Site icon

یوپی میں مدارس کا مستقبل (1)


✍محمد عباس ازہری مصباحی

١:آج لکھنؤ ہائی کورٹ میں یوپی مدرسہ بورڈ سے منظور شدہ امداد یافتہ اور غیر امداد یافتہ مدارس اسلامیہ کے ہر پہلو پر سماعت جاری ہے اور یہ معاملہ بہت ہی سنگین ہوتا جا رہا ہے اور اساتذہ کے دلوں کی دھڑکنیں بڑھتی جا رہی ہیں کیونکہ دو ریگولر سماعت کرنے والے ججز اپنے اپنے ریگولر کیسز کی سماعت کو چھوڑ کر اس کیس کی بہت ہی تیزی کے ساتھ روزآنہ سماعت کر رہے ہیں یعنی ججز عزت مآب وویک چودھری اور عزت مآب شبھاش ودیارتھی صاحبان عرضی گزار انشومان سنگھ راٹھور کی عرضی پر سماعت کر رہے ہیں اور ١: یونین آف انڈیا ( وزات تعلیم) ٢:وزارت قانون و انصاف ٣: وزارت اقلیتی بہبود اترپردیش ٤: یوپی مدرسہ بورڈ کو جواب دہ کے طور پارٹی بنایا گیا ہے اور ٹیچر ایسوسی ایشن مدارس عربیہ اترپردیش نے بھی جواب دینے کے لیے عرضی ڈالی تھی جس کو قبول کر لیا گیا یہ اچھی پہل ہے اور بروقت اس حساس اور اس سنگین مسئلہ پر فریق بننے سے راحت کی امید ہے۔
درخواست گزار راٹھور صاحب خود ہی وکیل بنے ہوئے ہیں !

٢:ویسے درخواست گزار مکمل تیاری کے ساتھ کورٹ پہنچے ہیں اور ان کی پشت پناہی مدارس اسلامیہ مخالف طاقتیں کر رہی ہیں! مدرسہ کا نظام,نصاب تعلیم اور کوالٹی آف ایجوکیشن وغیرہ ڈھیروں سارے موضوعات پر بحث چل رہی ہے لیکن یہ سوال کافی اہم مانا جا رہا ہے کہ:
Can State Education Boards Permit Religious Education In Schools? : Allahabad HC Seeks Response Of Union Education & Minority Ministries:
ترجمہ:
کیا ریاستی تعلیمی بورڈ اسکولوں میں مذہبی تعلیم کی اجازت دے سکتے ہیں؟ یہ سوال ان لوگوں سے کیا جا رہا ہے جو پہلے ہی ” مدارس میں عصری تعلیم دینے والے اساتذہ ” کو باہر کا راستہ دیکھا چکے ہیں ” جب وہ ہمارے مدرسوں میں عصری تعلیم کو پسند نہیں کرسکے تو بھلا وہ مذہبی تعلیم کو کیسے برداشت کر سکتے ہیں ؟ !مدرسہ بورڈ کے ضوابط و قوانین ,نصاب تعلیم اور اس کی ڈگریوں منشی ,مولوی,عالم,فاضل پر ہی سوالات اٹھائے جا رہے ہیں یعنی جڑ کو کاٹنے کی تیاری ہے تاکہ اس کی شاخیں خود بخود مرجھا جائیں یا گر جائیں پھر ان مدارس میں پڑھانے والے اساتذہ کی ڈگریوں ردی کی ٹوکری میں پھینکنے کے لائق رہ جائیں گی!

٣:کیا یوپی میں حکومت سے امداد یافتہ دینی مدارس ختم کر دئیے جائیں گے؟ یہ سوال اہل مدارس اور میڈیا سے جڑے افراد کے درمیان گردش کر رہا ہے۔یہ سوال اس لیے پیدا ہوا کیونکہ آسام میں امداد یافتہ دینی مدارس کو جس طرح سے ختم کیا گیا، اس کے بعد یو پی کے دینی مدارس کے وجود کو لیکر لوگوں کے شکوک و شبہات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
دینی مدارس کے ذمہ داران کا خیال ہے کہ اگر آسام کا فارمولہ یو پی میں بھی آزمایا گیا تو یو پی مدرسہ بورڈ کا بھی خاتمہ ہو جائے گا بس فرق یہ ہے کہ آسام میں وہاں کی حکومت نے ایسا کیا تھا اور یہاں کورٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے!


٤:یہ بھی واضح رہے کہ یو پی میں ٥٦٠ریاستی امداد یافتہ مدراس ہیں اور ١٢١ منی آئی ٹی آئی چل رہے ہیں ۔امداد یافتہ دینی مدارس میں اس وقت ۹۵۱۴ ؍ اساتذہ اپنے تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں ۔ امداد یافتہ دینی مدارس کے علاوہ یو پی مدرسہ بورڈ سے تسلیم شدہ دینی مدارس کی کل تعداد ۱۹۲۱۳؍ ہے ۔تسلیم شدہ دینی مدارس ریاست کے دور دراز کے علاقوں میں پھیلے ہوئے ہیں جہاں غریب بچوں کو مفت تعلیم دی جاتی ہے۔ اپنے قیام کے وقت سے ہی عربی فارسی بورڈ محکمہ تعلیم کے ماتحت کام کرتا رہا ہے ۔ لیکن ۱۹۹۶ میں عربی فارسی بورڈ کو محکمہ تعلیم سے الگ کرکے اس کو محکمہ اقلیتی فلاح و بہبود کے ماتحت کر دیا گیا ۔ اس طرح ایک صدی پرانے عربی فارسی بورڈ کی اہمیت خود بہ خود ختم ہو گئی ۔ ۱۴؍ دسمبر ۲۰۰۷ کو ریاستی حکومت نے عربی فارسی بورڈ کا نام بدل کر یو پی مدرسہ تعلیمی بورڈ کر دیا اور اس کا صدر مقام الہ آباد سے لکھنؤ منتقل کر دیا گیا۔سرکاری امداد حاصل کرنے کے لئے مدارس کو یوپی مدرسہ بورڈ سے منظوری حاصل کرنی ہوتی ہے ۔مجموعی ٥٦٠ امداد یافتہ دینی مدارس میں سے تقریبا ٣٥٠ مدارس پرائمری سے فاضل(پوسٹ گریجویشن) تک کی تعلیم دیتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اوسطا ایک مدرسے کو تین سے چار لاکھ روپئے ماہانہ ملتے ہیں جس میں ١٥ سے ١٧ ٹیچروں کی تنخواہیں شامل ہوتی ہیں۔یوپی مدرسہ بورڈ کے تحت رجسٹر امداد یافتہ اور غیرامداد یافتہ مدارس میں زیر تعلیم طلبا کی مجموعی تعداد ٢٦ لاکھ ہے جو کہ پرائمری سے فاضل تک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔

٥:سرکاری امداد یافتہ مدارس میں مذہبی تعلیم کیسے دی جا رہی ہے؟
کورٹ نے پوچھا ہے کہ سرکاری مدد لینے والے مدارس میں مذہبی تعلیم دی جا رہی ہے تو کیا یہ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 14، 25، 26، 29 اور 30 کی خلاف ورزی نہیں ہے؟
کمیشن برائے تحفظ حقوق اطفال کا کہنا ہے کی ضرورت کے مطابق مدارس میں طلباء کو بنیادی سہولیات دستیاب نہیں ہے! کمیشن نے کہنا ہے کہ موجود اساتذہ کی تعداد، نصاب اور انفراسٹرکچر کے بارے میں معلومات اکٹھا کرکے اس کی جانچ کرنی چاہیے۔نیشنل کمیشن فار اطفال پروٹکشن کا کہنا ہے کہ مدارس میں جوبچے پڑھتے ہیں، وہ بھی ہمارے ملک کے بچے ہیں۔ ان کو بھی اچھی تعلیم ملنی چاہئے۔ انہیں بھی اچھی تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے۔ مدارس میں پڑھنے والے بچے ڈاکٹر، انجینئراورسائنسداں بن کر ملک کی خدمت کریں,لیکن یہاں کوالٹی آف ایجوکیشن کا مکمل طور پر فقدان ہے۔ نیشنل کاونسل آف ایجوکیش اینڈ ٹریننگ(این سی آر ٹی) کا نصاب یوپی مدرسہ بورڈ سے ملحق مدارس میں بھی مرحلہ وار طریقے سے نافذ نہیں کیا گیا!

٦:آسام میں کیا ہوا؟
آسام میں ١٢٨١ مدارس ’مڈل انگلش سکولز‘ میں تبدیل کر دیئے گئے!
حکومت کہتی ہے کہ سرکاری پیسے سے مذہبی تعلیم نہیں دی جا سکتی‘
بی بی سی کے مطابق آسام حکومت کی کابینہ نے ١٣ نومبر ٢٠٢٠ کو ایک میٹنگ کی اور صوبائی سطح پر اس کی منظوری دی گئی۔ مدارس کو باقاعدہ ہائی سکولوں میں تبدیل کرنے اور ان مدارس میں دینی مضامین کی تعلیم واپس لینے کا فیصلہ کیا گیا کابینہ کے اس فیصلے کے دوران وزیرِ اعلیٰ ہمانتا بسوا سرما ریاست کے وزیر تعلیم تھے۔اس کے بعد سنہ ٢٠٢١ میں مدارس کی تعلیم سے متعلق دو ایکٹ کو ختم کرنے کے لیے ایک قانون بنا کر تمام سرکاری اور صوبائی مدارس کو بند کرنے کا عمل شروع کیا گیا۔
اس طرح ٢٧ جنوری ٢٠٢١ کو آسام کے گورنر کی رضامندی سے آسام مدرسہ تعلیم ایکٹ ١٩٩٥ اور آسام مدرسہ تعلیم (اساتذہ کی خدمات کی صوبائیت اور تعلیمی اداروں کی تنظیم نو) ایکٹ ٢٠١٨ کو منسوخ کر دیا گیا۔

آسام کے مدارس کی قانونی حیثیت:
گوہاٹی ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی تھی جس میں آسام میں سرکاری مدارس کی بندش سے متعلق ریاست کی جانب سے قانون سازی اور انتظامی فیصلوں کو چیلنج کیا گیا تھا۔ تاہم اس کی سماعت کے بعد ہائی کورٹ نے چار فروری ٢٠٢٢ کو رٹ پٹیشن کو یہ کہتے ہوئے خارج کر دیا کہ آسام حکومت کی طرف سے بنایا گیا آسام ریپیل ایکٹ ٢٠٢٠ درست ہے۔
فی الحال یہ معاملہ سپریم کورٹ میں ہے۔
گوہاٹی ہائی کورٹ میں درخواست گزاروں کی طرف سے پیش ہونے والے ایڈووکیٹ اے آر بھویان کہتے ہیں کہ ’جن مدارس کو سکولوں میں تبدیل کیا گیا ہے وہ مکمل طور پر مدارس نہیں تھے۔ ان مدارس میں ہائی سکول میں پائے جانے والے تمام مضامین عربی نصاب کے ساتھ پڑھائے جاتے ہیں۔لیکن حکومت کہتی ہے کہ سرکاری پیسے سے مذہبی تعلیم نہیں دی جا سکتی۔ اس وجہ سے ان مدارس کو عام سکولوں میں تبدیل کر دیا گیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’لیکن حکومت انڈیا کے آئین کی طرف سے دیے گئے حقوق کی خلاف ورزی کر رہی ہے، خاص طور پر آرٹیکل 25، 29 اور 30 کے تحت۔’مدارس میں کیا پڑھایا جائے گا یہ حکومت کنٹرول نہیں کر سکتی۔ یہ کیس سپریم کورٹ میں دائر کیا گیا ہے اور اب ہم سماعت کا انتظار کر رہے ہیں۔بھویان بتاتے ہیں کہ ’ریاستی حکومت نے تمام سنسکرت مراکز کو کمار بھاسکر ورما یونیورسٹی آف سنسکرت اور قدیم علوم میں ضم کر دیا ہے جبکہ سنسکرت ٹولوں کے نصاب اور نصاب میں زیادہ تبدیلی نہیں کی گئی ہے۔‘


مدرسہ کے معاملے کے پیچھے سیاست:
آسام میں دو طرح کے مدارس ہیں۔ ایک سرکاری تسلیم شدہ مدرسہ جو مکمل طور پر سرکاری گرانٹ سے چلایا جاتا تھا اور دوسرے جو پرائیویٹ ادارے چلاتے تھے۔
مدرسوں کی تعلیم کو ١٩٣٤ میں آسام کے تعلیمی نصاب میں شامل کیا گیا تھا اور اسی سال ریاستی مدرسہ بورڈ بھی تشکیل دیا گیا تھا۔ تاہم ریاستی مدرسہ بورڈ کو ١٢ فروری ٢٠٢١ کو ایک نوٹیفکیشن جاری کرتے ہوئے تحلیل کر دیا گیا تھا۔ آسام میں مدارس کو حکومت نے سنہ ١٩٩٥ میں سرکاری حیثیت دی تھی۔ حکومت کے تعاون سے چلنے والے ان مدارس کو ’پری سینیئر، سینیئر اور ٹائٹل‘ مدارس میں تقسیم کیا گیا تھا۔
پری سینیئر مدرسوں میں چھٹی سے آٹھویں جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی۔ سینیئر مدارس میں آٹھویں سے بارہویں جماعت تک تعلیم دی جاتی تھی اور ٹائٹل مدارس میں انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ سطح پر تعلیم دی جاتی تھی۔
اس کے علاوہ ریاست میں چار عربی کالج بھی تھے جن میں چھٹی کلاس سے پوسٹ گریجویٹ کی سطح تک تعلیم دی جا رہی تھی۔
تاہم یہ تمام مدارس اور عربی کالج آسام حکومت کے سال ٢٠٢٠ میں منسوخی ایکٹ لانے سے متاثر ہوئے ہیں۔ حکومت ان مدارس پر سالانہ تقریباً تین سے چار کروڑ روپے خرچ کر رہی تھی۔ اس وقت آسام میں سات بورڈز کے تحت کُل ٢٢٥٠ پرائیویٹ مدارس چل رہے ہیں۔ آل آسام تنظیم مدارس قومیہ کے تحت سب سے زیادہ ١٥٠٣ نجی مدارس ہیں۔
آل آسام تنظیم مدارس کے سیکریٹری مولانا عبدالقادر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’وزیر اعلیٰ اپنے ہی الفاظ کی خلاف ورزی کرتے ہیں جب وہ کہتے ہیں کہ سائنس اور ریاضی جیسے عام مضامین کو نجی مدارس میں پڑھایا جانا چاہیے جبکہ جن سرکاری مدارس کو وہ بند کر رہے ہیں وہاں عربی اردو کے علاوہ تمام عمومی مضامین پڑھائے جا رہے تھے۔‘
جب وزیر اعلیٰ کہتے ہیں کہ ’جب حکومت خود کہتی ہے کہ ہم مدارس میں مُلاّ اور مولوی نہیں بنائیں گے تو یہ سن کر بہت تکلیف ہوتی ہے۔
’وہ جانتے ہیں کہ اس ملک کے پہلے وزیرِ تعلیم مولانا عبدالکلام آزاد تھے جنھوں نے ملک کی تعلیم کے لیے پالیسیاں بنائی تھیں۔ سب جانتے ہیں کہ مدارس کو ایشو بنانے کے پیچھے کیا سیاست ہے؟‘

وزیر اعلیٰ سرما ٢٠٢٠ سے کئی تقاریب میں مدارس کے حوالے سے جارحانہ بیانات دے رہے ہیں۔
اس سال مارچ میں کرناٹک کے بیلگاوی میں بی جے پی کی وجے سنکلپ یاترا سے خطاب کرتے ہوئے انھوں نے کہا تھا کہ ’میں نے ٦٠٠ مدارس کو بند کر دیا ہے لیکن میرا ارادہ تمام مدارس کو بند کرنے کا ہے کیونکہ ہمیں مدارس کی ضرورت نہیں ہے۔
’ہمیں ڈاکٹر اور انجینیئر پیدا کرنے کے لیے سکول، کالج اور یونیورسٹیز کی ضرورت ہے۔‘
ان مدارس میں ہونے والی تعلیم کے حوالے سے ماضی میں کچھ تنازعات بھی سامنے آ چکے ہیں۔
بنیاد پرست ہندو تنظیموں کا الزام ہے کہ دور دراز کے علاقوں میں جہاں باقاعدہ سکول نہیں ہیں، بعض مدارس میں بنیاد پرست اسلام کی تعلیم دی جاتی ہے۔
پچھلے سال آسام میں چار مدارس کو ملک دشمن اور جہادی سرگرمیوں میں مبینہ طور پر ملوث ہونے کے الزام میں منہدم کر دیا گیا تھا۔
اس سال فروری میں آسام پولیس کے ڈائریکٹر جنرل نے نجی مدارس چلانے والے لوگوں کے ساتھ میٹنگ کے بعد کچھ اصول طے کیے تھے۔
ان قوانین کے تحت پانچ کلومیٹر کے دائرے میں صرف ایک مدرسہ ہو گا۔ جن مدارس میں ٥٠ سے کم طلبا ہوں گے وہ اپنے آپ کو قریبی کسی بڑے مدرسے میں شامل کر لیں گے۔
اس کے علاوہ مدارس میں زیر تعلیم طلبا ان کے والدین، ہیڈ ماسٹر سمیت تمام اساتذہ کے بارے میں مکمل معلومات حکومت کو وقتاً فوقتاً فراہم کرنی ہوں گی۔

آسام حکومت کیا کہتی ہے؟
ریاست میں سرکاری مدارس کی بندش کے بارے میں آسام کے سینیئر بی جے پی لیڈر پرمود سوامی نے کہا ہے کہ مذہبی تعلیم سرکاری گرانٹ سے نہیں دی جا سکتی۔
ان کے مطابق ’اسی لیے سرکاری مدارس کو آسام بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن کے تحت سکولوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ہمارا مقصد مسلمان بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کرنا ہے۔ تاکہ مستقبل میں ڈاکٹر اور انجینیئر بن کر دوسرے بچوں کی طرح ملک کی خدمت کر سکیں۔ حکومت نے یہ فیصلہ اقلیتی بچوں کے مفاد میں کیا ہے۔‘
سیاسی ارادوں پر اٹھائے گئے سوالات پر انہوں نے کہا کہ ’ہماری پارٹی مسلم کمیونٹی کو ووٹ بینک کی سیاست کے لیے استعمال نہیں کرتی ہے۔ اس میں کسی قسم کی سیاست نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے نجی مدارس پر کوئی کارروائی نہیں کی ’نجی مدارس مذہبی تعلیم کے لیے کام کرتے رہیں گے۔‘
آسام کے ١٢٨١ سرکاری مدارس جنھیں سکولوں میں تبدیل کیا گیا ہے وہ کل ١٩ اضلاع میں تھے۔
بنگلہ دیش کی سرحد سے متصل آسام کے دھوبری ضلع میں سب سے زیادہ ٢٦٩ مدارس کو جنرل سکولوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
جبکہ ضلع ناگون میں ١٦٥ مدارس اور بارپیٹا کے ١٥٨ مدارس کو اب جنرل سکولوں میں ضم کر دیا گیا ہے۔

٧:یوپی کے مدرسہ بورڈ میں تبدیلی کی آہٹ:
یوپی مدرسہ بورڈ کا نصاب،امتحان، تقرری اور خودمختاری اور اقلیتی اداروں کے سلسلے ایسی خبریں آ رہی ہیں جو ان میں بیجا مداخلت پر دال ہیں۔ مستقبل شناس علما کا کہنا ہے کہ جس طرح آسام میں مدرسہ ایجوکیشن ایکٹ١٩٩٥ اور آسام مدرسہ ایجوکیشن(ملازمین اور خدمات) ایکٹ٢٠١٨ منسوخ کردیے گئے۔ اب اسکول میں تبدیل ہونے والے مدارس سیکنڈری ایجوکیشن ڈپارٹمنٹ کے تحت اپنا کام کریں گے۔ گویا یہاں کلی طور پر مدرسہ بورڈ کا وجود ختم ہوگیاہے۔ اس لیے مذہبی تعلیم۔ کا کوئی نظم نہیں ہوگا ۔ لیکن سوال یہ ہے کہ جب اسکولوں میں مذہبی تعلیم کا انتظام نہیں ہوگا تو پہلے کے اساتذہ اور عملہ کیسے بحال رہ سکیں گے،یا پھر کتنے دنوں تک ان کی ملازمت کا سلسلہ جاری رہ پائے گا؟ کیا ایسے اساتذہ نئے اسکولی نظام کے لیے موزوں ہوں گے؟یا پھر ان اسکولوں میں نئے سرے سے اساتذہ کی تقرری ہوگی؟آسام میں ہونے والی اس مداخلت سے نہ صرف٥٠ ہزار طلبا اور تقریباً٧٠٠ مدارس متاثر ہوئے،بلکہ مدارس کا نظام بھی بڑی حدتک مشکوک ہوا ہے۔ اس کے علاوہ نیااسکولی نظام مسلمانوں کے لیے کتنا سود مند ہوگا؟!ایک سوال یہ بھی ہے کہ آج بے شمار اسکول موجود ہیں تو مدارس کو فی الفور اسکول میں تبدیل کردینا کس حدتک مناسب ہے؟مدرسہ طرز کی موجودہ تعمیرات کیا اسکول کے لیے مناسب ہوں گی؟الغرض آسام میں مدرسہ بورڈ کو کالعدم قرار دیاجانا جہاں دوسری ریاستوں کے لیے ایک نظیر ہے،وہیں اقلیتی اداروں میں حکومت کی مداخلت بے جا بھی ہے۔یوپی مدرسہ بورڈ کے متعلق آنے والی خبریں بھی اہم ہیں کیوں کہ یہاں ایک طرف اساتذہ کی تقرری میں شفافیت پر غور وخوض کیا جارہا ہے تو دوسری طرف کئی مدارس پر منسوخی کی تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ واضح رہے کہ ١٩١٤میں مدرسہ بورڈ کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔ابتداً اس کا نام عربی فارسی بورڈ الٰہ آباد تھا۔ ١٤دسمبر ٢٠٠٧کو ریاستی حکومت نے اس کا نام مدرسہ تعلیمی بورڈ لکھنؤ (مدرسہ سکچھا پریشد)کردیا۔یوپی مدرسہ تعلیمی بورڈ میں بی ایس پی حکومت نے چھٹا پے کمیشن نافذ کیاتھا۔یوگی حکومت نے اپنی پہلی مدت کار میں مدرسہ بورڈ کے متعلق بھی چنداحکامات جاری کیے تھے جس پر ملا جلا ردعمل تھا۔ دوسری مدت کار میں اس سرکار نے ایک اور اہم اشارہ دیا ہے۔ وہ یہ کہ اساتذہ کے لیے ٹی ای ٹی کی طرح ایم ٹی ای ٹی کا اہلیتی امتحان منعقد کیا جائے گا۔ اسی طرح اب ذمے دارانِ مدارس براہِ راست اساتذہ کا تقرر نہیں کرسکتے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کا یہ قدم قابل تحسین ہے کیوںکہ اس سے مدارس کے نظام میں شفافیت آئے گی، بہترین اساتذہ کا تقرر ہوگااور تقرری میں ہونے والی مالی بدعنوانی رک جائے گی۔ جب کہ بہت سے لوگ اس قدم کو بیجا مداخلت تصور کررہے ہیں۔ اس لیے سوال یہ ہے کہ ایم ٹی ای ٹی میںکن خطوط پر امتحانات ہوں گے؟ خدشات تو یہ بھی ہیں کہ اہلیتی امتحان میں عصری علوم پر زیادہ توجہ دی جائے گی۔ اس صورت میں اسلامیات اور دینیات کا کیا ہوگا؟ مقاصدِ مدارس کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ اگر عصری علوم کے مدنظر ایم ٹی ای ٹی کے امتحانات ہوتے ہیں تو علما کی اکثریت ناکام رہے گی۔اس صورت میں رفتہ رفتہ مدارس اسی طرح اسکول بن جائیں گے جس طرح آسام میں بنا دیے گئے ہیں۔ گویا آج یا کل یہاںبھی مدرسہ بورڈ کا برا حشر ہوگا۔ آج کئی مدارس کی منسوخی کا حکم نامہ جاری ہورہا ہے، کل بورڈ کے مدارس ازخود مقفل ہوجائیں گے۔ کیوںکہ اہلیتی امتحانات اہل مدارس کے لیے ٹیڑھی کھیر ہوں گے۔
آزادی سے قبل بھی کسی نہ کسی سطح پر بہار میں مدرسہ بورڈ موجود تھا۔ البتہ اس وقت ایگزامنیشن باڈی کے تحت اس کا کام ہوتا تھا۔ ١٩٧٨میں ایک آرڈیننس کے ذریعہ مدرسہ ایگزامنیشن بورڈ کو تحلیل کرکے بہار اسٹیٹ ایجو کیشن بورڈ بنایاگیا۔ریاستی اسمبلی نے مدرسہ ایجوکیشن بورڈ ایکٹ ١٩٨١ منظور کیا۔ فی الحال بہار میں کل ١٨٤٥مدارس منظور ہیں۔ ان میں تقریباً ٨١٤مدارس کو سرکاری مراعات حاصل ہیں۔ اس بورڈ سے متعلق آنے والی خبروں کے لحاظ سے یہاں بھی اربابِ مدارس خود مکتفی نہیں رہیں گے۔ یوپی کی طرح مدارس کے ذمے داران خود اساتذہ نہیں رکھ سکیں گے۔ اس میں ضلعی محکمہ تعلیمات کا اہم کردار ہوگا۔ پھر ٹی ای ٹی اور ایس ٹی ای ٹی کامیاب امیدواروں کو ترجیحی بنیاد پر ملازمت دی جائے گی۔ گویا یوپی کی طرح یہاں بھی تبدیلی کی آہٹیں ہیں۔ یوپی مدرسہ بورڈ کے تئیں اوپر جو معروضات پیش کیے گئے وہ بہار مدرسہ بورڈ کے متعلق بھی پیش کیے جاسکتے ہیں۔

جاری

Exit mobile version