Site icon

مولانا قاری احمد اللہ صاحب جوار رحمت میں

جو بادہ کش تھے پرانے وہ اٹھتے جاتے ہیں

✍ محمد قمرالزماں ندوی

استاد/مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

___________

کل 10 فروری 2024ء بروز ہفتہ بذریعہ سوشل میڈیا یہ اطلاع ملی کہ ہندوستان کے مشہور قاری و مقری جناب مولانا قاری احمد اللہ صاحب بھاگلپوری صدر شعبئہ تجوید و قرآت جامعہ اسلامیہ ڈابھیل بھروچ گجرات مختصر علالت کے بعد اسی سال کی عمر اس فانی دنیا کو چھوڑ کر باقی دنیا کی طرف منتقل ہوگئے اور اللہ کے جوار رحمت میں پہنچ گئے ، انا للّٰہ وانا الیہ راجعون وہ اپنی طبعی عمر کو پہنچ گئے تھے ۔ یاد رہے کہ وہ گجرات کے صدر القراء تھے اور دار العلوم دیوبند کے شعبئہ قرآت و تجوید کے سابق استاد تھے، وہاں بھی اپنی مہارت کا نمونہ پیش کرکے ایک خلق کو فائدہ پہنچا چکے تھے۔
یوں تو بہار کی سرزمین بہت ہی زرخیز اور مردم خیز ہے، وہاں بڑے بڑے صوفیاء اتقیاء اولیاء علماء محدثین فقہاء اور ہر شعبہ کے ماہرین علم پیدا ہوئے اور دنیا میں اپنا نام روشن کیا اور سرزمین بہار کو بلندی ،نیک نامی اور عظمت و رفعت تک پہنچایا ،لیکن بہار کے جو خطے سب سے نمایاں اور ممتاز رہے ،ان میں ضلع بھاگلپور کا نام بھی نمایاں ہے ، سرزمین بھاگلپور میں حضرت علامہ شہباز صاحب رح خانقاہ شہبازیہ کے بانی ، کی خدمات کو کون بھلا سکتا ہے۔
حضرت پیر شاہ جنگی رح ، علامہ مفتی سہول صاحب بھاگلپوری سابق صدر مفتی دار العلوم دیوبند ،مولانا شاہ فخر عالم ندوی ، سابق سجادہ نشین خانقاہ پیر ڈمریا خلیفہ باغ بھاگلپور، حضرت مولانا اکرام الحق صاحب بھاگلپوری سابق شیخ الحدیث ڈھابیل گجرات مولانا حکیم دیانت صاحب بھاگلپوری، مولانا صفدر حسین صاحب ہروا ڈیہ مولانا خلیل احمد صاحب علامہ عثمان صاحب مولانا فدا حسین صاحب مولانا محمد قمر رحمھم اللہ تعالیٰ، قابل ذکر ہیں ، بھاگلپور یونیورسٹی سٹی اور ٹی این بی کالج نے تو عصری میدان کے ایک سے ایک لعل و گہر پیدا کئے، جنہوں نے اپنے اپنے میدان میں نمایاں کارنامے انجام دیے ۔ فتاویٰ عالمگیری/ فتاویٰ ہندیہ کے مرتبین و مدونین میں ایک نمایاں نام علامہ رضی الدین بھاگلپوری رح کا بھی ہے جنہوں نے علامہ نظام الدین رح کی نگرانی میں منتخب ابواب میں سے ایک باب کو مرتب کیا ، ۔۔
مولانا قاری احمد اللہ صاحب کا تعلق بھی اسی خطہ بھاگلپور سے تھا ۔ جنہوں اپنی پوری زندگی قرآن مجید کی خدمت میں گزاری ،ہزاروں قراء اور مجودین پیدا کئے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم خیرکم من تعلم القرآن و علمہ کے مصداق بنے۔ تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو قرآن پڑھے اور دوسروں کو پڑھائے۔

آج ہندوستان میں بہت سے مشہور قراء ان کے شاگردوں میں ہیں ۔ قرآن مجید کو حکم ربانی ورتل القرآن ترتیلا کے مطابق صحیح تلفظ اور مخارج کیساتھ پڑھنے پڑھانے میں انہوں اپنی زندگی کا بیشتر حصہ صرف کیا ،جو ان کے لئے قرآن وحدیث کی روشنی میں عظیم بشارت ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: فضائے قدیم؛ جدید فارغین کی رہنمائی کریں


مولانا قاری احمد اللہ صاحب رح کی پیدائش 12/ ربیع الاول 1363ھج مطابق 15/ اپریل 1944ء میں ضلع بھاگلپور کے مشہور گاؤں کرن پور میں ہوئی، ابتدائی تعلیم کرنپور میں ہوئی ،پھر مدرسہ اصلاح المسلمین چمپا نگر میں حفظ کی تعلیم قاری عبد الرشید کی نگرانی میں شروع کی ، اور حفظ کی تکمیل مدرسہ شاہی مراد آباد میں قاری ابراہیم صاحب کی نگرانی میں ہوئی ، فارسی کی ابتدائی تعلیم مدرسہ شاہی مراد آباد ، خانقاہ مونگیر میں ہوئی پھر دار العلوم دیوبند میں داخلہ لیا ہدایہ تک کی تعلیم وہاں ہوئی ،لیکن پھر دو بارہ شاہی مراد آباد آگئے اور یہیں سے 1393 ھج مطابق 1973ء فراغت حاصل کی ۔ 11/ شوال 1394ہج میں جامعہ اسلامیہ ڈابھیل میں درجہ تجوید کے لئے تقرر ہوا ،مولانا محمد سعید صاحب بزرگ گجرات کے دور اہتمام میں ۔ درمیان میں ایک سال دار العلوم دیوبند میں بھی شعبئہ قرآت میں خدمت انجام دی ۔ تقریبا پچیس کتابوں کے مصنف و مؤلف ہیں جن میں زیادہ تر تجوید اور درسیات کی کتابیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ظاہری و باطنی حسن سے نوازا تھا ، بھاری بھرکم شخصیت تھی،بہت ہی شکیل و وجیہ تھے ،صورت و سیرت دونوں کے جامع تھے ،اعلی اخلاق و کردار کے حامل وضع دار شریف خود دار ،بارعب اور بامروت انسان تھے ، 29 / رجب المرجب 1445ہج مطابق 10/ فروری 2024ء بروز ہفتہ دین و شریعت اور بطور خاص قرآن مجید کا یہ عظیم خادم اپنے وطن سے ہزاروں میل دور قرآن مجید کی خدمت کرتے کرتے اپنے رب کے حضور پہنچ گئے اور جامعہ اسلامیہ ڈابھیل کی سرزمین میں پیوند خاک ہوئے ، اللہ تعالیٰ قرآن مجید کے اس عظیم خادم کو جنت الفردوس عطا فرمائے اعلی علین میں جگہ دے کروٹ جنت نصیب فرمائے،پسماندگان وارثین و متعلقین اور جملہ متعلمین مستفیدین کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین

آسماں ان کی لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزئہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے

Exit mobile version