Site icon

ہندو راشٹر کا پہلا قانون

محمد نصر اللّٰہ ندوی

___________________

   آخر کار وہی ہواجس کا  خدشہ تھا، اتراکھنڈ میں یونیفارم سول کوڈ کا مسودہ اسمبلی میں پیش کردیا گیا،بی جے پی کو وہاں اکثریت حاصل ہے،اسلئے آسانی سے یہ پاس ہو گیا اور قانون بن گیا،آزاد ہندوستان میں یونیفارم سول کوڈ کا یہ پہلا تجربہ ہے،اس بل کو پیش کرتے ہوئے وزیر اعلی کافی پرجوش نظر آئے،ایوان میں جے شری کے رام نعرے لگائے گئے،گویا فتح عظیم کی بشارت سنائی جارہی ہو،حکمراں طبقہ کے ممبران نے تالیوں کی گڑگڑاہٹ کے ساتھ اس کا استقبال کیا،وہ اس بات پر خوش تھے کہ آج انہوں نے مسلمانوں سے ان کی شریعت چھین لی اور ان کو مسلم پرسنل لا کے تحت جو خصوصی رعایت حاصل تھی، اس سے محروم کردیا ،اب نکاح کا رجسٹریشن کرانا لازمی ہوگا،اور نکاح کے رشتہ کو ختم کرنے کیلئے عدالتوں کے چکر لگانے پڑیں گے،جیسا کہ یورپ  کے ملکوں میں ہوتا ہے،سالہا سال کی مشقت اور جان ومال کی تباہی کے بعد نکاح کے بندھن سے آزادی ملے گی،تب جا کر مرد دوسرا نکاح کر سکتا ہے،ہندؤوں کے یہاں یہیں ہوتا ہے،اب مسلمان بھی اس چکی میں پسیں گے،ہندو راشٹر کا شاید یہی مطلب ہے،یعنی مسلمانوں کو ان کے دین وشریعت سے محروم کردینا،اس قانون کی سب خطرناک شق یہی ہے،جو مسلمانوں کیلئے سخت اذیت کا باعث ہوگا۔

          بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ ہندو راشٹر میں ہندو دھرم کا کوئی قانون لاگو ہوگا،حالانکہ ایسا نہیں ہے،ہندو دھرم مستقل شریعت اور قانون نہیں ہے،جس کے اندر احکام اور جزئیات ہوں،اس کے اندر زندگی گزارنے کا کوئی متعین سسٹم اور نظام نہیں ہے،وہ چند رسومات کا مجموعہ ہے،جس کے اندر روح ہے،نہ انسانیت کیلئے کوئی پیغام،البتہ نکاح اور طلاق کے سلسلہ میں ہندوستان کے پارلیمنٹ نے ہندؤوں کیلئے ایک ہندو کوڈ بل بنایا تھا،اترا کھنڈ نے اسی کی کاپی کرنے کی کوشش کی ہے،یہاں پر ایک آئینی سوال بھی اٹھتا ہے کہ اگر ریاستی قانون اور مرکزی حکومت کے قانون میں ٹکراؤ ہو تو کس قانون پر عمل کیا جائے گا؟اگر نکاح وطلاق کے مسئلہ میں مرکز کے قانون کے پر عمل کیا جائے گا تو پھر یکساں سول کوڈ کے نفاذ کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا ہے،اس لئے کہ وہاں اکثریت ہندؤوں کی ہے،جس کو ہندو کوڈ بل پر عمل کرنا ہوگا۔
    
           اسی طرح اس کوڈ میں شیڈول کاسٹ اور شیڈول ٹرائب (قبائلی) کو استثناء حاصل ہے،یعنی ان پر اس کا نفاذ نہیں ہوگا،تو پھر یکساں سول کوڈ کی معنویت ختم ہوجاتی ہے،اور اس کے وجود پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے،اس کا مطلب یہ کہ اس قانون کا مقصد صرف مسلمانوں کو پریشان کرنا ہے،اور ان کو ذہنی طور پر ٹارچر کرنا ہے،تا کہ آنے والے انتخابات میں اس کا فائدہ حاصل ہو سکے،اندیشہ ہے کہ اگر بی جے پی اپنے منصوبے میں کامیاب ہوگئی،تو آنے والے دنوں میں دوسری ریاستوں میں بھی اس کا تجربہ کرے گی اور ہندوراشٹر کے خواب کو پورا کرنے کی کوشش کرے گی۔

            یکساں سول کوڈ مسلمانوں کے دین وشریعت پر براہ راست حملہ ہے،اس پر خاموشی مذہبی طور پر خود کشی کے مترادف ہوگی،ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کے خلاف پوری طاقت سے آواز بلند کی جائے،اب اشاروں اور کنایوں سے کام نہیں چلے گا،بلکہ منظم طور پر واضح حکمت عملی کے ساتھ میدان کارزار میں آنا پڑے گا۔

۔

Exit mobile version