Site icon

لوک سبھا الیکشن اور بھارتی مسلمان

تحریر: محمد زاہد علی مرکزی

چئیرمین تحریک علمائے بندیل کھنڈ
رکن روشن مستقبل دہلی

____________

بھارت میں چند ماہ میں لوک سبھا الیکشن ہونے والے ہیں، یہ الیکشن مرکزی حکومت کے لیے ہوتے ہیں اس لیے لوک سبھا کی خاص بات یہ ہوتی ہے کہ پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہوتا ہے، جب کہ ودھان سبھا یعنی صوبائی حکومت کے لیے مدت معینہ پوری ہونے کے بعد صوبائی سطح پر ہی الیکشن ہوتے ہیں، صوبائی الیکشن میں انھیں مخصوص صوبوں میں ہلچل دیکھنے کو ملتی ہے جہاں الیکشن ہونے ہوتے ہیں، لیکن لوک سبھا میں پورا ملک اس سرگرمی کا حصہ ہوتا ہے –
ایسے میں یہ جاننا نہایت ضروری ہے کہ مرکزی حکومت کے انتخاب میں مسلم کہاں کھڑے ہیں؟ ملک میں مسلم اکثریتی حلقے کتنے ہیں اور کہاں کہاں ہیں؟ – ہمارے بہت سے بھائیوں کو یہ گمان ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں مسلم ووٹوں کی اہمیت نہیں ہے، مسلم ووٹر اس الیکشن میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے، مسلم امیدوار اس الیکشن میں کامیاب نہیں ہو سکتے وغیرہ وغیرہ –
تو چلیے ایک نظر مسلم حلقوں میں ڈال لیتے ہیں اور یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ کیا واقعی میں لوک سبھا الیکشن میں مسلمانوں کی کوئی حیثیت نہیں!

فی الحال بھارت میں کل543 انتخابی حلقے ہیں۔ آئین ہند میں لوک سبھا کے ارکان کی زیادہ سے زیادہ تعداد 552 رکھی گئی ہے جن میں 530 ارکان ریاستوں سے منتخب ہو کر آتے ہیں اور 20 ارکان یونین علاقوں سے منتخب ہوتے ہیں۔ باقی دو انگریز بھارتیوں کے لیے مختص تھیں جن کا انتخاب بھارتی صدر کی جان سے ہوتا تھا ۔ 2019 کے آئینی ترمیم کے بعد 2 نشستیں کم کر دی گئیں اور اب یہ تعداد کل 550 ہے۔ موجودہ لوک سبھا میں ارکان کی حد 543 ہے جن میں سے 524 ریاستوں اور 19 یونین علاقوں پر مشتمل ہے:

(1) پورے ملک میں 35  نشستیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹر 30 %فیصد سے زائد ہیں –
(2) 38 نشستوں پرمسلم ووٹوں کی تعداد 21 سے تیس فیصد  ہے –
(3) 145  نشستوں میں مسلم ووٹر 11 سے 20٪  فیصد تک ہیں –
(کچھ رپورٹس کے مطابق 115 لوک سبھا کی  سیٹوں میں  مسلم ووٹ 20 فیصد سے زائد ہیں -)

(4)  اس کے علاوہ لوک سبھا کی 218 ایسی نشستیں ہیں جہاں مسلم ووٹر خاصا اثر رکھتے ہیں –

2011 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں 18 کروڑ مسلمان ہیں، یعنی چودہ فیصد، اس لحاظ سے لوک سبھا میں مسلم سانسدوں کی تعداد 76 ہونا چاہیے –

2014 میں 23 اور 2021 میں 27 مسلم سانسد لوک سبھا پہنچنے میں کامیاب ہوے – آبادی کے لحاظ سے فی الحال مسلمانوں کی نمائندگی محض چار(4%) فیصد ہے –

1952 سے 1977 تک ملک میں کانگریس کا اقتدار رہا اور اس دوران مسلم سانسدوں کی تعداد محض 2 سے 7 ٪ فیصد ہی رہی –
1980 میں سب سے زیادہ 49 مسلم سانسد لوک سبھا پہنچے تھے، تب سے اب تک یہ تعداد بجائے ترقی کے تنزلی کی شکار ہوتی جارہی ہے –

تیس فیصد(30%) والی مسلم نشستیں:
آسام 4 –
بہار 3 –
بنگال 9
جموں کشمیر 5
کیرلا 4
تلنگانہ 1
لکشدیپ 1
اتر پردیش 8

مذکورہ بالا اعداد و شمار سے یہ تو واضح ہوگیا کہ مسلم ووٹ اب بھی اتنا ہے کہ ہم چاہیں تو کافی کچھ کر سکتے ہیں لیکن ہم ایک دوسرے کا منھ تَک رہے ہیں –

5 سال، 60 کروڑ سے بدل سکتی ہے حالت

بغیر پسیے کے کوئی کام نہیں ہوتا اور بغیر خلوص کے بھی کچھ نہیں ہوسکتا، ان دونوں میں سے اگر ایک نہ ہو تو بھی مقصد کا حصول ناممکن ہے، بحمدہ تعالی علمائے کرام کے اندر قوم کا درد بھی ہے اور خلوص بھی، اگر پیسہ ہو تو پھر کام مشکل نہیں –
کسی بھی سیاسی پارٹی (مسلمانوں کے امیر لوگ بھی یہ کام کر سکتے ہیں) کے لیے 60 کروڑ کی رقم "اونٹ کے منھ میں زیرہ” جیسی ہے، لیکن اسی زیرہ جیسی رقم سے مسلمانوں اور مسلم پارٹی دونوں کا بھلا ہو سکتا ہے، مسلم اکثریتی حلقوں کی محض 30 سیٹوں کا انتخاب کریے، پھر 450 علمائے کرام کی اشتہارات یا مخصوص طریقے سے انٹرویو کے ذریعے بھرتی کریے، پندرہ دن کی ٹریننگ دیجیے، اب منتخب علاقوں میں سے ہر ایک حلقے میں پندرہ ٹرینڈ علما خدمت کے لیے تیار ہیں – میرے حساب سے یہ تعداد کافی ہے، ہر شخص کے حصے 25 سے 30 کلو میٹر مربع حصہ آئے گا، اتنے علاقے میں بندہ روزانہ اپ ڈاون بآسانی کر سکتا ہے –
450 علمائے کرام پر ایک کروڑ تقسیم کریے تو 22 ہزار 222 روپے فی کس حصے میں آئیں گے، جس میں  14 ہزار تنخواہ، 2000 ہزار رہائش کے لیے، بقیہ چھ ہزار ٹریولنگ خرچ ہوگا – (رقم میں دس بیس لاکھ اضافہ ہو تو مزید بہتری آسکتی ہے ) ایک سال میں 12 کروڑ خرچ ہوں گے یعنی پانچ سال میں 60 کروڑ، لیکن برابر پانچ سال کی محنت سے اچھے نتائج یقینی ہیں، اگر ہم پانچ سالوں بعد پانچ سیٹوں پر بھی کامیاب ہوتے ہیں تو پھر کیا کہنے اور اگر کامیاب نہیں ہوتے تو ووٹ پرسینٹج پر اتنا فرق تو ڈال ہی دیں گے کہ دیگر پارٹیاں ہمیں ساتھ لینے پر مجبور ہو جائیں گی –

بہت سے احباب سوچ رہے ہوں گے کہ بہتر ہوتا کہ ودھان سبھا کو ہدف بنایا جاتا پھر لوک سبھا، لیکن میں نے لوک سبھا کو اس لیے اہمیت دی ہے کیونکہ اگر ہم 30 لوک سبھا سیٹوں پر فوکس کرتے ہیں تو کم از کم 150 ودھان سبھا سیٹوں پر ہمارا کام ضمناً ہو جائے گا – مثلاً اتر پردیش میں ودھان سبھا کی 403 نشستیں ہیں، ہم 400 کا حساب نکالتے ہیں تو لوک سبھا کی نشستیں ہوتی ہیں محض 80، یعنی ایک لوک سبھا کی سیٹ پانچ ودھان سبھا کے برابر ہوئی، ہم 30 لوک سبھا نشستوں کی تیاری کر رہے ہیں، صغریٰ، کبریٰ کی فٹنگ کے بعد نتیجہ یہ نکلا کہ لوک سبھا کی 30 نشستیں، ودھان سبھا کی 150 نشستیں بنتی ہیں –

بالفرض ہم لوک سبھا میں کامیاب نہ بھی ہوئے تو ودھان سبھا کی 150 نشستوں پر امیدوار کھڑے کرنے کی طاقت رکھنے والے ہوں گے، اگر یہاں ہم 20 سے 25 نشستیں جیت جاتے ہیں تو مسلم قیادت کھڑی ہو جائے گی، پھر مسلمان نئی یا ووٹ کٹوا پارٹی نہ کہہ کر کندھا لگائے گا اور گاڑی چل نکلے گی – اگر ہم یہاں بھی کامیاب نہیں ہوتے اور ڈیڑھ سو سیٹوں پر لڑتے ہیں تو آئندہ الیکشن میں ہمارے بغیر کوئی کھڑا نہیں ہو سکے گا، یعنی ہم سے اتحاد مجبوری ہوگی، یوں بھی ہم کرسی تک پہنچنے سکتے ہیں، میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ مسلم قیادت کے لیے یہ گولڈن پیریڈ ہے، اس سے اچھا دور شاید پھر کبھی نہ ملے، جو بات مسلمانوں کو ہزار دفتر الٹنے کے بعد بھی سمجھ نہ آتی تھی آج وہ بات چند جملوں میں سمجھ آرہی ہے –

ہم سب نے یہ دیکھا ہے کہ لوگوں نے دس سے پندرہ کروڑ میں ٹکٹ خرید کر الیکشن لڑا اور ہار  گئے، اس طرح ایک آدمی کا بیس سے پچیس کروڑ روپیہ خرچ ہوا – ایسے لوگ بھی ہیں جن کی پانچ سو سے ایک ہزار کروڑ کی جائدادیں سلب کر لی گئیں، کاش ایسا ہوتا کہ وہ لوگ اس طرف توجہ فرماتے، الیکشن لڑنے والے دو چار لوگ مل کر بھی یہ کام کر سکتے ہیں اور قوم کے لئے نئی راہیں کھول سکتے ہیں –

Exit mobile version