Site icon

علماء کے لیے ادب کی اہمیت

✍ ڈاکٹر محمد اکرم ندوی

آکسفورڈ

_______________

ہمارے دوست مفتى صاحب (جن كا ذكر خير كئى بار ہو چكا ہے) سے اگر آپ نے كہديا "ميرا خون كهول رہا ہے” تو نہايت معصوميت سے وه اگلا سوال كريں گے: "كس درجۂ حرارت پر؟”، جاڑے كے موسم ميں ٹهنڈكـ سے پريشان ہو كر اگر آپ نے عرض كيا "سارى دنيا سردى سے مر رہى ہے”، مفتى صاحب كسى ہمدردى كے اظہار كے بجائے آپ كے جمله پر دو اشكال وارد كرديں گے، ايكـ يه كه "سارى دنيا” نه كہيں، دنيا كے بہت سے علاقوں ميں اس وقت موسم مختلف ہے، دوسرے يه كه "مر رہى ہے” كہنا جهوٹ ہے، اگر آپ نے كہديا كه اس وقت ملكـ ميں ظلم كا گهٹا ٹوپ اندهيرا چهايا ہوا ہے، تو فورًا آپ كى آنكهوں كا جائزه ليں گے كه كون سى بيمارى لگ گئى ہے كه دن كى روشنى نظر نہيں آ رہى ہے، مفتى صاحب ميرے كسى سوال پر جب فقيہانه اشكالات كى بوچهار كرتے ہيں تو يه سوچ كر جواب ديتا ہوں كه متكلم كو نظر انداز كرنا تكبر ہے، مگر ميرے جواب سے انہيں اطمينان نہيں ہوتا، ہر جواب پر اس سے بهى زياده پيچيده اعتراض جڑ ديتے ہيں، تنگ آكر اپنى ذلت ناكـ شكست اور مفتى صاحب كى فتح شاہجہانى كا اعتراف كرتا ہوں، اس ميں كوئى شكـ نہيں كه آج تكـ ماؤں نے وه بچه نہيں جنا ہے جو مفتى صاحب سے پنجه لڑا سكے:
داغ ِدل ِخوں گشته سے پنجه جو ملاتا
ايسا تو كوئى لاله گلستاں ميں نه پهولا
علوم كى كتابيں مصنوعى زبانوں ميں لكهى جاتى ہيں، اور يه علوم كى مجبورى ہے، يه بات ميں نے اپنے متعدد مضامين ميں وضاحت سے لكهى ہے، اس ميں اسلامى اور غير اسلامى، جديد اور قديم علوم ميں كوئى فرق نہيں، علوم كى زبان عام بولى جانے والى زبان سے مختلف ہوتى ہے، ان ميں اصطلاحات كثرت سے مستعمل ہوتى ہيں، اور تشبيه، مجاز، استعاره، كنايه وغيره سے اجتناب ہوتا ہے، يہاں "عام” سے مراد "عام”، "خاص” سے مراد "خاص”، اور اسى طرح "مطلق”، "مقيد”، "امر” و”نہى” بہت ہى تنگ مفہوم كے لئے بولے جاتے ہيں۔
ہميں علوم كى زبان پر كوئى اعتراض نہيں، اسے ايسا ہى ہونا چاہئے، البته طلبه كو وه زبان بهى پڑهانى چاہئے جو كلاس رومز اور ليباريٹريز سے نكلنے كے بعد عام پڑهے لكهے لوگ بولتے ہيں، اس عام زبان كى ترقى يافته شكل كو "ادب” كہا جاتا ہے، دنيا كى ہر يونيورسٹى اور ہر تعليمى اداره ميں اس كا اہتمام ہوتا ہے، خاص طور سے مسلمانوں نے ادب ميں جو ترقى كى وه حيرت انگيز ہے۔
بيسويں صدى ميں مدرسوں ميں مختلف پہلوؤں سے زوال آيا، اس كا ايكـ اہم مظہر يه تها كه علماء نے ادب كى تحصيل تركـ كردى۔
ادب نه پڑهنے سے مدرسوں كے فارغين ميں دو كمياں واضح طور پر پيدا ہوئيں، 1- وه عام انسانوں كى زبان ميں اپنى بات پيش نه كرسكے اور يوں ان كا حلقۂ اثثر بہت محدود ہو گيا، 2- وه عام انسانوں كى باتيں بهى نه سمجهـ سكے، يه دوسرا معامله نہايت سنگين ہوا، مسلمانوں پر شركـ، كفر، اور گمراہى كے فتوے لگائے گئے، حالانكه جن باتوں پر يه فتوے لگائے گئے تهے ان ميں سے اكثر كا تعلق فقه ودين سے نہيں تها، بلكه زبان وادب سے تها، فتوى لگانے والے ان پڑهے لكهے انسانوں كى زبان اور اسلوب زبان سمجهنے سے قاصر تهے، اور بجائے اعتراف قصور كے انہيں پورى دليرى سے گمراه قرار ديا گيا۔
جن باتوں پر مولويوں اور مفتيوں نے دوسروں پر تنقيديں كى ہيں، ان كا جائزه ليں تو سخت حيرت سے دو چار ہوں، اسى لئے كسى نے كہا تها "شعر مرا بمدرسه كه ببرد”۔
پيغمبروں كو ليڈر كہے جانے پر اشكال كيا گيا، كيونكه ان كے محدود ماحول ميں ليڈر كا مفہوم منفى ہے، يہى لوگ پيغمبروں كو امام كہتے رہتے ہيں جبكه بہت سے معاشروں ميں امام كا مفہوم بهى منفى ہے، اسى طرح دينى مسائل كى تشريح ميں انگريزى اصطلاحات يا عام تعبيرات كے استعمال پر نكير كى گئى، كسى نے كوئى لفظ عام بول كر خاص مراد لينے كى كوشش كى، يا مطلق بولكر مقيد مراد لينے كى كوشش كى تو ايكـ طوفان كهڑا ہو گيا۔
زبان كے متعلق علماء كى محدوديت نے سخت ستم ڈهايا، روكهى پهيكى زبان ان كا امتياز بن گئى، اور تشبيه، استعاره، مجاز وكنايه ان كے لئے غير مفہوم ہوگئے۔
شام كے مشہور حنفى فقيه علامه مصطفى الزرقا علماء كے لئے ادب كى اہميت پر زور ديتے ہوئے فرماتے ہيں: "إني أرى دراسة الأدب لرجل الشريعة كالماء للتربة. فسيبقى رجل الشريعة (ولا أقول رجل الدين الإسلامي؛ لأنَّ هذا التَّعبير خاطئ من الوجهة الإسلامية) جافًا في أسلوبه وتدريسه وكتابته، ومعزولًا عن مسالك البيان المُفْصح، والأداء المُعْجِب النافع، والتذوُّق الوجداني الفنّي، لِعَظَمة القرآن، وجوامع كَلِم الرسول صلّى الله عليه وسلّم، ما لم يتمكَّن في الدراسة الأدبية، للغة العربية وآدابها”.
كاش علماء سمجهتے كه ان كے لئے ادب كى تعليم كس قدر ضرورى ہے، اس سے ان كى افاديت بڑهتى، اور ان كى تحريريں اور تقريريں زياده وقيع ہوتيں۔

Exit mobile version