مشيخت اور پيرى مريدى سے كوئى مناسبت، نه كوئى بزم سجاتے، نه ديوان خاص وديوان عام كا رعب جماتے، اور نه تحفے تحائف قبول كرتے: نه ستائش كى تمنا نه صله كى پروا۔

مولانا آزاد كے اساتذه صحابۂ وتابعيں كے طريقوں كو سينه سے لگائے ہوئے تهے، طبقاتى تقسيموں سے دور تهے، اپنے سارے كام خود كرتے، كسى طالبعلم سے خدمت نه ليتے، درس نظامى كے مدرسوں كا ايكـ معيوب پہلو يه ہے كه ہر استاد كا ايكـ خادم ہوتا ہے، جب ميں ندوه آيا تو ديكها كه يہاں بهى طلبه سے خدمت لينا ممنوع ہے، مفكر اسلام حضرت مولانا سيد ابو الحسن على ندوى رحمة الله عليه طلبه كو خادم بنانے كے كلچر كے سخت ناقد تهے۔

3- مضبوط شخصيت: يه اساتذه بلند اخلاق وكردار كے حامل تهے اور عزم وحوصله كے مالكـ، ان كے اندر بلا كى خود اعتمادى تهى، وه دليل كے متبع تهے، ان كے نزديكـ بزرگوں كے اقوال وافعال حجت نہيں تهے، يہاں اكابر، اصحاب معرفت اور مشائخ طريقت وغيره كے الفاظ كا گزر نہيں تها، ان كے افكار وخيالات كى پشت پر عقلى ونقلى دلائل ہوتے، ان شہبازوں كى تربيت سے طلبه كى كيفيت تهى: كبوتر كے تن نازكـ ميں شاہيں كا جگر پيدا۔

4- حقيقى اسلام: ان كى صحبت ميں مجهے حقيقى اسلام اور رسمى اسلام كا فرق محسوس ہوا، ہميں سكهايا جاتا كه مرجعيت صرف خدا وپيغمبر كو حاصل ہے، ضياء العلوم ميں تصوف نظام تعليم كا غالب حصه تها، يہاں تصوف كا نام ہى سننے ميں نہيں آيا، ابدال واقطاب كى اصطلاحات يہاں نا مانوس تهيں، شروع ميں بہت سے باتوں ميں ميرى سبكى ہوئى، ميں بعض مسائل كو مسلمات سمجهتا اور ان كا دفاع كرتا، ميرے دوسرے ساتهى ہنستے كه تم جن امور كو حق گردانتے ہو وه صرف تصوف اور درس نظامى كے رسوم ہيں، ان كا دين سے كوئى تعلق نہيں۔

 يہاں ميرى عربى بہت مضبوط ہوگئى، ميں آسانى سے قديم عربى شاعرى اور نثر سمجه ليتا، اور عربى لكهنے كى بهى اچهى مشق ہوگئى تهى، ميں جب رياض العلوم كے اپنے پرانے ساتهيوں سے ملتا، ان سے صرف ونحو كے مسائل پوچهتا، ان كے پاس كوئى جواب نہ ہوتا، اس سے مولانا آزاد كى تعليمى برترى كا يقين بڑهتا گيا، ميں نے ندوه ميں نحو وصرف نہيں پڑهى، صرف ونحو كى ميرى مكمل تعليم ضياء العلوم اور مولانا آزاد كى رہين منت ہے، مولانا آزاد ميں عربى زبان سے عشق بڑها، "مصباح اللغات” خريدى، اور اس كى مدد سے عربى نصوص كا مطالعه شروع كيا، مدرسه سے گهر واپس آتا تو درسى وغير درسى كتابوں ميں منہمكـ ہو جاتا، لذت وسرور ميں ڈوب جاتا، بے خودى كا غلبه ہوتا، بلكه نشه كى كيفيت طارى ہوتى:

ره رواں را خستگى راه نيست

عشق خود راه است وہم خود منزل است

 ميں ہر روز سائيكل سے مدرسه آتا جاتا تها، لنچ كے وقت كالج اور مدرسه كے طلبه ايكـ دوسرے كے ساته وقت گزارتے، اور اپنى اپنى كلاسوں ميں جو كچه پڑهتے اس كا مذاكره كرتے، صاف محسوس ہوتا تها كه مدرسه كا تعليمى معيار كالج سے بہتر ہے، مدرسه كے اساتذه وقت كے پابند تهے اور محنت سے پڑهاتے تهے، سيكولر موضوعات ميں بهى مدرسه كے طلبه كالج كے طلبه سے آگے تهے، چهٹى كے وقت گروپ بندياں ديدنى ہوتيں، مقابلے ہوتے، لڑائياں ہوتيں، پاره كمال كے لڑكوں كى تعداد زياده تهى، ان ميں اتحاد تها، ان كى دهاكـ بيٹهى ہوئى تهى، مدرسه اور كالج كے طلبه ان سے خائف رہتے۔

 مدرسه كے ذمه داروں نے ايكـ بار قارى طيب صاحب مہتمم دار العلوم ديوبند رحمة الله عليه كو تقرير كرنے كے لئے مدعو كيا، مدرسه سنوارا گيا، چراغاں كيا گيا، جشن كا سماں تها، قارى صاحب ايكـ كامياب مقرر تهے اور با وقار شخصيت كے مالكـ، ان كى تقرير پسند كى گئى اور ايكـ عرصه تكـ اس كا چرچا رہا، اس كے بر عكس ايكـ بار مولانا حقانى صاحب يہاں آئے، وه ايكـ عوامى واعظ تهے، اصلاحى اساتذه نے ان كى بہت سى باتوں پر تنقيد كى، مدرسه پر ان كا رنگ نہيں جما، يہاں مولانا نجم الدين اصلاحى، مولانا داود اكبر اصلاحى وغيره بهى وقتا فوقتا تشريف لاتے اور اساتذه وطلبه كو فيضياب كرتے۔

 مولانا آزاد ميں علامه شبلى كا نام بار بار سنا، يہاں ان كى بعض كتابوں كا مطالعه كيا، مولانا فراہى كى فكر سے واقفيت ہوئى، مولانا حالى كى مسدس كا ايكـ حصه پڑها، اقبال كى شاعرى سے انسيت پيدا ہوئى، ضياء العلوم ميں صبح وشام مولانا تهانوى كا نام ليا جاتا تها، يہاں مولانا تهانوى كا كوئى ذكر نہيں تها، يہاں ہر چيز علم وعقل كى كسوٹى پر جانچى جاتى، نه كسى بزرگ كا حواله ديا جاتا، نه كرامتوں، كشف والہام، اور خوابوں كا ذكر ہوتا، يہاں كى كتاب صرف خدا كى كتاب تهى، ضياء العلوم اور مولانا آزاد تعليمى مركز ايكـ دوسرے سے بمشكل چار پانچ كلو ميٹر دور تهے، مگر دونوں كى دنيا الگ الگ تهى: يوں كئے كس نے بہم ساغر وسنداں دونوں۔

يہاں آكر پہلى بار مجهے احساس ہوا كه عقل كا كام سوچنا ہے، اور يه بات راسخ ہوتى گئى كه دوسرے مدرسے زياده تر روايتوں كى تكرار كرتے ہيں، تحصيل حاصل ميں وقت ضائع كرتے ہيں: كند مكتب ره طے كرده را طے۔

 جب كالج كے ہندو طلبه سے جنگ آزادى كے ہندو اور مسلم ليڈروں پر گفتگو ہوتى تو ميں ان كے سامنے دلائل ديتا كه قائدانه صفات ميں مولانا محمد على جوہر اور مولانا آزاد گاندهى اور نہرو سے بدرجہا بہتر تهے، اور كبهى كبهى يه مباحثه شدت اختيار كر جاتا، اور دوسرے طلبه تماشا ديكهتے۔

 يه مدرسه جونپور كے ايكـ گاؤں ميں واقع تها، مگر اس كى علمى وفكرى سطح مشہور مدرسوں سے كسى طرح كم نه تهى:

خاكساران جہاں را بحقارت منگر

تو چه دانى كه دريں گرد سوارے باشد

Exit mobile version