Site icon

ہالۂ نور کا مرکز

  مدرسہ فاطمۃ الزہراء للبنات مشاہرہ

ازقلم: ظفر امام قاسمی

دارالعلوم بہادرگنج، کشن گنج، بہار

______________

  ١٦/دسمبر ٢٠٢٣؁ء بروز سنیچر بوقت بعد نماز مغرب ایک چار نفری قافلہ کے ہمراہ مدرسہ فاطمة الزہراء للبنات مشاہرہ ٹیڑھاگاچھ کشن گنج کی روح پرور اور پرکیف دعائیہ نشست میں شرکت کی سعادت ملی،یہ دعائیہ نشست تکمیلِ قرآن کے عنوان سے مُعنون تھی جس میں چار خوش بخت طالبات نے آخری سبق کے ساتھ اپنے حفظ قرآن کے سفر کو بحسن و خوبی پایۂ تکمیل تک پہونچایا۔
    یوں تو اس تختۂ کائنات پر آئے دن دعائیہ نشستوں کا انعقاد ہوتا رہتا ہے،کبھی کسی عنوان سے اور کبھی کسی عنوان سے،مگر کچھ دعائیہ نشستیں اُس عظیم اخلاص،جاں گسل محنت،جانکاہ ریاض،عرق ریز کاوش، انتھک جگرکاوی،بےانتہا دلسوزی،مسلسل جد و جہد،روح فشاں کوشش، بلندپایہ جذبہ اور اٹل استقلال کا پرتو ہوا کرتی ہیں جو لمبے زمانے تک آنکھوں کو نور اور دل کو سرور عطا کرجاتی ہیں،مدرسہ فاطمة الزہراء للبنات کی یہ دعائیہ نشست اسی نوعیت کی حامل تھی جس کے عنصر میں ان مذکورہ باتوں کی آمیزش نمایاں طور پر نظر آرہی تھی،اس کے خمیر سے ایک قابل قدر اور باکمال انسان کے جذبۂ اخلاص کی مہک اس شان سے پھوٹ رہی تھی کہ ہماری روحیں اس مہک سے اب تک معطر اور تازہ ہیں۔
    اور ایسا کیوں نہ ہو کہ اس نوعیت کی نشست نہ صرف اس گاؤں بلکہ اس پورے علاقے میں پہلی بار منعقد ہو رہی تھی،میرا اس گاؤں سے بہت پرانا رشتہ ہے،تقریبا میری اس گاؤں میں پچھلے بیس برسوں سے آمد و رفت ہے،جس وقت وہ چاروں طالبات قرآنِ کریم کی آخری تلاوت کے ذریعہ حفظ قرآن کی سعادت سے بہرہ ور ہو رہی تھیں اس وقت میری یادوں کا کارواں خیالات کی نگری میں آبلہ پائی کر رہا تھا جب میں بیس سال پہلے پہلی بار باضابطہ اس گاؤں میں مہمان بن کر آیا تھا،یہ 2003؁ء کا سال تھا جب اس گاؤں میں میری اکلوتی خالہ دلہن بن کر آئی تھیں،پھر میرے خالو مجھے لیکر اپنے گاؤں لائے تھے،مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب میں پہلی بار اس گاؤں میں پہونچا تھا تو اس گاؤں کی فضا مجھے اس قدر بھائی تھی (بھانے کی وجہ یہ تھی کہ کچھ دنوں سے پڑھائی سے جان چھوٹی تھی اور گھومنے پھرنے کی آزادی ملی تھی،علاوہ ازیں بچپن کے زمانے میں دل لگی کے جن رنگا رنگ آلات و اسباب کی ضرورت پڑتی ہے وہ وافر مقدار میں وہاں موجود تھے) کہ میں وہاں تیرہ دنوں تک رک گیا تھا حسن اتفاق دیکھئے کہ اس وقت میں تیرہ پارے کا حافظ تھا۔
    اس گاؤں کا پورا ماحول دنیادارانہ تھا،اس کے مکینوں کا دین سے دور کا بھی واسطہ نہ لگتا تھا،ٹی وی اور وی سی آر کی وبا عام تھی، ساز و راگ،طبل و سارنگی اور گانا بجانا ان کی زندگی کا اٹوٹ حصہ تھا،چنگ و رباب کے تاروں سے کھیلنا ان کا دل پسند اور محبوب مشغلہ تھا، بڑے تو بڑے میری آنکھوں نے وہاں کے چھوٹے بچوں کو بھی ڈھولک کی تھاپ پر تھرکتے دیکھا ہے،بڑی عمر لوگوں کی زندگی کا قافلہ بےسمت محو سفر تھا تو چھوٹی عمر کے لڑکے آوارہ گردی میں منہمک تھے، جدھر جائیے اور جس گلی سے بھی گزرئے فلمی نغموں کی جھنکار استقبال کو کھڑی رہتی تھیں،ان تیرہ دنوں میں گانوں کے بول اتنی کثرت سے میرے پردۂ سماعت سے ٹکرائے تھے کہ آج بھی وہ میری یادوں کا حصہ ہیں۔
    خدا شادکام کرے نانا مرحوم جناب ماسٹر قیصر صاحب کی روح کو کہ ان کی دور بیں نگاہوں نے مستقبل کے خطرات کو تاڑ لیا کہ اگر معاشرے کی یہی روش رہی تو نئی نسل کے لئے اپنے ایمان کی حفاظت اور اپنے اعتقاد کی صیانت بھی بھاری پڑجائےگی، لہذا آپ نے اپنے پانچ بیٹوں میں سے تیسرے بیٹے جناب الحاج حافظ اسعدالہدی صاحب کو مدرسہ کا رُخ کرایا،بیٹا بھی آپ کا اتنا فرماں بردار اور برگزیدہ ثابت ہوا کہ اولِ دن سے ہی اپنے باپ کے خواب کو تعبیری شکل دینے کی کوشش میں جٹ گیا، اور پھر ایک دن وہ آیا جب ایک باپ اپنی زندگی کے انمول خواب کو مجسم تعبیری شکل میں دیکھتا ہوا اس دنیا سے روپوش ہوگیا۔
  گرچہ باپ کے خواب کی تعبیر پوری ہو چکی تھی تاہم پھر بھی وہ ابھی ادھوری تھی،باقی ماندہ تعبیر کو پایۂ تکمیل تک پہونچانے لئے حافظ اسعد الہدی صاحب نے آج سے تقریبا دس بارہ سال پہلے ساز و راگ کی اس نگری میں” فاطمة الزہراء للبنات “ نامی ایک چھوٹے سے مدرسے کی نہاد رکھی،اس کے بعد اس اللہ کے بندے نے گھر گھر در در جاکر اس گاؤں کے مکینوں کو ایمان کی حلاوت، اعتقاد کی عظمت اور دینی تعلیم کی اہمیت سے باخبر کرنا شروع کردیا،اُدھر خدائے بےنظیر کی مدد بایں طور ان کے شاملِ حال رہی کہ ایک حافظہ،بیدار مغز، ذہین، باحیا اور وفا شعار لڑکی سے ان کی شادی ہوگئی،اب وہ ایک کے بجائے دو ہوگئے،شوہر نے لڑکوں کو تو بیوی نے لڑکیوں کو زیورِ تعلیم اور آویزۂ تربیت سے سنوارنا شروع کردیا،اور دونوں میاں بیوی اسی مدرسے کے ہوکر رہ گئے،خدا جانے اللہ کے اس بےلوث جوڑے کے اس عمل میں کتنا اخلاص تھا اور ان کے بحرِ دل میں کون سا جذبہ موجیں مار رہا تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اس مدرسے کی برکت سے اس پورے گاؤں کا دھارا ہی بدل گیا،گویا اس چھوٹے سے مدرسے سے ایک نور کا ظہور ہوا جس کی کرنیں ہالائی شکل میں پورے گاؤں میں پھیل گئیں،اور وہ چھوٹا سا پودا دیکھتے ہی دیکھتے اس گاؤں کا وہ تناور اور سایہ دار شجر بن گیا جس کی سکون بخش اور راحت زار چھاؤں نے سب کے دلوں کو موہ لیا، گاؤں کے وہی لوگ جو مکتب اور مدرسے کے نام سے بدکتے تھے اولین فرصت میں اپنے بچوں کو مکتب میں داخل کرنے کو اپنی خوش بختی سمجھنے لگے،چند سال پہلے جہاں ڈھولک کی تھاپوں پر راگ الاپے جا رہے تھے وہاں قرآن کے نغمے گونجنے لگے،جہاں کے بچے چنگ و رباب کے تاروں سے کھیلا کرتے تھے قرآن کے اوراق میں محو ہوگئے،کچھ عرصے پہلے جہاں کی بیٹیاں پردے کی اہمیت سے نابلد تھیں مکمل باپردہ ہوگئیں، آج وہی گاؤں اور وہی جگہ ہے،آج بھی میرا وہاں جانا ہوتا ہے،اب جب کہ میں وہاں کے ماحول میں ایک نمایاں انقلاب پاتا ہوں اور چھوٹی چھوٹی بچیوں کو باحجاب دیکھتا ہوں تو روح خوشی سے سرشار اور دل مسرت سے جھوم اٹھتا ہے۔
   اور چونکہ حافظ اسعد الہدی صاحب میرے خالو کے چچازاد بھائی ہیں تو اس نسبت سے ان سے ملاقات بھی رہتی  ہے آج بھی ان کی فکریں وہی ہیں جو آج سے دسیوں سال پہلے تھیں بلکہ اب تو ان میں (فکروں میں) برتری پیدا ہوگئی ہے،حافظ صاحب کی فکروں کا ہی نتیجہ ہے کہ آج اس گاؤں میں ایک نہیں بلکہ درجنوں حفاظ اب تک پیدا ہوچکے ہیں،جو اسی چھوٹے سے مدرسے کے مرہونِ احسان ہیں،آپ کی فکرِ ارجمند کا دائرہ چونکہ بچوں تک محدود نہیں بلکہ بچیوں کو بھی محیط ہے اس لئے اب تک گاؤں کی چند بچیاں بھی حفظ قرآن کی سعادت سے بہرہ ور ہوچکی ہیں،بچیوں کے نیک مستقبل اور ان کی ہی حوصلہ افزائی کے لئے گذشتہ ١٦/دسمبر ٢٠٢٣؁ء کو ایک مختصر سی دعائیہ نشست منعقد کی گئی تھی،جس میں بطور خاص میزبان مکرم نے اپنے استاذ مکرم حضرت قاری وصی احمد صاحب حفظہ اللہ نیپال کو ان بچیوں کی تکمیلِ قرآن کے لئے مدعو کیا تھا،آپ کے استاذ مکرم نے بچیوں کے قرآن کی تکمیل کرائی،جس وقت بچیوں کی قرأت اپنے اختتامی مرحلہ میں داخل ہو رہی تھی اس وقت حافظ اسعد الہدی صاحب کی پلکیں اشک باری کر رہی تھیں،یہ یقینا خوشی کے آنسو تھے جو ان کی  آنکھوں سے بڑے ناز ڈھلک رہے تھے۔
    میزبان مکرم نے اپنے استاذ گرامی کے علاوہ مجھ ناچیز سمیت جناب مولانا معمور احمد صاحب مظاہری استاذ فقہ و ادب دارالعلوم بہادرگنج، جناب قاری شارق انور صاحب استاذِ قرأت دارالعلوم بہادرگنج،جناب مفتی تصور عرفانی صاحب مظاہری غراٹولی،جناب قاضی وصی احمد صاحب پھلوڑیہ، جناب قاری منتظر صاحب ناظم دارالعلوم ٹیڑھاگاچھ اور ان کے علاوہ اپنے درجنوں واقف کاروں کو بطور مہمان خصوصی مدعو کیا تھا،نظامت کا فریضہ میرے خالہ زاد بھائی عزیز مکرم حافظ ارسلان سلمہ نے انجام دیا،تلاوت کا شرف قاری شارق صاحب کو حاصل ہوا،مولانا معمور صاحب،قاری وصی صاحب اور مفتی تصور عرفانی صاحب کی تفصیلی گفتگو ہوئی،بعدہ حفظ قرآن سے بہرہ ور ہونے والی طالبات کی مہمانان کرام کے ہاتھوں بیش قیمت انعامات کے ذریعے عزت افزائی کی گئی، اسی طرح مجھ ناچیز سمیت جملہ مدعو مہمانانِ کرام کا دیدہ زیب اور خوبصورت شیلڈ کے ذریعے استقبال کیا گیا،اخیر میں قاضی وصی صاحب کی رقت انگیز دعائیہ نشست کا اختتام ہوا۔
    دعا کے بعد میزبانِ مکرم کے سفرہ خانے میں پُرتکلف کھانے کا دسترخوان چنا گیا،جس میں انواع و اقسام کے کھانوں کی تھالیں سجی ہوئی تھیں،کافی لذیذ اور عمدہ کھانے تیار کئے گئے تھے،درجنوں لوگ اس خوانِ یغما سے لطف اندوز ہوئے،طلبہ کے تئیں مہمانوں کی اس قدر عزت افزائی آپ کی عالی ظرفی اور کشادہ قلبی کی آئینہ دار ہے، خدا آپ کو عمر خضر نصیب کرے تاکہ لمبے زمانے تک آپ کی ذات سے علم و آگہی کا یہ زریں سلسلہ  برقرار اور پائندہ رہے،اسی آپ کی محنتوں کو قبولیت سے نوازے اور آپ کے قائم کردہ ادارے کو مزید عروج و ارتقاء عطا کرے۔ آمین
     

Exit mobile version